سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 546

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ نام فلاں، تعلیم MBA، شہر فیصل باد، الحمد للّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نواں ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو بار، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو بار، ’’حَقْ‘‘ چھ سو بار اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو بار مکمل ہوگیا ہے اور قلبی ذکر ’’اَللّٰہ‘‘ لطيفۂ قلب پر دس منٹ اور لطيفۂ روح پر پندرہ منٹ اور روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں، الحمد للّٰہ! گزشتہ ماہ خفی ذکر میں توجہ مرکوز نہیں ہورہی تھی، مگر الحمد للّٰہ! اب وہ بہتر ہوگیا ہے، اور لطيفۂ روح میں دھڑکن ہی محسوس ہوتی ہے، اکثر ایسے ہی محسوس ہوتا ہے اور توجہ لطيفۂ روح اور قلب کی طرف ہوجاتی ہے اور کانوں میں بھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے، قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اب بہتر سمجھ آرہی ہے، فہم میں اضافہ ہوا ہے۔ برائے مہربانی مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ اس طرح کرلیں کہ جو ذکر آپ کررہے ہیں، اس میں لطيفۂ قلب دس، منٹ لطيفۂ روح بھی دس منٹ کرلیں اور لطيفۂ سر اب پندرہ منٹ کرلیں، باقی سارا وہی پرانا ذکر ہے۔ اسی پہ ان شاء اللّٰه! چلیں گے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ کیا حال ہے؟ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار دفعہ ہے، جسے کافی عرصہ ہوا ہے، آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

اب اس طرح کرلیں کہ دو سو، چار سو، چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ کرلیں اور رابطہ بحال رکھیں ہر مہینے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ میں برطانیہ سے فلاں بات کررہا ہوں، میرا ذکر چل رہا ہے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ آپ نے جولائی میں صفات ثبوتیہ کی جگہ صفات شیونات کا مراقبہ اضافہ فرمایا تھا جو کہ لطيفۂ سر پر پندرہ منٹ کا تھا، اس مراقبہ کو تقریباً چار مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں، کیونکہ کافی وقت کے بعد حالات لکھ رہا ہوں، اس لئے message لمبا ہوگیا ہے۔ اگست میں میرا تبادلہ دوسرے ہسپتال ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے ذکر میں بہت زیادہ مشکل پیش آرہی تھی، میں نے آپ کو message کیا، تو آپ نے کہا تھا کہ میں آپ سے بات کروں، میں نے دو بار call کرنے کے لئے messages کیا، جس پر آپ کا جواب نہیں آیا، میں نے براہ راست call کرنا مناسب نہیں سمجھا، لہٰذا مراقبہ جاری رکھا اور مصروفیت کی وجہ سے دوبارہ حالات نہیں بھیج سکا اور یہی مراقبہ اور ذکر جاری رکھا ہے۔

جواب:

اس وقت کیا حال ہے؟ یعنی official حالت آپ کی کیا ہے؟ تاکہ اس کے مطابق میں عرض کروں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں پشاور سے فلاں عرض کررہی ہوں۔ حضرت جی! اوپر میں نے آپ کو ایک message لکھا تھا، جو شاید آپ کے نظروں سے نہیں گزرا۔ لہٰذا مہربانی فرما کے اس message پر بھی ایک نظر ڈال لیں، مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں پشاور سے فلاں بات کررہی ہوں، مجھے دو ماہ ہوگئے ہیں لطيفۂ اخفی پر شان جامع کا مراقبہ پندرہ منٹ کرتے ہوئے اور اس سے پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر سننا ہوتا ہے اور اس سے پہلے سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا زبانی ذکر بھی کرتی ہوں۔ اس مراقبے میں یہ تصور کرنا ہے کہ چار مراقبات جو پہلے چار لطائف پر کیے ہیں یعنی تجلیات افعالیہ، ثبوتیہ، شیونات ذاتیہ اور مراقبۂ سلبیہ ان سب کا اکٹھا فیض اللّٰه تعالیٰ کی ذات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر آرہا ہے اور ان سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے لطيفۂ اخفی پر آرہا ہے۔ اب اللّٰه تعالیٰ کا مجھ حقیر پر یہ احسان ہے کہ کچھ اعمال کی توفیق پہلے سے زیادہ نصیب ہوگئی ہے، جیسے کہ پہلے میں سو سو مرتبہ درود شریف پڑھ رہی تھی اور استغفار بھی اتنا ہی، لیکن اب دونوں چیزیں ایک دو ہزار مرتبہ روزانہ پڑھ لیتی ہوں۔ گھر کے کام کاج کے دوران بھی ذکر کرتی رہتی ہوں، پہلے کبھی کبھی تہجد پڑھتی تھی، لیکن اب روزانہ باقاعدگی سے پڑھنے لگی ہوں۔ اور باقی یہ کہ اللّٰه تعالیٰ کی یاد ہر وقت، ہر پل میرے ساتھ ہے، بعض اوقات میں غور بھی کرتی ہوں کہ شاید کوئی پل ایسا ہوگا جس میں اللّٰه تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوگئی ہوں، لیکن مجھے کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ملا کہ جب میں ہر پل، ہر رات، ہر دن، ہر سانس کے ساتھ اللّٰه تعالیٰ کی یاد نہ کرتی ہوں، جب گھر کی صفائی کرتی ہوں تو اس نیت سے کہ کوڑا اور گند میرے دل سے نکل رہا ہے اور یہ سب میرے گناہوں کی گندگی ہے، اس طرح جب صبح اٹھتی ہوں تو ہر کام میں ثواب کی نیت کرلیتی ہوں کہ آج سارا دن جو کام بھی کروں اور جو عمل بھی کروں سب اللّٰه تعالیٰ کی عبادت کے نیت سے کروں گی اور میرے آج کے تمام معاملات اللّٰه کے سپرد ہیں اور آج سارا دن اللّٰه میرے ہر کام میں مدد کرے اور آسانی پیدا کرے۔ مجھے اپنا ہر گناہ ایسا نظر آنے لگا ہے، جیسے آئینہ میں جب اپنا چہرہ دیکھیں، تو ہر نقش واضح نظر آنے لگتا ہے، اس طرح مجھے اپنے سب گناہ نظر آتے ہیں، لیکن پھر بھی مجھ سے بہت غلطی اور گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان سے بچنے کی حالانکہ کوشش میں کرتی ہوں، لیکن پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ توبہ کی توفیق مل جاتی ہے یعنی نہ ہی گناہ سے ہٹتی ہوں اور نہ ہی توبہ سے، پھر اکثر اپنی بڑائی اور تکبر کے خیالات اور وسوسے بھی آتے رہتے ہیں، جس میں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور میں بہت پریشان اور شرمندہ بھی ہوجاتی ہوں اللّٰه تعالیٰ سے کہ بھلا میں ایسے کیسے سوچ سکتی ہوں؟ یہ میں خود نہیں سوچ رہی، بلکہ خود ہی خیال آرہے ہیں اور پھر میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے استغفار بھی کرنے لگتی ہوں۔ ایک اور بات کہ کچھ عرصہ سے جب میں گہری نیند سے بیدار ہوتی ہوں، تو اکثر ایسا محسوس کیا کہ جیسے میرا دل بہت زیادہ زور سے دھڑک رہا ہے اور میرا پورا جسم بھی کانپنے لگتا ہے اور دل بھی گھبرانے لگتا ہے، میں بہت پریشان ہوجاتی ہوں کہ شاید کوئی دل کا مسئلہ ہو، لیکن ڈاکٹر کو بتایا، تو اس نے کہا کہ آپ کا دل بالکل ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے، اللّٰه کا شکر ہے کہ مجھے شوگر کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن دل کی دھڑکن بہت تیز ہوجاتی ہے۔ کیا یہ ذکر کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ بس اللّٰه سے ہر پل دعا کرتی ہوں کہ مرنے سے پہلے میری اصلاح ہوجائے، تاکہ اللّٰه کے حضور حاضری ہو تو قلب سلیم لے کے حاضر ہوں۔ (آمین) بہت زیادہ معافی چاہتی ہوں کہ بات بہت لمبی ہوگئی، لیکن چونکہ دو ماہ بعد آپ سے بات ہوئی ہے، اس لئے تفصیل بتانا بھی ضروری سمجھتی تھی اور آپ سے ایک گزارش ہے کہ کیا مجھے نیا سبق ملے گا؟ تاکہ میں جلدی سے دوبارہ ذکر شروع کرسکوں۔

جواب:

الحمد للّٰہ! اللّٰہ کا شکر ہے کہ یہ اچھے حالات ہیں، اللّٰه تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ لیکن جیسے آپ خود سوچ رہی ہیں کہ کسی بھی پل کوئی بھی گر سکتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، جیسے شیطان کے ساتھ ہوگیا تھا، لہٰذا اس پر ہمیں check رکھنا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگیں۔ اور آپ یہ دعا اپنی دعاؤں میں شامل کرلیں، تاکہ اللّٰه جل شانہٗ جب ہدایت دے تو اس کے بعد دل میں کجی نہ رہے اور کسی وجہ سے بھی وہ توفیقات سلب نہ ہونے لگیں۔ دعا یہ ہے:

﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8) لہٰذا یہ دعا آپ باقاعدگی سے کرتی رہیں۔ اور ابھی آپ نے شان جامع کا مراقبہ کرلیا ہے، اب آپ مراقبۂ معیت کرلیں یعنی یہ تصور کریں کہ اللّٰه تعالیٰ ہر وقت میرے ساتھ ہے، باقی یہ کیسے ساتھ ہے؟ یہ تو ہمیں نہیں معلوم، کیونکہ اللّٰه تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں اس کو، لیکن بات یہ ہے کہ اللّٰه پاک میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ میرے ساتھ ہے، بس یہ مراقبہ آپ نے پندرہ منٹ کرنا ہے۔ اور تمام لطائف پر آپ کو جتنا ذکر بتایا تھا یعنی پانچ پانچ منٹ، وہ آپ نے محسوس کرنا ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ حضرت جی! آج کل نوکری میں بہت زیادہ لوگوں کی کوشش صحیح اور غلط اور ادارے کے قوانین پس پشت ڈال کر دنیا کے حصول و ترقی کی طرف ہوتی ہے اور یہ کہ اس سال کے آخر میں بہترین رپورٹ مل جائے۔ لیکن میں اپنے لئے پوچھتا ہوں کہ نمبر ایک: نوکری میں جو حالات پیش آتے ہیں، وہ کس حد تک انسان کی اصلاح میں مداخلت کرسکتے ہیں؟ نمبر دو: ایسے میں خاموش رہا جائے کہ جیسے باس کہے ویسے کرتے جائیں یا انکار کرنا چاہئے؟ نوکری کو کتنا وقت دینا چاہئے؟

جواب:

اصل میں جس وقت کو آپ بیچ چکے ہیں، اس کو اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح آپ نے کسی کام کے لئے بیچا ہے، البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 33717)

ترجمہ: ’’مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نافرمانی ہو، یہ جائز نہیں ہے‘‘۔

لہٰذا مخلوق کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ بس میرے خیال میں اس پر آپ سوچ لیں، تو اس سے آپ کو فائدہ ہوجائے گا، باقی جتنا وقت نوکری کا ہے، وہ آپ نے بیچ دیا ہے، لہٰذا آپ اس میں اپنی بہترین صلاحیتیں اس کو دے دیں۔ اور بعد میں جس وقت آپ کو چھٹی ہو اور آپ گھر پر آجائیں تو پھر اپنی اصلاح پر توجہ دیں، جو کہ انسان کا اہم کام ہے، کیونکہ نوکری پر ہم نے آٹھ گھنٹے کا وقت بیچا ہوا ہے، لیکن اللّٰه پاک نے جنت کے بدلے ہم سے سب کچھ خریدا ہوا ہے۔ لہٰذا پھر ہم کو اسی کی طرف توجہ دینی چاہئے، تاکہ وہاں پر کوئی پریشانی نہ ہو۔ بس میرے خیال میں اتنی بات پر بھی اگر آپ سوچیں گے تو ان شاء اللّٰه! آپ کو جواب مل جائے گا۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میری ہمشیرہ فلاں کا پیغام آیا ہے آپ کے پوچھے جانے پر کہ آپ نے جو ذکر بتایا تھا، وہ یہ ہے کہ وہ پندرہ منٹ لطیفۂ قلب کا مراقبہ کررہی ہیں۔

جواب:

پندرہ منٹ جو مراقبہ کررہی ہیں، تو اس وقت کیسے محسوس کررہی ہیں؟ یعنی اس کے دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہورہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ یہ اس سے پوچھیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔

میں فلاں here. One and a half months of meditation has been completed. Meditation was of ten minutes لطيفۂ قلب ten minutes لطيفۂ روح and fifteen minutes لطيفۂ سر in which ذکر of اللّٰه اللّٰه is to be felt. I felt ذکر of اللّٰه اللّٰه for four to five minutes in both لطيفۂ قلب and لطيفۂ روح but just two two minutes in لطيفۂ .سر Five days were skipped. Should I continue with this?

جواب:

Yes, you should continue with this to improve the result.

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللّٰہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ میرا ذکر الحمد للّٰہ! دو سو، چار سو، چھ سو اور تین ہزار کو ایک ماہ ہوگیا ہے اور آپ کی برکت سے بلاناغہ جاری ہے، لیکن کچھ عرصے سے کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا، اس لئے دل میں یہ بات آتی ہے کہ کیفیات مقصود نہیں ہیں، مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ دل میں آپ کی محبت اور احترام جو محسوس ہوتا ہے، وہ اب اس درجے کا نہیں ہے، بلکہ اس کی جگہ لا پروائی آگئی ہے۔ سوچتا ہوں کہ میرے بخت سیاہ ہوگئے ہیں کہ اپنے مربی سے اتنی دوری یقینی طور پر اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ پچھلے دو جوڑوں میں شرکت بھی نہ کرسکا، جس کا افسوس اور نقصان اب تک ہوا ہے اور جب جوڑ کے لئے گھر سے نکلا تو بیوی نے سخت لڑائی کی، لیکن آزمائش سمجھ کر صبر کیا۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اصل میں وسوسوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے، مگر یقینی طور پر جو غلطی ہو، اس سے بچنا چاہئے۔ باقی ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے تین ہزار مرتبہ کے لئے کرلیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ (آمین) حضرت جی! ہفتہ والے روز محلے کی مسجد میں حضرت خواجہ خان محمد صاحب کے صاحب زادہ حضرت نجیب محمد صاحب کا بیان تھا، میں صحبت صالحین کی نیت سے چلا گیا، لیکن جب میں وہاں شریک ہوا تو میرے دل اور دماغ پر آپ ہی چھائے رہے اور آپ ہی یاد آتے رہے اور اللّٰه پاک کا میں شکر ہی ادا کرتا رہا کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میرے شیخ جیسا تقوٰی، میرے شیخ جیسا حسن و جمال اور میرے شیخ جیسا علم کس کے پاس ہے؟ اللّٰه پاک کا شکر ہے۔ اللّٰه تعالیٰ آپ کی برکت سے ہماری کامل اصلاح فرمائے۔ میں فلاں۔

جواب:

اپنے سلسلے کا خیال رکھنا یہ تو لازم ہے، کیونکہ صحبت صالحین کے ساتھ اس چیز میں اپنی اصلاح بھی ہے، جو یقیناً ضروری ہے، جیسے ہم عمومی ذکر کرتے ہیں یعنی ثوابی ذکر، تو ثوابی ذکر کرنے میں ممانعت نہیں ہے، بلکہ فائدہ ہے، اجر ہے، لیکن اس کے لئے اصلاحی ذکر کو نہیں چھوڑنا ہوتا، کیونکہ اصلاحی ذکر میں اصلاح ہے، جو کہ فرض عین ہے، لہٰذا اسی طریقے سے اپنے شیخ کے ساتھ اصلاح کے لئے رابطہ یہ سارے رابطوں سے زیادہ جاندار ہونا چاہئے، باقی صحبت صالحین کے لئے یقیناً جو بھی اہل حق ہیں، ان کی صحبت میں بیٹھنے کی اجازت ہوتی ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔

I pray this message reaches you in the best of health. Beloved شیخ this is فلاں from the UK. الحمد للّٰه I have been doing my new ذکر for the past three weeks and الحمد للّٰه I feel every part of the ذکر and often get emotional. I missed two days while traveling. Unfortunately this has happened to me before. Whenever I travel, I miss some of my معمولات. I need to fix this and ان شاء اللّٰه I will now make it my priority when traveling. In the past weeks, one change I have started to feel is that in every الصلوۃ my eyes tear up even though I am not trying. الحمد للّٰه I have started to enjoy my الصلوۃ more and feel like each one has a direct impact on me and gives me سکوں and enjoyment. الحمد للّٰہ I don't think I have mentioned this before شیخ but I struggle to do many deeds continuously. One thing الحمد للّٰه which I have been able to do is to keep my parents always pleased with me. الحمد للّٰہ my mother and father are always pleased with me and make lots of Dua's for me. I do not remember that last time I upset either of them in the slightest الحمد للّٰه. I always try to look at them before going to sleep with love so that I can get the reward of حج ان شاء اللّٰه. Through listening to your blessed بیانات my mother was considering doing بیعہ and getting started on اعمال for a while now but last week الحمد للّٰہ she asked me to ask you what the procedure is for taking بیعت. Also dear حضرت with my busy studying routine should I start fasting Monday and Thursday? I really want to do it but my parents told me to ask you. Lastly I had some major family problems going on and during that time I saw a dream where مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم was in my grandmother's house and the room was full of light. There was no light coming from outside but the room was very white and well lit somehow. There were only five other people in that room whom I did not recognize except one of my uncles who had done قطع رحمی with the whole family. I was very happy to see مفتی صاحب and took the chance to ask him some questions none of which I remember now. Does this dream mean anything? Kindly remember me in your dua's dear Sheikh.

جواب:

الحمد للّٰہ! اللّٰه کا شکر ہے کہ ماشاء اللّٰہ! سلسلے کی برکات آپ پر ظاہر ہورہی ہیں، اللّٰه تعالیٰ ان کو اور بھی بڑھا دے اور یقیناً سب سے بڑی بات اپنی اصلاح ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنا، والدین کے اوپر محبت کی نظر ڈالنا یہ بہت بڑی بات ہے، اللّٰه تعالیٰ نے آپ کو یہ نصیب کیا ہے، بس اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ باقی جو آپ نے والدہ کی بیعت کے بارے میں فرمایا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لئے آپ ٹائم لے لیں، جب ٹائم مل جائے تو پھر دو رکعت صلوٰۃ التوبہ وہ پڑھ لیں اور صلٰوۃ التوبہ میں تمام گزشتہ گناہوں سے توبہ کرلیں اور پھر ان غلطیوں سے بچنے کی نیت کرلیں اور پھر اس کے بعد اس مقررہ ٹائم کے اوپر وہ ٹیلی فون کرلیں، تو ان شاء اللّٰه العزیز! ٹیلی فون پر ہی بیعت ہوجائے گی، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، بہت آسان ہے۔ اور جو آپ نے خواب دیکھا ہے، تو صالحین کو خواب میں دیکھنا، یہ صحبت صالحین کے طور پر ہے اور اس کی برکات ہوتی ہیں، ان شاء اللّٰه! اس کی برکات آپ کو ملیں گی۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔ حضرت جی! ایک سوال پوچھنا تھا کہ جب ہم لوگ کسی بھی اللّٰه والے اور متقی بندے کی مجلس میں جاتے ہیں، تو کن کن آداب کا خاص خیال رکھنا ہے؟ تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو اور بے ادبی اور کسی بھی طرح کے نقصان سے بچا جا سکے اور کیا کیا اچھی نیت ذہن میں لا کر ان کے پاس جائیں؟ تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! بہت اچھا سوال ہے۔ دراصل اس میں بات یہ ہے کہ اصل بات تو صحبت سے حاصل ہوتی ہے یعنی اگر وہ صالح، نیک، بزرگ اور اللّٰه والے ہیں، تو ان کی صحبت میں محض بیٹھنے سے بھی وہ برکات حاصل ہوجاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ بات کررہے ہوں، تو ان کی بات کی طرف انسان دھیان کے ساتھ متوجہ رہے اور اگر اس میں کوئی خیر کی بات ہو یعنی شریعت کے مطابق بات ہو، تو اس پر عمل کی نیت بھی کرلے اور اگر سوال کی اجازت وہ دیں تو اسی طرح سوال کیا جائے، جس طریقے سے وہ چاہتے ہیں یعنی اس کے خلاف نہ کیا جائے۔ باقی یہ صحبت صالحین کی نیت سے ہو، کیونکہ اصلاح کا تعلق وہ اپنے شیخ کی ساتھ رکھے، کسی اور کی طرف اس کے لئے دل میں خیال بھی نہیں آنا چاہئے، کیونکہ اس سے توحیدِ مطلب میں فرق پڑتا ہے۔ بس اتنی سی بات میرے خیال میں مناسب ہے، ورنہ تفصیلات بہت ہیں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللّٰه آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہوگیا تھا الحمد للّٰه! پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ کا ملا ہوا تھا۔ حضرت جی! شاید ایک ناغہ ہوا ہے اور کبھی کبھی نیند زیادہ آجائے یا تھکاوٹ ہو تو پانچ منٹ کے بجائے دو تین منٹ یا چار منٹ لطائف کا ذکر بھی کیا ہے۔ کچھ مراقبہ روز نہیں ہوسکا، باقی مراقبہ پندرہ منٹ ہی کیا ہے، مجھے معلوم ہے کہ دوائی کی مقدار مرضی سے نہیں لینی چاہئے، لیکن ناغہ سے بچنے کے لئے ایسا کیا ہے۔ اور ذکر میں ذاتی زندگی کے خیالات بھی آتے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ حد تک یک سوئی رہتی ہے الحمد للّٰه! حضرت جی! اب میں تھوڑا بہت جذبات پر قابو رکھ رہی ہوں۔ اللّٰه کی مدد بعض جگہوں پر بہت واضح محسوس ہوتی ہے الحمد للّٰه! بعض دفعہ وقتی نقصان پر صبر کرتی ہوں، تو اللّٰه پاک شر میں خیر دکھا دیتے ہیں، شکر ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اور میرے ساتھ لوگوں نے چالاکی بھی کی ہے، لیکن ایک طرف ان کی چال اور دوسری طرف اللّٰه پاک کی مدد ہوتی ہے، اگرچہ حالات پہلے بھی میرے مخالف تھے، لیکن مجھے اللّٰه کی مدد محسوس ہورہی ہے۔ الحمد للّٰه! میرے میاں پڑھائی کے لئے جاچکے ہیں، میں بہت پریشان تھی کہ گھر والے مجھے نہیں بھیجنا چاہ رہے تھے، مگر اب راستہ بنا ہے اور میں بھی جانے لگی ہوں جلد ان شاء اللّٰه! شرعی سفر اکیلے کرنا پڑے گا، آپ بس دعا فرمائیں کہ اللّٰه پاک آسانی رکھے۔ معمولات کی طرف کھچاؤ سے کھچاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، بہت مشکل سے معمولات کرسکتی ہوں، بالکل دل نہیں کرتا لیکن ہمت کررہی ہوں، اور ’’مناجات مقول‘‘ اور ’’چہل درود شریف‘‘ رہ جاتا ہے اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ بھی رہ جاتا ہے، اس کے علاوہ نیند کے مسئلے سے دو نمازیں قضاء ہوئی ہیں، رابطہ کرنا بھی پہاڑ جیسا لگ رہا ہے، حالانکہ میں پہلے ایسی نہیں تھی، پتا نہیں میرا دل سخت ہوگیا ہے یا کیا مسئلہ ہے؟ میں میاں کو خوش کرنے کے لئے بعض دفعہ موبائل پر تصویر بنا لیتی ہوں، تاکہ ان کی توجہ رہے، ورنہ دل سے ایسے کام نہیں کرتی، وہ چونکہ دنیا دار ہیں، اس لئے مجھے دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ تمہارے شیخ نے تمہیں بہت سخت بنا دیا ہے، یہ معمولات کرنے کی کیا ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ کبھی کبھی کہتے ہیں، ورنہ زیادہ تر میرے معمولات اور شرعی پردے پر خوش ہوتے ہیں۔ دعاؤں کی اور رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اللّٰه جل شانہٗ بہتری کی صورتیں بیدا فرمائے اور اللّٰه تعالیٰ یہ کرتے ہی ہیں، جیسے فرمایا:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو اللّٰه تعالیٰ اس میں ضرور مدد فرماتے ہیں، البتہ ہماری کوشش میں کمی نہیں ہونی چاہئے اور ہم لوگ اپنی ہمت کو جوان رکھیں اور جو اس میں مشکلات آئیں، اس پر صبر کریں اور صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف تکلیف پر صبر کریں، بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ جو کرنا چاہئے وہ کرلیں اور جس سے بچنا چاہئے، اس سے بچ جائیں، یہ اصل صبر ہے اور یہ پورے دین میں ہے۔ لہٰذا ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے اور شکر یہ ہے کہ جو اللّٰه تعالیٰ دے، اس کا اپنے آپ کو مستحق نہ سمجھے، بلکہ اللّٰه تعالیٰ کا فضل سمجھے اور اس پر اللّٰه تعالیٰ کے لئے شکر کے جذبات پیدا ہوں اور اس چیز کو اللّٰه پاک کی چاہت کے مقابل یعنی مخالفت میں نہ استعمال کیا جائے۔ باقی معمولات اپنی جگہ پہ آپ جاری رکھیں، دل چاہے یا نہ چاہے، کیونکہ اگر دل نہیں چاہے گا، پھر بھی ہم کریں گے، تو اس سے دو فائدے آپ کے ہوجائیں گے، ایک تو معمولات کا فائدہ ہوگا یعنی جذب حاصل کرنے کے لئے یہ ذکر و اذکار ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ چونکہ نفس نہیں چاہتا، لیکن آپ کررہی ہیں، تو یہ نفس کے لئے مجاہدہ ہے اور مجاہدات سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے، لہٰذا اس سے ماشاء اللّٰہ! دونوں فائدے آپ کو حاصل ہوں گے، اس لئے آپ بالکل اس بات کی طرف نہ سوچیں کہ میرا دل نہیں چاہتا، بس دل کے چاہنے، نہ چاہنے کو نہیں دیکھنا، کیونکہ اگر دل کے مطابق ہم لوگ سارا کچھ کرلیں، تو پھر اگر کافر کہہ دے کہ میرا دل نہیں چاہتا، تو پھر کیا وہ بچ جائے گا؟ دراصل دل جب تک نفس کی یلغار میں ہے، اس وقت تک وہ اچھی چیزیں نہیں چاہے گا اور جس وقت نفس کی اصلاح ہوجائے گی اور نفس مطمئنہ حاصل ہوجائے گا، تو پھر خود بخود ہی دل بھی اس پر آجائے گا۔ اللّٰه جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے دیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ نمبر ایک: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت پندرہ منٹ ہے، اس مراقبے کے ساتھ دنیا سے دل بالکل بھر گیا ہے، موت کی فکر اور آخرت کا خوف بھی بڑھ گیا ہے، اب اگر کوئی سخت بات بھی کہہ دے تو پروا نہیں ہوتی، بس اللّٰه میرے ساتھ ہے اور ہمہ وقت دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر جاری رہتا ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے دل کا منہ ہے، جو ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کہہ رہا ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے، اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا، اس لئے آپ اس کو دو مہینے جاری رکھیں، پھر اطلاع کردیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم سیدی مرشدی! دل پر ظلمت محسوس ہو تو سالک کو اسے دور کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

ظلمت اندھیرا ہے اور ذکر روشنی ہے، لہٰذا اس پر ذکر کرنا چاہئے اور اگر وسوسے کی صورت ہو تو پھر مرشد کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت! کبھی کبھار لوگوں سے بات کرتے وقت جب وقت ضائع ہونا محسوس ہونے لگے، تو زبان کے بغیر ذکر شروع ہوجاتا ہے یا شاید خود شروع کرتا ہوں، چونکہ زبان نہیں ہلاتا، اس لئے پوری طرح سمجھ نہیں کہ دماغ سے ہوتا ہے یا دل سے ہوتا ہے، لیکن یہ سنا تھا کہ سوچ اور تصور سے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا کہ اس طریقے کو میں نہیں جانتا۔ تو کیا یہ کرنا چاہئے؟ کبھی کبھار اکیلے حالت میں بھی زبان ہلانے کی ہمت نہیں ہوتی، تو ایسے ہی ذکر پر اکتفاء کرلیتا ہوں، سوچ یا قلبی زبان کو شامل کرنے میں ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، جو عمل میں نہیں لاتا، کیا یہ قبول ہے؟ اس ذکر کے ساتھ سانس اور بدن کی حرکت بھی شامل ہوجاتی ہے۔

جواب:

بالکل یہ ٹھیک ہے، کیونکہ آپ دو عضو کو تو شامل کر ہی رہے ہیں یعنی دل بھی شامل ہے اور دماغ بھی شامل ہے، البتہ اگر زبان بھی شامل ہوجائے تو اس پر مزید آپ کو فائدہ ہوگا، اس لئے آپ کوشش کرلیں، لیکن بعض دفعہ اگر نہیں ہوتا تو یہ دو تو شامل ہیں ہی، ان شاء اللّٰه! اس پر شکر کریں، اللّٰه پاک اپنی نعمت بڑھائیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔

I am back to my routine but my routine is disturbed. When I do long hours duties, day and night which takes fourteen hours. These long duties come one to two times in a week on average. Thank you.

جواب :

ماشاء اللّٰہ! پھر آپ اس طرح کرلیں کہ جو routine آپ کی ہو، اس کے مطابق اس کو set کرلیں کہ جو ایسے اوقات ہوں جس میں آپ یہ کرلیں، اور اس میں آپ کو ٹائم تبدیل کرنا نہیں سمجھیں گے، بلکہ routine کی تبدیلی کے مطابق resetting کریں گے، اس لئے آپ اس طرح resetting اس کی بنا لیں اور وہ مجھے بھیج دیں، پھر اس کے بارے میں ان شاء اللّٰه! میں بات کرلوں گا۔

سوال نمبر 18:

پاسِ انفاس کے متعلق سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے جو فرمایا ہے اس کے متعلق کچھ فرما دیں۔

جواب:

اوپر ایک سوال میں یہ تھا کہ حضرت! کبھی کبھار لوگوں سے بات کرتے وقت جب وقت ضائع ہونا محسوس ہونے لگے، تو زبان کے بغیر ذکر شروع ہوجاتا ہے یا شاید خود شروع کرتا ہوں، چونکہ زبان نہیں ہلاتا، اس لئے پوری طرح سمجھ نہیں کہ دماغ سے ہوتا ہے یا دل سے ہوتا ہے، لیکن یہ سنا تھا کہ سوچ اور تصور سے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا کہ میں اس طریقے کو نہیں جانتا۔

یہ بات صحیح ہے، اصل میں یہ ایک خاص ذکر ہے جو کہ دل سے کرنا چاہتے تھے یعنی یہ پاس انفاس ﷺ کی بات ہے، اس لئے کہ یہ چیز معمول میں نہیں ہے۔ خیر حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ جو پاس انفاس ہے، اس میں یا ’’ھُوْ‘‘ کا لیتے ہیں یا ’’الَلّٰه‘‘ کا لیتے ہیں یا ’’الَلّٰهُ‘‘ کا لیتے ہیں یا پھر ’’اِلَّا اللّٰه‘‘ لیتے ہیں، بہرحال یہ مختلف ہیں اور یہ سانس کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص پاس انفاس کرتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سانس کے ساتھ کرتا ہے اور پاس انفاس ﷺ میں چونکہ ﷺ ذرا لمبا لفظ ہے، اس لئے وہ سانس کے ساتھ نہیں ہوتا، البتہ مختصر جیسے ’’اَللّٰهْ‘‘ یا ’’اَللّٰهُ‘‘ یا ’’ھُوْ‘‘ کیا جاتا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ وہ میں نہیں جانتا۔

سوال نمبر 19:

جس سے میں نے پوچھا تھا کہ جو پندرہ منٹ لطيفۂ قلب کا مراقبہ کررہی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ اس پر اس نے کہا کہ خیال کرنے سے ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، پھر اس کے بعد دس منٹ دل پر کریں، اور پندرہ منٹ لطيفۂ روح پر کریں۔

سوال نمبر 20:

حضرت! یہ جو نفلی عبادت ہوتی ہے، جیسے نوافل وغیرہ اس میں بعض اوقات دل زیادہ لگتا ہے اور فرائض میں کم لگتا ہے یعنی بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

جواب:

اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں کی انسان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے، اس کے ساتھ انسان عادی ہوتا ہے اور جن چیزوں کا عادی ہوتا ہے، تو وہ معمول کی چیزیں ہوتی ہیں، اس میں انسان کو اتنی زیادہ توجہ نہیں ہوتی، لیکن جو کبھی کبھی ہوتی ہیں یا معمول سے ہٹ کے ہوتی ہیں، تو اس میں توجہ زیادہ ہوتی ہے، یہ تو ایک طبعی بات ہے، لیکن جب انسان عقلی طور پر سوچتا ہے کہ اہمیت کس چیز کی زیادہ ہے؟ تو وہ فرائض کی زیادہ ہے، پھر فرائض کی طرف وہ زیادہ توجہ دیتا ہے اہمیت کے لحاظ سے۔ مثال کے طور پر اگر فرض کو چھوڑ کر کوئی نفل پڑھے تو ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑے خسارے کی بات ہے اور نفل کو چھوڑ کر فرائض کو پڑھے تو صرف ایک فضیلت کی محرومی ہے، مگر نقصان نہیں ہے، کوئی گناہ بھی نہیں ہے، جبکہ فرائض کو چھوڑنے سے گناہ بھی ہوتا ہے، لہٰذا عقلی طور پر اس کی طرف پھر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مزاجوں کی بھی بات ہے کہ بعض مزاجوں پر عقل کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے، اس لئے وہ ایسی چیزوں میں عقلی رجحان کی وجہ سے یعنی جو عقلی طور پہ ثابت چیزیں ہوتی ہیں، ان کی طرف ان کا دھیان زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد جو درجہ بدرجہ کے لحاظ سے ہوتی ہیں یعنی جو جتنے درجے پر ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے اس کے لئے توجہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نوافل ایک اضافہ ہے اور نفل کہتے بھی اس کو ہیں جو اضافی چیز ہو، لیکن اضافہ دو معنی میں ہے، ایک تو یہ کہ اللّٰه کا پسندیدہ عمل ہے فرائض، واجبات اور سنن کے بعد، کیونکہ فرائض اور واجبات میں تو کوئی اضافہ کر نہیں سکتا، بس وہ جتنے ہیں، اتنے ہی رہیں گے، اس میں زیادتی کوئی نہیں کرسکتا، لیکن اللّٰه پاک نے اس میں بہت بڑا scope دیا ہوا ہے کہ پوری رات بھی اگر کوئی نفل پڑھتا رہے تو منع نہیں ہے یعنی جتنا زیادہ کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، اس میں پھر وہ اپنی حسرتیں نکال سکتا ہے یعنی جس کو عبادت کے ساتھ لگاؤ ہوتا ہے، تو وہ نوافل زیادہ سے زیادہ پڑھ لیتا ہے، لہٰذا اس لحاظ سے اس کی طرف توجہ ہوتی ہے، لیکن حکم کے لحاظ سے فرائض کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو پھر اس قسم کی چیزیں نہیں آتیں، لیکن جن کی طبیعت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے، تو ان کو اس قسم کی چیزیں زیادہ پیش آتی ہیں۔

سوال نمبر 21:

کچھ نفلی عبادتیں جو ہوتی ہیں، مثلاً تہجد کی نماز ہے یا اور کوئی نوافل ہیں، اس میں پابندی بھی تقریباً فرائض کے ساتھ ملتی جلتی ہوتی ہے یعنی ان کی پابندی بھی بالکل اسی طرح کی پابندی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود پھر یہ مسئلہ اس میں رہتا ہے۔

جواب:

پابندی سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ ایک اضافی چیز ہے، اگرچہ پابندی یقیناً فرائض کی طرح ہے، لیکن ہے اضافی چیز، ہمارے لئے لازمی چیز نہیں ہے، لیکن اضافی چیز کا طبعی اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کا عقلی جذبہ ہو تو وہ اس کو ایک اضافی چیز سمجھ کر اس کو توجہ ضرور دیتا ہے، لیکن اس کا اس طرح فرائض کے ساتھ معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سلوک نبوت جن کا ہوتا ہے، ان کے لئے یہ لازمی چیز ہوتی ہے کہ ان کے فرائض، واجبات اور سنن مؤکدات کی طرف ان کا دھیان زیادہ چلتا ہے اور ان کا نوافل کی طرف زیادہ دھیان نہیں چلتا، لیکن جو سلوک ولایت والے حضرات ہیں، ان کا اس طرف زیادہ چلتا ہے، وہ اپنے آپ کو روکتے ہیں، اگرچہ عقلی طور پہ وہ بھی جانتے ہیں، لیکن طبعاً وہ اس طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور سلوک نبوت والے طبعاً اس طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 22:

اس میں نفس کا یا شیطان کا تو کوئی عمل دخل تو نہیں ہوتا؟

جواب:

جب تک انسان اپنی عقل کی بات مانتا ہے اور اس مسئلے میں راجح مرجوح والی بات اس کی صحیح ہو یعنی اگر وہ راجح مرجوح والی بات کو مانتا ہے تو اس کو کوئی نقصان نہیں ہے، نہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس وہ ایک طبعی چیز ہے، مثال کے طور پہ کسی کا حلوہ کھانے کا زیادہ جی چاہے اور روٹی کھانے کو جی نہ چاہے، لیکن روٹی اس کے لئے زیادہ لازمی ہے۔ لہٰذا اگر وہ جانتا ہے کہ روٹی میرے لئے زیادہ لازمی ہے، اس لئے میں روٹی تو کھاؤں گا، البتہ ایک دو نوالے میں حلوے کے بھی لے لیتا ہوں کہ طبیعت کا ایک حق ادا کرلیتا ہوں، تو ٹھیک ہے، لیکن روٹی وہ زیادہ کھاتا ہے، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ میرا جسم روٹی پر ہی قائم ہے، حلوہ پر قائم نہیں ہے۔ لہٰذا اس طرح اگر کوئی کرلے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دیکھیں! جو normsy کھانا ہوتا ہے، اس کی طرف انسان کا دھیان زیادہ نہیں ہوتا، حالانکہ اس کی body کا structure سارا اس پر قائم ہے، لیکن جو اضافی چیزیں ہیں، جیسے چٹنی ہوگئی یا سلاد ہوگیا یا کوئی اس طرح کی چیز ہوگئی مثلاً حلوہ ہوگیا یا fruits وغیرہ ہوگئے، تو ان کی طرف انسان کی طبیعت زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس کو عقلی طور پر پتا ہوتا ہے کہ فائدہ اس میں زیادہ ہے، لہٰذا جو لوگ ان چیزوں کو جانتے ہیں، تو وہ اس کے مطابق کام کرتے ہیں۔

سوال نمبر 23:

کچھ وظائف جو کبھی مجبوری سے یا جلدی میں رہ جاتے ہیں، مثال کے طور پر نماز کے بعد کبھی جنازہ ہوتا ہے، تو فرض کے بعد جلدی نکلنا پڑتا ہے، تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب:

ہاں! اس وقت عذر ہوتا ہے اور عذر میں چھوڑ سکتے ہیں، چونکہ یہ ساری چیزیں اضافی چیزیں ہیں، لازمی نہیں ہیں، مگر جنازہ چونکہ فرض کفایہ ہے، بالخصوص جو پڑھانے والا ہے، تو اس کے ساتھ اور لوگ بھی وابستہ ہیں، اگر وہ ان تمام معمولات کو کرکے اٹھے گا تو ظاہر ہے کہ پھر ان کا کام رکے گا، اس لئے وہ ایسا کرسکتے ہیں کہ جنازہ پڑھا کے پھر اس کو مکمل کرلیں، یہ کوئی مشکل نہیں ہے، البتہ یہ بھی صرف عادت کو برقرار رکھنے کے لئے ہے، ورنہ لازمی پھر بھی نہیں ہے۔ جیسے حائضہ کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ نماز کے وقت میں بیٹھ کے کچھ اذکار وغیرہ کرلیا کرے، تاکہ عادت خراب نہ ہو، بس اسی طرح یہ بھی ہے۔

سوال نمبر 24:

بعض اوقات کوئی آدمی آکر بیٹھ جاتا ہے اور آپ نماز پڑھ رہے ہیں یا نفل میں مشغول ہیں اور آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک بندہ بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ کہیں جانا ہے، تو اس صورت میں اس عمل کو موقوف کریں یا جاری رکھیں؟

جواب:

اس کے ساتھ اگر کہیں جانا ہے اور ٹائم پہلے سے طے ہے تو ٹائم ایسا طے کرنا چاہئے کہ اس میں ان چیزوں کا بتا دیا جائے کہ میں ان چیزوں کو کرنے کے بعد جاؤں گا، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لہٰذا اس ٹائم کو خود اپنی conditions پر طے کرسکتے ہیں۔

سوال نمبر 25:

اگر ایمرجنسی میں کہیں نکلنا پڑے تو پھر کیا کریں؟

جواب:

ایمرجنسی والی بات الگ ہے، جیسے حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰه عنہ کسی کے قرض کی سفارش کے لئے اپنے نفلی اعتکاف کو چھوڑ کے گئے تھے، لہٰذا یہ ایک علیحدہ بات ہے۔

سوال نمبر 26:

جو معمولات یہاں سے بتائے جاتے ہیں کہ صبح کے وقت کلمہ شریف، پھر استغفار پڑھیں، یہ جو ترتیب ہے، یہ اگر کسی کے زبان پر نہ چڑھی ہوئی ہو، بلکہ صرف درود شریف ہی چڑھا ہوا ہو اور اسے کنٹرول نہ ہو، بس زبان ویسے ہی چلتی رہے تو کیا کرے؟

جواب:

اس کو ہم نہیں روکیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کی طبیعت یہ ہے تو ہم اس کو کیوں روکیں؟ جیسے حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ بھئی! اگر اس حدیث شریف پر کسی کا عمل ہے تو اس کو روکنے کے ذمہ دار ہم نہیں بنتے، البتہ اگر ہم سے پوچھیں گے تو ہم کہیں گے کہ جیسے گلدستہ ہوتا ہے اور اس میں ہر پھول ہوتا ہے، تو ہمارے مشائخ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سارے پھولوں کو گلدستہ میں بناتے وقت رکھتے ہیں، اس لئے ہم بھی یہ بتاتے ہیں۔ باقی اگر وہ اپنی طبیعت پہ عمل کرتا ہے تو چونکہ اس میں اختیار ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے اگر وہ اپنی بات کرتا ہے تو ٹھیک ہے، اس کو ہم روکیں گے بھی نہیں۔ کیونکہ یہ ذکر اس میں خود میرے ساتھ بھی یہ بات ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس قسم کی بات کرلے تو پھر میں کہتا ہوں بھائی! اس میں روکوں گا نہیں، البتہ مجھ سے پوچھیں گے تو پھر میں ایسے ہی بتاؤں گا۔ اور اگر دیکھا جائے تو درود شریف کی value بہت زیادہ ہے، لیکن جس چیز پر آپ ﷺ کا خود عمل ہو اور پورے عالم تک وہی چیز پہنچائی ہو یعنی ’’قُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ تُفْلِحُوْا‘‘ (کلمہ پڑھ لو کامیاب ہوجاؤ گے)۔ لہٰذا اگر آپ اپنی پسند کی بات پہ جاتے ہیں اور ہم آپ ﷺ کی پسند پہ جاتے ہیں، تو اس میں پھر بات clear ہوجائے گی۔ اور پھر آپ ﷺ نے خود فرمایا تھا کہ میں 70 سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا ہوں، اس لئے استغفار کی فضیلیت بہت ہے، حالانکہ آپ ﷺ معصوم تھے، لیکن پھر بھی 70 مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے ہیں اور 70 کا لفظ عربی میں کثرت کے لئے آتا ہے یعنی فرمایا میں کثرت سے استغفار کرتا ہوں، لہٰذا جب آپ ﷺ خود وہ عمل کررہے ہیں، حالانکہ معصوم بھی ہیں اور ہم تو گناہگار ہیں، ہمیں تو ضرورت بھی ہے، اس لئے اس کو میں جرنیلی ذکر کہتا ہوں کہ اس میں سب کچھ آتا ہے، جیسے جرنیلی سڑک ہوتی ہے اور جیسے بعض لوگ ابن الحال ہوتے اور بعض لوگ ابو الحال۔ ابن الحال وہ ہوتا ہے، جو حال سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور ابو الحال وہ ہوتے ہیں، جو اپنے حال پر غالب آجاتے ہیں یعنی حال ان کا کچھ بھی ہے، لیکن وہ کرتا وہی ہے جو چاہئے ہوتا ہے، وہ اپنے حال کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت بھی وہی کرتا ہے جو چاہئے ہوتا ہے، مثلاً قبض ایک حال ہے، اب اگر کسی کو کسی وقت قبض ہے اور عبادت کو دل نہیں چاہتا، تو کیا خیال ہے اس حال کا اتباع کریں؟ نہیں، بلکہ اس وقت اس کو حال کے اوپر غالب آنا چاہئے اور بسط میں چیخے چلائے نہیں، وہاں پر بھی اپنے آپ کو کنٹرول کریں، تو یہ ابو الحال ہوگا۔ ایک بات میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ آج کل جو مختلف قسم کے لوگ articles لکھتے ہیں مختلف چیزوں میں، ان میں balance والی بات بہت کم ہوتی ہے یعنی اس میں balance سے out ہوجاتے ہیں، مثلاً عشق کی کوئی بات کرتا ہے تو عقل کو بالکل زیرو کرلیتا ہے، حالانکہ عقل اللّٰہ پاک نے کسی خاص چیز کے لئے دی ہوئی ہے یعنی عشق ایک طاقت ہے، جیسے انجن کی طاقت ہو، لیکن عقل steering ہے، اب کیا خیال ہے کہ آپ انجن کی طاقت بڑھاتے جائیں اور steering پہ کنٹرول چھوڑ دیں، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ accident ہوجائے گا اور جتنا زیادہ strong انجن ہوگا، اتنا ہی accident زیادہ مضبوط ہوگا، پھر اپنے آپ کو بھی نقصان دینے والا ہوگا، دوسروں کو بھی نقصان دینے والے ہوگا، لہٰذا اس وقت steering کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، جیسے بڑی بڑی جو بسیں ہوتی ہیں، ان میں Pressure breaks ہوتی ہیں اور باقاعدہ اس کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ Pressure break ہے، احتیاط کریں، کیونکہ بالکل اس کے ساتھ گاڑی جم کے رک جاتی ہے، اب اگر پیچھے سے کوئی گاڑی آئے تو اس کو hit کرسکتی ہے، لہٰذا اس کے لئے کنٹرول اتنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ اس کی اپنی momentum اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ رکتے رکتے بھی کچھ گڑبڑ کرسکتی ہے۔ اسی طرح جو زیادہ عشق والا ہے، اس کو زیادہ عقل کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اس کے حساب سے اپنے آپ کو کنٹرول کرسکے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰه علیہ کا یہی طریق مسلک تھا، ایک مرتبہ طبعی محبت اور عقلی محبت پہ discussion ہورہی تھی، تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰه علیہ صاحب نے فرمایا: بھئی! طبعی محبت میں چاہے کچھ بھی ہو، لیکن ایک مسئلہ اس میں ہوتا ہے کہ اس میں انتظام نہیں ہوتا۔ اس لئے اپنے آپ کو کنٹرول کرنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰه علیہ کے جتنے بھی مسائل ہیں، آپ ان کے بیانات میں، تحریروں میں دیکھیں تو بہت balance نظر آئے گا یعنی عقلی لحاظ سے کافی balance ہوگا، اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی اگر کوئی چیز بیان کررہے ہیں تو ساتھ دوسری بھی بیان کررہے ہیں، اس میں اپنی طبیعت کے مطابق آگے پیچھے نہیں جاتے، بلکہ دوسرے سارے لوگوں کے مصالح ان کے سامنے ہوتے تھے کہ طالب علم یہاں پر پریشان ہوسکتے ہیں، نئے طالب علم اس میں یہ بات کرسکتے ہیں، علماء کو یہ اشکال ہوسکتا ہے، فلاں کی یہ بات ہوسکتی ہے یعنی ساتھ ساتھ اس طرح بتاتے جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان تمام چیزوں پہ کنٹرول حاصل تھا۔ اسی طرح میں کبھی کبھی عرض کرتا رہتا ہوں کہ جن پہ عقل کا غلبہ ہے، وہ پرہیز کرسکتا ہے اور جن پہ عقل کا غلبہ نہیں وہ پرہیز نہیں کرسکتا، وہ طبیعت کے رو میں چلا جاتا ہے۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ پرہیز کرسکتے ہیں، تو مجھے ان سے زیادہ امید ہوتی ہے کہ وہ ان شاء اللّٰه! باتوں پہ عمل بھی زیادہ کرسکتے ہیں، کیونکہ ان میں کنٹرول ہے، اگر ان کو کچھ کہا جائے تو اس پر وہ عمل بھی کرسکتے ہیں، کیونکہ ان کی عقل strong ہے، وہ اپنی عقل کے مطابق فیصلے پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔ مگر جن کا عقلی معاملہ کمزور ہو یعنی وہ پرہیز نہیں کرسکتے، مجھے ان کے بارے میں بڑا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ معاملہ بڑا مشکل ہوتا ہے یعنی اگر یہ کسی چیز کو چاہیں بھی تو شاید آسانی سے نہ کرسکیں، کیونکہ طبیعت ان پہ زیادہ غالب ہے، اس لئے ان کے لئے مجھے زیادہ فکر کرنے پڑتی ہے۔

سوال نمبر 27:

قوت کے لحاظ سے طبعی قوت شروع میں زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس میں اگر کوئی آدمی اس کو کنٹرول کرنا چاہے اور پھر کنٹرول ہوجائے تو پھر کنٹرول آتا بھی زیادہ ہے، یہ بات ٹھیک ہے؟ یعنی کسی کو طبعی خوف ہے یا طبعی محبت ہے۔

جواب:

نہیں، یہ اور چیز ہے اور اسی طرح محبت بھی اور چیز ہے۔ اصل میں طبیعت strong ہے، اس میں کوئی شک نہیں، مگر اس میں جیسے انجن کی میں نے مثال دی ہے، تو وہ طبیعت ہے، لیکن عقل steer کرتی ہے، وہ کنٹرول کرتی ہے، اس لحاظ سے اس کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے کہ جو طبیعت ہے، وہ بے شک صحیح طرف بھی جارہی ہو، لیکن check اس پہ رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اپنی طبیعت کے موڈ میں آگے limit کو cross نہ کرلے، اس لئے اس پہ check رکھنا پڑتا ہے، اگرچہ طاقت اس میں یقیناً زیادہ ہے، کیونکہ جو طبعی محبت ہے، وہ زیادہ دیرپا ہوتی ہے، کیونکہ عقل تو سوداگری کرتی ہے یعنی وہ اپنے لئے کچھ بچاتی ہے۔ لیکن ایسے موقع پہ کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑنے والی بات ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کو زیرو نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی اپنی اہمیت ہے، اس لئے اس کو ختم نہیں کرنا چاہئے، البتہ آپ کے ساتھ یہ ایک limit تک جاسکتا ہے۔ اور اگر عقلی محبت طبعی محبت بن جائے تو پھر وہ صبر ہوتا ہے، پھر وہ بہت آگے جائے گا اور جتنے بھی اللّٰه والے ہیں، جو بہت زیادہ آگے گئے ہیں، ان کی اصل میں یہی بات تھی کہ ان کی عقلی محبت طبعی محبت میں بدل گئی تھی، اور طبعی محبت کی طرح ان کا behavior ہوگیا تھا، لیکن ان کی تھی عقلی محبت، جیسے اللّٰه تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں رہا، لیکن اگر ہمیں محسوس ہورہا ہے تو کس طریقے سے محسوس ہورہے ہیں؟

سوال نمبر 28:

لیکن طبعی محبت عشق کی طرف جلدی نہیں لے کے جاتی؟

جواب:

بالکل، لیکن کنٹرول سے باہر بھی کر دیتی ہے۔ اصل میں ہم لوگ اگر اس بحث میں پڑ جائیں تو شاید کبھی بھی اس کا solution نہ آئے، کیونکہ ہر طرف بہت مضبوط دلائل ہیں، مگر آخر میں بات ہمارے شاہ ولی اللّٰه رحمۃ اللّٰه علیہ پر ہی آجاتی ہے، جو تینوں کو handle کرتی ہے یعنی عقل، دل اور نفس، ان تینوں کا جو balance ہے، وہ اصل میں solution ہے، اس میں پھر ہر ایک اپنا اپنا roll play کرسکتا ہے یعنی عقل کی اپنی جگہ ہے، دل کی اپنی جگہ ہے، طبیعت اور نفس ایک ہے اور عقل سوچ و بیچار اور ان کی تمام چیزوں کے ساتھ ہے اور جو محبت ہے، وہ دل کی بات ہے۔ اب جو طبعی محبت ہے، مثال کے طور پہ کسی نے کسی کو دیکھا، تو اس کے ساتھ اس کی محبت ہوگئی تو اس کا دل اس کے نفس نے متأثر کیا ہے، اس لئے وہ اس کو اپنا دل دے بیٹھا ہے۔

سوال نمبر 29:

چاہے وہ کسی اللّٰه والے کے ساتھ ہو تب بھی یہ ہے؟

جواب:

نہیں، میں عرض کروں کہ جب اس کا نفس مطمئنہ بن جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جو عام مجازی محبت ہے، وہ مراد ہے۔ مگر جو اللّٰه والوں کی محبت ہے، جیسے ابھی میں وہی بات کررہا تھا کہ وہ اس لئے ہوتی ہے کہ جو ہم نے آیات کریمہ سنی ہوتی ہیں، احادیث شریفہ سنی ہوتی ہیں، اللّٰه کے بارے میں، اللّٰه کی ذات کے بارے میں، اس کی صفات کے بارے میں، تو اس سے ہماری یہ محبت بنتی ہے، اس لئے یہ ہوتی تو عقلی محبت ہے، لیکن عقلی محبت اگر بعد میں طبعی محبت بن جائے تو سبحان اللّٰہ! پھر بڑی بات ہے۔

سوال نمبر 30:

جیسے شریعت طبیعت بن جاتی ہے۔

جواب:

ہاں بالکل، شریعت طبیعت بن جاتی ہے، وہی والی بات ہے، کیونکہ شریعت بھی ہم اپنے عقل سے مانتے ہیں، اس لئے کہ ہم نے آپ ﷺ کو تو نہیں دیکھا، لیکن ہم اپنی عقل سے مانتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے محسن ہیں اور آپ ﷺ اللّٰه تعالیٰ سے سب کچھ لائے ہیں اور اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ جو ہمارا تعلق ہے، اس لحاظ سے ہم شریعت مانتے ہیں اور پھر جب شریعت طبیعت ثانیہ بن جائے، تو پھر کمال حاصل ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 31:

شریعت کے کسی بھی کام پہ عمل کرنے کے لئے جو مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، جس سے پھر وہ ایک آدمی کی طبیعت بن جاتا ہے تو دونوں کے ثواب میں فرق ہے؟ کیونکہ ایک کو زیادہ مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، لیکن ایک کی وہ طبیعت بن جاتی ہے، تو اس کو ثواب زیادہ ملے گا یا کم؟

جواب:

جو گزشتہ محنت کی ہے، کیا وہ ثواب ضائع ہوجائے گا؟ نہیں، بلکہ وہ سب اس کے ساتھ ہوجائے گا یعنی جو مجاہدہ اس تک پہنچنے کے لئے کیا تھا، وہ سارا اس کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔ جیسے فرماتے ہیں کہ جہاد میں گھوڑوں کی جو لیدیں ہوتی ہیں، وہ بھی میزان میں تولی جائیں گی، جبکہ یہ تو جہاد اکبر ہے، اس لئے اس میں تو ساری چیزیں اس کے ساتھ شامل ہوں گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ علماء کو کیوں نسبت جلدی منتقل ہوتی ہے؟ ان کو مجاہدہ اتنا نہیں کرنا پڑتا، تو حضرت نے فرمایا کہ وہ جو پڑھنے میں انہوں نے مجاہدہ کیا ہے، وہ مجاہدہ چلا گیا ہے، ویسے ہی بس ختم ہوگیا، کیا وہ کام نہیں کرے گا؟ نہیں، وہ بھی مجاہدہ ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ نفس کے لئے بھی جاسکتا ہے اور اللّٰه کے لئے بھی جاسکتا ہے، نفس کے لئے ایسے جائے گا کہ اس پہ غرور کرے کہ میں ایسا ہوں، میں ایسا ہوں تو میں ایسا ہوں، تو یہ نفس کے لئے ہوگیا اور اگر اللّٰه کے لئے گیا کہ میں تو کچھ بھی نہیں، یہ تو اللّٰه تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے اور نفس اس کا اپنی جگہ پہ آجائے تو یقیناً جو نفس کے لئے مجاہدہ ہوگا، تو پھر اس کے لئے بہت کم ہوجائے گا، کیونکہ وہ سمجھ جو علمی ہے، وہ اس کے ساتھ شامل ہے اس مجاہدے کی وجہ سے، اس وجہ سے ان کو جلدی فائدہ ہوجائے گا۔ اب مولانا تقی عثمانی صاحب بھی عالم ہیں، ان کو اپنے علم کا فائدہ ہے یا نہیں ہے تصوف میں؟ یقیناً فائدہ ہے، کیونکہ سارا مجاہدہ جو انہوں نے کیا ہے، وہ سب اس میں شامل ہے اور دوسرے بھی ہیں جو ان چیزوں کو نہیں مانتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑے عالم ہیں، تو یہ نفس کے لئے چلا جاتا ہے، اس میں پھر مسائل بن جاتے ہیں۔ جیسے حکیم نصیر الدین جو تھا، یہ بہت بڑا عالم تھا، جو غلام احمد قادیانی کا پہلا خلیفہ تھا، یہ بہت شرارتی تھا، یہی سکھاتا تھا قادیانی کو اپنے علم کی بنیاد پر اور اتنا تیز ذہن تھا کہ جس استاذ سے یہ پڑھتا تو آخر میں کہتا تم مجھے پڑھانے کے قابل نہیں ہو، تم میں یہ غلطی کی ہے اور یہ غلطی کی ہے اور پھر چلا جاتا تھا اور جب آخری استاذ سے جارہا تھا تو انہوں نے کہا کہ جاتے تو ہو، لیکن صرف میری ایک بات سنو، ایک تو اللّٰه نہ بنو، دوسرا حضور نہ بنو۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا دیکھو! سب کمی سے پاک صرف اللّٰه پاک ہی ہے، لیکن تم خدا بنتے ہو کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے، میں سب سے زیادہ ٹھیک ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ اختلاف صرف آپ ﷺ کے ساتھ نہیں ہوسکتا، لیکن تم اپنے ساتھ اختلاف برداشت نہیں کرتے ہو، لہٰذا جاؤ، لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ ایسا نہ کرو۔ اب دیکھیں! بڑے بڑے استاذوں پہ اعتراض کرتا تھا، لیکن غلام احمد خبیث جیسے شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور ’’اَشھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلَ اللّٰهِ‘‘ کہہ کر اس کی بیعت کرلی یعنی ایسی پھٹکار پڑی اس پر تکبر کی، حالانکہ عالم تھا، لیکن وہ علم نفس کے لئے چلا گیا، اب وہ علم کی وجہ سے جاہلیت پہ لا رہا تھا۔ ایسے ہی اس وقت محمد علی مرزا جو کررہا ہے، وہ بھی یہی کررہا ہے کہ اپنی ذہانت کو کس لئے استعمال کررہا ہے؟ اختلافی امور کو اٹھانے اور اس میں پھر اپنی شان کو چمکانے کے لئے وہ استعمال کررہا ہے اور عوام کی جہالت کو استعمال کررہا ہے، اسی سے وہ بڑھ رہا ہے اور باقاعدہ اپنے اس پر کہتا ہے کہ میں ایسا ہوں اور میں ایسا ہوں، کوئی مجھ جیسا کرکے دکھائے۔

سوال نمبر 32:

حضرت! یہ جو مولانا کردستانی آئے ہوئے ہیں، اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب:

کیا کہوں؟ سب جہالت اپنی ہے، کیونکہ جب لوگ ایسے جاہلوں کے پیچھے خود ہی جائیں گے اور پکی باتوں کو چھوڑیں گے اور اس طرح اپنے خیالات کی دنیا میں رہیں گے کہ ایسا ہوجائے، ایسا ہوجائے تو پھر ان کو ایسے لوگ دھوکہ دیں گے۔

سوال نمبر 33:

یہ سحر کی صورت ہوسکتی ہے؟ کہ ایک دم وہ جھٹکے سے علاج کرتے ہیں۔

جواب:

نہیں اس طرح ضروری تو نہیں، جس طرح وہ دکھا رہے ہیں، بلکہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اس نے کیا ہو، کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی کو سحر میں مبتلا کرکے پھر اس کی بیماری create کرکے پھر اس کو سحر سے اٹھا دے، یہ ہوسکتا ہے اور یہ سحر عامل لوگ کرتے ہیں کہ پہلے بیمار کرلیں گے، پھر علاج کرلیتے ہیں اور پھر وہ اس کو برقرار بھی رکھتے ہیں کہ بار بار اپنی طرف لاتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس آئے تھے، ہمارے دفتر کے آدمی تھے، اس کی بیٹی پہ جنات آتے تھے، اس نے مجھے بتایا کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ وہ ہندو جن تھا اور وہ کہتا ہے کہ مجھے تو اسی نے بھیجا ہے جس کے پاس تم لوگ گئے تھے، اب وہ ٹھیک بھی ہوجاتی ہے، مگر پھر دوبارہ وہ آجاتے ہیں، بس مکمل ان کو اپنا گاہک بنایا ہوا تھا۔ اس لئے اگر عامل متقی نہ ہو تو اس میں یہ خطرہ مستقل قائم رہے گا، کیونکہ اس کو اپنا مال عزیز ہوگا، اس لئے وہ آپ کا سارا کچھ داؤ پہ لگا سکتا ہے۔

سوال نمبر 34:

ایک عالم ہیں عامل بھی ہیں، جو خود بڑے تگڑے عامل ہیں، ان کا اپنا بیٹا بیمار ہے، انہوں نے مجھے فون کیا کہ یار! اس کردستانی سے کوئی رابطہ نکالو، میں نے کہا حضرت! ہمارا تو اس پر ابھی فی الحال کوئی اعتماد نہیں ہے، وہ کہتے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں، میں نے کہا کہ ہے بھی مشکل اور اعتماد بھی نہیں ہے۔

جواب:

جن جگہوں کے لئے کہا تھا کہ وہاں جاؤں گا، تو وہاں کسی جگہ نہیں گیا، صرف دعوتیں اڑا کے بس چلا گیا، یہاں کسی patient کو handle نہیں کیا، حالانکہ ادھر بھی direct ٹھہرا ہوا تھا، اور پشاور کا بھی کہہ رہے تھے، لاہور کا بھی، ادھر کا بھی، مگر کہیں بھی نہیں گئے، بس بڑے بڑے لوگوں کے پاس ٹھہرا رہا جیسے طلحہ محمود صاحب اور فردوس عاشق اعوان، اسی طرح ہماری قومی سمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے ہاں، بس اس قسم کے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنا کے چلا گیا۔ لہٰذا اس طرح ہی ہوتے ہیں، اصل میں یہ نوسرباز ہوتے ہیں ان کو handle کرنے کا طریقہ آتا ہے، آپ کی نفسیات کے ساتھ وہ کھیل سکتے ہیں، جو آپ چاہتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں اور اس کے مطابق بہروپ بنا سکتے ہیں، اسی سے وہ ساری game چلاتے ہیں، اور آپ کی کمزوری سے فائد اٹھاتے ہیں، اگر وہ کمزوری آپ میں نہ ہو، تو وہ کچھ نہیں کرسکتے، مثلاً ایک نوسرباز آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے پاس جتنا سونا ہے لے آؤ، میں اس کو double کرلوں گا، اب اگر اس میں مال کی محبت ہوگی تو وہ آجائے گا اس کے جال میں، اور جس کو محبت نہیں ہوگی، وہ کہے گا کہ بس ٹھیک ہے، میرا سونا کافی ہے، مجھے نہیں چاہئے double، لہٰذا وہ نہیں آئے گا اس کے جال میں۔

سوال نمبر 35:

یعنی یہ مستند طریقۂ علاج نہیں ہے؟

جواب:

نہیں، بالکل مستند نہیں ہے، نوسربازی ہے، دھوکہ و فراڈ ہے، انہوں نے videos بنا لی ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ کرتے ہیں۔ اصل میں ان لوگوں کو یہ پتا ہوتا ہے کہ ہر ایک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے check کرنے کے۔ اگر ہزار آدمیوں کو دھوکہ دیا اور بیس لوگوں نے check بھی کیا تو چلو بیس نکل جائیں گے، مگر نو سو اسی میرے پاس ہیں، ان سے ہی میں اپنا کام چلا لوں گا یعنی ان کو یہ چیزیں معلوم ہوتی ہیں کہ سارے لوگوں کو مطمئن کرنا ضروری نہیں ہے، بس اپنا مطلب نکال کے چلے جائے گا، پھر آپ کیا کریں گے اس کے ساتھ؟ وہ عراق چلا گیا یا ترکی چلا گیا تو آپ کیا کرسکتے ہیں؟ آپ کچھ نہیں کرسکتے، اس لئے سعودی عرب والوں نے ان کو نکالا ہے، عراق نے نکالا ہے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب