سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 545

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔

Sir I was doing the مراقبہ but I was not able to concentrate. Get short یعنی after عشاء I was trying to complete but still I am not getting the momentum.

جواب:

روزے اللّٰه پاک نے پورے سال میں دائر کر رکھے ہیں یعنی رمضان شریف کا مہینہ ہر موسم میں آتا ہے، تاکہ ہر موسم میں اللّٰه پاک کا حکم ماننے کی استطاعت نصیب ہوجائے اور عادت پڑ جائے، اسی طریقے سے موسم بدلتے رہتے ہیں، لیکن اپنے معمولات جاری رکھنے ہوتے ہیں اور یہ سیکھنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی ہر موسم کے اندر یہ سیکھنے کی کوشش کرلیں کہ اپنا جو مراقبہ ہے، وہ ہر موسم میں صحیح طریقے سے کرلیں، بس تھوڑا سا جائزہ لیں کہ کونسا ٹائم آپ کے لئے زیادہ مناسب ہے، پھر اس پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کریں۔ اصل میں اس میں continuity اور باقاعدگی سے معاملہ بڑھتا ہے آگے، لیکن اگر اس میں انسان کہے کہ پہلے دن ہی مجھے کامیابی ہوجائے تو it's impossible، اس میں آپ ہمت کریں گی اور پابندی کریں گی اور وقت پہ سارا کچھ کریں گی اور ترتیب کے ساتھ کریں گی، جو وقت مقرر کیا ہے اسی پہ کریں گی، پھر ان شاء اللّٰه! آہستہ آہستہ روز بروز حالات بہتر ہوتے جائیں گے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمة اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب! اللّٰه تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت سے رکھے، (آمین) حضرت! آپ صاحب نے خواتین کے متعلق اللّٰه کے ذکر سے کچھ محسوس ہونے کے بارے میں پوچھا تھا، تو ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا، البتہ ذکر سے دل بہت پُرسکون رہتا ہے اور ذکر کرنے کے لئے ہم بے چین رہتے ہیں کہ کہیں رہ نہ جائے اور یہ ذکر اب لطيفۂ قلب پر ہے، لیکن اب تک دل جاری نہیں ہوسکا۔ آگے شاہ صاحب! جو حکم ہو، ارشاد فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! ذکر کے ساتھ محبت یہ اللّٰه تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے اور اللّٰه تعالیٰ کی محبت پر جب اطمینان ہوتا ہے تو اس سے ذکر کی طلب محسوس ہوتی ہے، اس لئے یہ بڑی اچھی بات ہے، یہ بنیادی بات ہے اور مبارک باد کے لائق ہے، لیکن اگر جی نہ بھی چاہے، پھر بھی کرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طبیعت کو اس طرف لانا یہ ہمارا کام ہے، جیسے جانور اگر انسان کے ساتھ آرام سے کام پر چلا جائے تو یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے، لیکن اگر نہ جائے تو پھر کیا کرتے ہیں؟ پھر اس کو زبردستی لے جاتے ہیں، کیونکہ کام تو اس سے لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو ہمیشہ اس کے لئے طلب تو نہیں کرنی چاہئے، لیکن اللّٰه پاک نوازتے ہیں تو اس پر اللّٰه کا شکر ادا کریں۔ باقی محسوس ہونے سے میری مراد صرف یہ ہے کہ جو ذکر ہے، وہ قلبی طور پر محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اگر نہیں ہوتا تو آپ جاری رکھیں، کوئی ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ بعض لوگوں کو کافی دیر سے نصیب ہوتا ہے، لیکن بہرحال ہمت کرنی پڑتی ہے اور پھر اسی سے راستہ کھلتا ہے، لہٰذا آپ اس کو ان شاء اللّٰه! جاری رکھیں اللّٰه پاک نصیب فرمائیں۔

سوال نمبر 3:

سوال یہ ہے کہ ایک ہے: ’’حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ‘‘ پڑھنا، دوسرا ہے اس کا دھیان کے ساتھ پڑھنا، تیسرا ہے الفاظ کو نہ پڑھنا، بلکہ ان الفاظ کے concept کو مستحضر رکھنا۔ مجھے الفاظ پڑھنے سے تو فائدہ ہوا ہے اور concept مستحضر رکھنے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں، لیکن ان میں سے کونسا بہتر ہے اور کونسا اپنانا چاہئے؟

جواب:

اصل میں یہ قرآن پاک کی آیت ہے اور آیت کی تلاوت کی اپنی برکات ہوتی ہیں، لہٰذا برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھنا ہے اور concept یا اس کا مفہوم سمجھنے کے لحاظ سے اس کی جو بنیاد ہے، اس تک پہنچنا ہے، اس لئے جس وقت آپ پڑھیں تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اللّٰه پاک ہی ہمارے لئے کافی ہے اور ہمارا کارساز ہے اور اس سے بہتر آقا اور اس سے بہتر مالک کون ہوسکتا ہے۔ بس یہی ذہن میں رکھ کے آپ یہ آیت کریمہ پڑھیں اور اس کا concept یہی ہے کہ وہ ذہن میں رہے گا اور ساتھ ساتھ الفاظ بھی پڑھنے کی کوشش کرلیں، ان شاء اللّٰه دونوں ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔

I have been reciting ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ fifty five hundred times followed by یَا الَلّٰهُ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَہَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِی‘‘ ’’یَا سَلَامُ hundred times followed by‘‘ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ’’ ten times. Kindly advise next جزاک اللّٰہ

جواب:

Now you should do ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ six thousand times and the remaining will be the same .ان شاء اللّٰه

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت جی! گزشتہ مرتبہ تکبیر اولیٰ کے چلے کی برکت سے اس ماہ الحمد للّٰہ! کوئی نماز قضاء نہیں ہوئی اور وقت پر ادا ہوئی ہیں۔ ذکر دو سو، دو سو، دو سو اور چھ ہزار میں کچھ کمی اور کم یکسوئی رہی ہے۔ رزائل کے بارے میں حضرت نے ارشاد فرمایا تھا کہ نوٹ کرکے Priority order میں پیش کیے جائیں، جو درج ذیل ہیں۔ نمبر ایک: طبیعت میں افراتفری، غصہ اور اکثر جھنجلاہٹ کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے نرم خوئی بالکل نہیں رہتی اور درست بات اور درست موقع کا بھی گھر میں اور باہر سب جگہ غلط تأثر لیا جاتا ہے، جس سے مزید جھنجلاہٹ ہوتی ہے۔ نمبر دو: دفتری اوقات جہاں وقت کا زیادہ حصہ گزرتا ہے، اس میں چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر زیادہ باتیں، غیبت، تجسس، کینہ، بغض وغیرہ جیسی اندرونی برائیوں کا سامنا رہتا ہے، خاموش یا درگزر کر دینا اپنے آپ کو پیچھے اور نیچے کر دینا محسوس ہوتا ہے۔ نمبر تین: internet کے خرافات میں پڑنا اگرچہ کبھی کبھار ہوتا ہے اور کچھ مہینے کے بعد سرزد ہوا ہے، مگر ساری حالت اور بنیاد ہلا کر رکھ دیتا ہے اور بعد میں بدنظری کا رجحان آجاتا ہے، جو بڑی مشکلوں سے کم ہوتا ہے۔ نمبر چار: شدید ہوس نفس کا شکار رہنا اور یہ مسئلہ ہے کہ کوئی عمل شروع کرنے نہیں دیتا اور خود پسندی اور دھوکے میں مبتلا رکھتا ہے، idealism کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کام اور توکل اور تفویض بالکل نہیں ہے، اس وجہ شدید سستی اور خوف سا رہتا ہے۔ نمبر پانچ: اکثر بیانات سے فکری اور عقلی تطہیر محسوس ہوتی ہے، مگر دل ساتھ نہیں دے رہا ہوتا، ایک عرصہ تک مراقبہ کرتا رہا، مگر نہیں ہوسکا، بعد میں چھ ہزار کا ذکر جس میں ابھی یکسوئی کم ہے، maximum ذہن یکسوئی کسی کام میں شاید تین سے پانچ منٹ ہوگی۔ حضرت جی! رزائل اور بھی ہیں، مگر میں ان کو ترجیحاً پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فجر کی نماز میں پوری زندگی گھر میں رہا، مگر آپ نے رزائل سے پہلے اس کی تاکید فرمائی تھی، جو الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰه نصیب ہورہی ہے۔ اب مندرجہ ذیل بالا اخلاقی کمزوریوں کے بارے میں رہنمائی کی درخواست ہے اور دعاؤں کی بھی۔ اللّٰه پاک آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)

جوب:

کوئی مضمون طویل نہیں ہوا، مگر آپ نے اس پہ معذرت کی ماشاء اللّٰه! آپ نے بہت صحیح طور سے اس کو order میں پیش کیا ہے۔ پہلی بات جو طبیعت میں افراتفری اور غصہ ہے، تو یہ اصل میں آپ کی طبعی چیز ہے، اس کا روحانیت کے ساتھ تعلق نہیں ہے، البتہ روحانیت اتنی ہونی چاہئے کہ اس پہ قابو رہے یعنی انسان میں غصہ فطری چیز ہے، کسی بھی چیز پر غصہ آسکتا ہے اور کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی طبعی طور پر disturbance کی وجہ سے انسان میں جھنجلاہٹ بھی آجاتی ہے، اس لئے یہ بھی ایک فطری چیز ہے، اس کے ساتھ ہوتا ہے، یہ کوئی روحانی بیماری نہیں ہے، البتہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے، تو ہم اس کو روحانیت کہیں گے یعنی ہم کہیں گے کہ بھئی! آپ نے اس پہ عمل نہیں کیا، یہ بڑی بات ہے، مثال کے طور پر آپ کو کوئی تھپڑ مارے، اس پر تکلیف تو ہوگی، آپ کو غصہ بھی آئے گا، لیکن اب آپ کیا کرتے ہیں؟ وہ پھر آپ کی روحانیت ظاہر کرے گی، مثلاً آپ اس کی آنکھ نکال لیتے ہیں، تو پھر ہم کہیں گے ظالم ہے، روحانیت بالکل نہیں ہے اور اگر آپ کسی وجہ سے اس کی مجبوری سمجھ کر کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے، اس لئے اس کو آپ برداشت کرتے ہیں، صبر کرتے ہیں، تو پھر ہم کہتے ہیں کہ اعلی درجے کی روحانیت ہے اور آپ بالکل ادلے کا بدلہ لیتے ہیں، تو ہم کہتے کہ قابل معافی ہے، تو یہ ساری چیزیں depend کرتی ہیں آپ کی روحانیت پر۔ لہٰذا آپ اس میں جھنجلاہٹ کی بجائے جو قدم بھی اٹھائیں سوچ کر اٹھائیں، آپ کو غصہ آئے یا نہ آئے، اس کی فکر نہ کریں، بس آپ اپنے اس action پر دیکھیں کہ آپ کا action کیا ہے، کیونکہ آپ سے action کے بارے میں پوچھا جائے گا، باقی غصہ آنا یا نہ آنا یہ آپ کا حال ہے، لیکن آپ اس کو کنٹرول کرلیں، یہ آپ کا کمال ہے۔ بس اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرلیں اور باقی باتوں کے بارے میں ان شاء اللّٰه! بعد میں بتاؤں گا، فی الحال آپ اس چیز کو کنٹرول کرلیں، ان شاء اللّٰه العزیز! یہ چیزیں آپ کی کنٹرول میں آجائیں گی۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه۔ حضرت جی! اللّٰه پاک آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی اس صدقے ہر قسم کی دجالیت سے نجات عطا فرمائے۔ حضرت جی! کل ذکر کو دو مہینے پورے ہوگئے ہیں، میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے آٹھ ہزار ہے۔ قلب کا ذکر دس منٹ، جبکہ روح کا ذکر بھی دس منٹ ہے۔ حضرت جی! ذکر جہری میں قلب پر پہلے کی طرح ہلکا سے دباؤ کے علاوہ کبھی کبھی دھڑکن کا احساس ہوتا ہے اور خفی ذکر میں توجہ کم ہے۔ حضرت جی! کچھ ہفتوں سے نماز میں احسان کی سی کیفیت ہے جو کہ پہلے نہیں تھی، ایک آدھ ہفتے تو خود سے محسوس ہوتا رہا کہ اللّٰه پاک دیکھ رہے ہیں، مگر پھر کم ہوگیا اور میں خود سے کوشش کررہا تھا کہ اللّٰه پاک دیکھ رہا ہے، اس کیفیت میں نماز کے دوران میں سکون اور سکوت خود بخود ہوتا تھا، اب حال یہ ہے کہ کبھی کبھی دھیان ہوتا ہے اور اختیاری طور پر محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن اصل کی طرف دھیان نہیں رہتا، اس بار پہلے جیسے نماز پڑھتا تھا، ویسی حالت ہے۔ حضرت جی! پچھلے دنوں کچھ کام کی وجہ سے کوشش کے باوجود وقت نہ نکال سکا اور عشاء بھی تقریباً بارہ بجے پڑھی، شدید نیند کی وجہ سے ذکر نہ کرسکا، کیونکہ ذکر کرتا تو صبح کی نماز کے لئے نہ اٹھ پاتا، مگر پھر صبح ذکر کے بعد مراقبہ رہ گیا کہ موبائل میں چارج نہیں تھی، تاکہ وقت adjust کرتا اور گھر کے موبائل میں بھی چارج ختم تھی، بعد میں شیطان نے ذہن سے نکال دیا اور اگلے دن یاد آیا کہ مراقبہ رہ گیا تھا۔ آگے کے لئے حکم ہے؟

جواب:

ماشاء اللّٰه! آپ کو خود بخود جو کیفیت رہی ہے، یہ تو آپ کے لئے ایک نعمت ہے اور اللّٰه پاک کی طرف سے آپ کو گویا کہ سکھایا جارہا تھا۔ اب آپ اس کو اپنے اختیار سے کرلیا کریں اور ثواب اختیار پہ ہوتا ہے یعنی اپنے اختیار سے جو انسان کام کرتا ہے اس پر ثواب ہوتا ہے۔ اور اختیار سے تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اللّٰه ہمیں دیکھ رہا ہے، بس اس کا اختیار کے ساتھ دھیان رکھیں کہ اللّٰه مجھے دیکھ رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غیر اختیاری چیزوں کے پیچھے زیادہ نہ پڑیں۔ اصل میں جو اختیاری چیزیں ہیں، ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرلیں، جیسے ابھی آپ فرما رہے تھے ذکر کے بارے میں، تو آپ نے یہ اچھا کیا کہ وقت کم رہ گیا تھا، اس لئے آپ سو گئے، ورنہ صبح کی نماز خطرے میں پڑ جاتی، لہٰذا یہ آپ نے اچھا کیا اور صبح آپ نے نماز وقت پہ پڑھی، لیکن اس experience سے فائدہ اٹھائیں کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ تاکہ پھر ایسا نہ ہو، مثال کے طور پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ ہے کہ انہیں صبح فجر میں دیر ہوگئی، امام ابو یوسف چونکہ شاگرد تھے، تو امام صاحب نے ان کو نماز کے لئے آگے کیا، انہوں نے بہت مختصر نماز پڑھائی، کیونکہ سورج نکلنے والا تھا، لہٰذا جس وقت نماز پوری ہوگئی، تو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زبان سے نکلا کہ آج ہمارا یعقوب یعنی ابو یوسف فقیہ ہوگیا یعنی اس وقت فقاہت یہی تھی، اگرچہ جس وجہ سے بھی ہوا ہو وہ بعد کی بات ہے، لیکن اس وقت کرنا کیا تھا؟ کرنا یہی تھا جو امام ابو یوسف رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کیا ہے، لیکن اس کے بعد یہ دیکھنا کہ کیوں اتنی دیر ہوگئی؟ یہ ایک experience کی بات ہے، اس کے لئے پھر آدمی کو سوچنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو، اور اس سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے، لہٰذا آپ کو بھی ایسا کرنا چاہئے کہ آئندہ آپ ذکر اتنا خطرے میں نہ ڈالیں، بلکہ وقت پہ کرنے کی کوشش کرلیا کریں، جس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ اور یہ بات جو آپ نے کی ہے کہ چارج نہیں تھا، اس پر میں بڑا حیران ہوں کہ آپ سے کیسے غلطی ہوگئی کہ موبائل چارج نہیں تھا۔ اگر آپ adjust نہیں کرسکتے، تو اندازہ تو کرسکتے تھے، چاہے آپ کا اندازہ غلط ہوتا، مگر نہ کرنے سے افضل ہوتا، آپ اندازے سے اپنا مراقبہ کرلیتے تو وہ ٹھیک ہے، اگرچہ اس جتنا نہ ہوتا، لیکن نہ ہونے سے تو بہتر تھا، خیر اس طرح آئندہ نہ کیا کریں کہ آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کے ساتھ عادی کرلیں، کیونکہ زندگی میں اس قسم کی چیزیں آتی ہیں اور اس میں کیا کرنا ہے، وہ ان شاء اللّٰه! آپ اس طرح سیکھیں گے۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی! السلام علیکم۔ میں کراچی سے فلاں بات کررہا ہوں۔ حضرت! آپ کی خصوصی توجہ کے ثمرات گزشتہ ہفتے کے دوران ظاہر ہوئے، کیونکہ کافی ہفتوں سے دل بجھا ہوا تھا، خیر کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی، بس اعمال جاری رہے یعنی دل کی کیفیت کو نظر انداز کرکے تمام معمولات کرتا رہا، اللّٰه تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کی توفیق سلب نہیں ہوئی، لیکن آپ کو جو پچھلے ہفتے message بھیجا، اگرچہ اس کا براہ راست جواب تو اب تک موصول نہیں ہوا، لیکن دل کی کیفیت میں واضح فرق آیا ہے، نیکی کی توفیق شوق کے ساتھ عطا ہوئی ہے، برائی سے بچنے کی ہمت بھی مل گئی الحمد للّٰہ! حضرت! آپ سے میری طرف خصوصی توجہ اور دعائیں جاری رکھنے کی گزارش ہے، اللّٰه جل شانہٗ آپ کو اپنے ابرار میں شامل فرمائے اور دور اور دیر تک ہماری ہدایت کا ذریعہ بناتا رہے۔ (آمین)

جواب:

اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا یہ اللّٰه تعالیٰ کا وعدہ ہے، اس لئے آپ نے کوشش کی کہ مجھے خط بھیجا، تو اللّٰه پاک نے دیکھ لیا اور اللّٰه پاک نے آپ کی اس کوشش پر آپ کو فائدہ پہنچایا، اسی طرح اللّٰه پاک فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور رابطہ اور معمول یہ دو اہم چیزیں ہیں، رابطہ کرنے سے انسان کی طلب کا اظہار ہوجاتا ہے، بالخصوص اپنی کسی کمی کے وقت جب انسان رابطہ کرتا ہے تو یہ اللّٰه تعالیٰ کو بہت پسند ہے، اور اگر اپنی کسی اچھائی کی اطلاع دینے کے لئے رابطہ ہو، تو اس پہ وہ چیز نہیں ہوتی، کیونکہ اس میں نفس بھی شامل ہوتا ہے، اگرچہ وہ بھی کرنا چاہئے کہ کیا پتا کہ وہ اچھا ہے بھی یا نہیں ہے، کیونکہ بعض دفعہ انسان اچھا سمجھتا ہے، لیکن اچھا نہیں ہوتا۔ بہرحال اس میں چونکہ نفس کی خواہش شامل ہوتی ہے، اس لئے وہ اتنی valuable نہیں ہوتا، لیکن جب انسان اپنی خامی کے بارے میں بتاتا ہے اور علاج کا متمنی ہوتا ہے تو اس پہ پھر اللّٰه پاک بہت خوش ہوتے ہیں اور پھر اللّٰه پاک راضی ہوتے ہیں، لہٰذا آپ کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے، بس آپ ماشاء اللّٰه! اپنی ہمت جواں رکھیں، اللّٰه تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔ اور یہ بات میں نے اس لئے کی ہے کہ اگر توجہ کا منتظر رہے گا تو پھر مسئلہ ہوجائے گا، اس لئے کوشش جاری رکھنی چاہئے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت جی! انتہائی شرمساری کے ساتھ عرض ہے کہ میں اپنے معمولات جاری رکھنے سے تاحال قاصر ہوں، اور شروع میں مجھے ندامت کا احساس تھا، لیکن اب وہ بھی کم ہوگیا ہے، مہربانی فرما کر مجھے اپنے دعاؤں میں شامل کرلیں۔ جزاک اللّٰہ خیراً۔

جواب:

سب سے بڑی غلطی یہ کہ اپنے حال کے ساتھ نام نہیں لکھا، اب مجھے اوپر جانا پڑے گا کہ کون ہے۔ اور یہ میجر صاحب ہیں۔ میجر صاحب اس طرح نہیں کرنا چاہئے، اپنا نام لکھنا چاہئے۔ میرے خیال میں آپ اپنے آرمی رولز میں دیکھیں کہ بغیر نام کے اپنا کوئی خط بھیج سکتے ہیں؟ اگر آپ آرمی کے رولز میں نہیں بھیج سکتے تو پھر ہمارے پاس کیوں بغیر نام کے بھیجتے ہیں؟ اس سے پھر مسئلہ ہوتا ہے۔ خیر اللّٰہ پاک روز محشر کی شرمساری سے بچائے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں مسئلہ نہیں کہ اگر میرے پاس خط آپ شرمساری سے بھیج دیں، کیونکہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے، لیکن روز محشر کی شرمندگی یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ ہمارا اور آپ کا جو تعلق ہے، وہ صرف اللّٰه کے لئے ہے اور آخرت کی تیاری کے لئے ہے، اس میں ہمارا کوئی اور مقصود نہیں ہے، اس لئے آپ کو اپنے معمولات جلدی جاری کرنے چاہئیں اور اصل ندامت وہ ہے کہ جو انسان کو عمل پر لے آئے، اسے اپنی غلطی سے رجوع کرنے کی طرف لے آئے، پھر اصل ندامت ہے، ورنہ پھر صرف ندامت کا خیال ہے، اس وجہ سے آپ بس جلدی عمل کے اوپر آجائیں۔ کیونکہ کوئی ڈاکٹر کے پاس ایسا گر نہیں ہے کہ وہ مریض کو دوائی کھانے کے قابل بنا دے، بلکہ یہ مریض کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود احساس کرے کہ مجھے دوائی کی ضرورت ہے، اس لئے میں دوائی وقت پہ کھاؤں، تب مجھے فائدہ بھی ہوگا۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ How important it is ہمارے ایک ساتھی تھے، اس کو ٹی بی ہوگئی تھی، اس نے مجھے رو رو کے اپنا حال سنایا، میں نے کہا بھئی! یہ قابل علاج بیماری ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں، لیکن صرف ایک میری نصیحت یاد رکھیں کہ اس کی دوائی باقاعدگی کی ساتھ کھانی ہوتی ہے، اس میں اگر آپ نے miss کرلیا تو آپ اپنے لئے بہت بڑا خطرہ مول لیں گے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ لا علاج ہوجائیں، اس لئے آپ دوائی miss نہ کریں اور اس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ دو تین مہینے جب آپ دوائی کھائیں گے تو آپ بالکل ایسے ہوں گے جیسے ٹھیک ہوچکے ہوں، لیکن اس وقت آپ ٹھیک نہیں ہوئے ہوں گے، بلکہ ابھی وہ چیز باقی ہوگی اور وہ دوبارہ repair کرسکتی ہوگی، پھر اگر وہ دوبارہ repair کرے تو پھر اس دوائی سے ختم نہیں ہوگی، پھر آپ کو High level پہ جانا پڑے گا، لہٰذا اگر آپ ٹھیک بھی ہوگئے، لیکن جب تک ڈاکٹر آپ کو نہ کہے، وہ آپ کو State نہ دے کہ آپ ٹھیک ہوگئے ہیں، تو اس وقت تک آپ اپنی دوائی جاری رکھیں۔ بس یہ میں نے نصیحت کی، چونکہ وہ سادہ آدمی تھا۔ بہرحال اس نے دوائی شروع کی اور دو تین مہینے بالکل ایسے ہوگئے کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے، پھر لوگوں نے اس کو رائے دی کہ فلاں جگہ دم ہوتا ہے اور فلاں جگہ دم ہوتا ہے، بس اسے لے گئے اور اس کو دم کروا دیا اور دوائی چھوڑ دی، مجھے بتایا بھی نہیں، اگر مجھے اس وقت بتاتے تو میں ڈانٹ کر اس کو کہتا کہ دوائی جاری رکھو۔ بہرحال دو تین مہینے کے بعد پھر فکر ہوگئی، پھر بہت پریشان ہوگیا، مجھے ٹیلی فون کیا کہ اس طرح ہوگیا ہے، میں نے کہا میں اب کیا کہوں؟ اب صرف یہ کہتا ہوں کہ اسی ڈاکٹر کے پاس جانا، جس سے آپ نے علاج کروایا ہے اور اس کو سچ سچ بتانا ہے، پھر وہ جو کہے اس پر عمل کریں، اور اب آئندہ کے لئے اس غلطی کی آپ کے پاس مزید گنجائش نہیں ہے، بس وہ جو کہے، آپ نے اس کا علاج کرنا ہے، اب چونکہ اس کو تجربہ ہوگیا تھا، تو ماشاء اللّٰہ! اس نے پھر باقاعدہ علاج کیا، اور ٹھیک ہوگیا الحمد للّٰه! اور جب ٹھیک ہوا تو مجھے اطلاع بھی نہیں کی، یہی زبردست بات ہوتی ہے۔ خیر میرا مقصد یہ ہے کہ یہ حالات ہیں، بالکل یہ دوائی کھانے والی بات ہے، جیسے وہ اہم ہے، اسی طرح تصوف کے اندر اپنے علاج کے لئے یہ معمولات کی اہمیت ہے، بس اگر آپ کریں گے تو آپ کو فائدہ ہوگا اور اگر نہیں کریں گے تو پھر آپ کی اپنی مرضی ہے، پھر جو نقصان ہوگا، وہ تو ہوگا۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر ایک مہینے کے لئے دیا تھا، اس کو ایک مہینہ بلا ناغہ الحمد للّٰہ! پورا ہوگیا ہے، ذکر یہ ہے کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔

جواب:

حضرت! آپ کو جو ذکر دیا تھا، وہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔ اس دفعہ آپ نے تھوڑا سا الٹ پلٹ کیا ہے، اب اس کو دوبارہ کر لیجئے گا، پورا مہینہ اس کو کرکے پھر ان شاء اللّٰه! مجھے اطلاع کر دیجئے گا۔ میرا خیال ہے کہ میرا اوپر یہ record بھی ہوگا، اس میں یہ چیز ہوگی۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔ حضرت جی! اللّٰه آپ کا سایہ ہمارے اوپر قائم رکھے اور آپ کے علم، صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت جی! پچھلے ایک مہینے میں میرے معمولات ٹھیک تھے، ایک نماز قضاء ہوئی تھی، اس مہینے بھی ذکر میں ناغہ نہیں ہوا، میرا ذکر تقریباً پچھلے ایک ماہ سے یہ ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ حضرت جی! معمولات میں مزید رہنمائی کا طلبگار ہوں۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو کرنے کے بعد دس منٹ کے لئے آپ تصور کرلیں کہ جیسے ’’اَللّٰہ‘‘ آپ پانچ سو دفعہ کررہے تھے، تو اب وہ آپ کے دل میں بھی ’’اَللّٰہ‘‘ ہورہی ہے اور آپ اس کو سنیں یعنی آپ اس کو صرف catch کرنے کی حد تک اس پہ تصور concentrate کریں، اور کروائیں نہیں اور نہ آپ کروا سکتے ہیں، لیکن آپ نے اس کی طرف توجہ کرنی ہے کہ ہورہا ہے یا نہیں ہورہا یعنی کوئی لمحہ آپ کا اس کو سوچنے کے باہر نہ رہے۔ لہٰذا دس منٹ کے لئے آپ یہ کریں، پھر مجھے ایک مہینے کے بعد بتائیں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰه و برکاتہ


نمبر 1: اسم ذات کا زبانی ذکر پانچ ہزار مرتبہ ہے۔

جواب:

اب ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ کریں۔

نمبر 2: لطيفۂ قلب دس منٹ، لطيفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور دونوں پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰه! پھر لطيفۂ قلب، لطيفۂ روح دس منٹ اور لطيفۂ سر پندرہ منٹ بتا دیں۔

نمبر 3: لطيفۂ قلب دس منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو دس منٹ قلب کا اور پندرہ منٹ روح کا بتا دیں۔

نمبر 4: اس بچی کا وظیفہ سو مرتبہ درود شریف تھا، لیکن اب بڑی ہوگئی ہے۔

جواب:

اس کو تین سو اور دو سو والا ذکر دے دیجئے۔

نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت ہے، جب کوئی گناہ کرتی ہوں تو فوراً چھوڑ دیتی ہوں کہ اللّٰه میرے ساتھ ہے۔

جواب:

سبحان اللّٰہ! بہت اچھا ہے، ماشاء اللّٰہ! اب آپ تمام لطائف پہ پانچ منٹ اور اللّٰه میرے ساتھ ہے، اس کے ساتھ آپ یہ تصور رکھیں کہ میں کون سا کام کروں جس سے میرا رب مجھ سے راضی ہو۔

نمبر 6: لطيفۂ قلب دس منٹ، لطيفۂ روح دس منٹ، لطيفۂ سر پندرہ منٹ ہے، اب محسوس بھی ہوتا ہے تمام لطائف پر۔

جواب:

اب لطيفۂ قلب دس منٹ، لطيفۂ روح دس منٹ، لطيفۂ سر دس منٹ اور لطيفۂ خفی پندرہ منٹ کرلیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ محترم حضرت جی! الحمد للّٰہ آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر کا ایک ماہ ہوگیا ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو، ایک ہزار اور پانچ منٹ کے لئے یہ تصور کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ احوال یہ ہیں کہ پوری کوشش کے باوجود بھی چند ناغے ہوئے ہیں، جب بھی ایک تسلسل سے ذکر کرتا ہوں تو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سب درہم برہم ہوجاتا ہے اور کچھ دن تو ایسا ہوجاتا ہے کہ نماز بھی میں ادا نہیں کرتا اور کسی کام کے قابل نہیں رہتا، نہ دینی اور نہ دنیای، بس ایسا ہوتا جیسے بستر کے ساتھ بندھا ہوں اور پھر بہت روتا ہوں کہ ایسے تو جہنم میں جاؤں گا، پھر اللّٰه تعالیٰ کرم فرماتے ہیں کہ اپنی طاقت جمع کرکے اٹھتا ہوں اور پھر سے معاملات کی routine بنانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن بار بار یہ خیال آتا ہے کہ میں بہت گناہ گار ہوں، میں ایسا نہیں رہنا چاہتا، میں اپنی اصلاح چاہتا ہوں اور اپنے نفس کو قابو کرنا چاہتا ہوں، تاکہ اپنی حالت کو درست کرسکوں اور اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق زندگی گزاروں۔ یہ حالت زیادہ تر گھر میں رہنے کے دوران ہوتی ہے۔ آپ کو سب بتانے کی میں نے کوشش کی ہے، اس سلسلے میں آپ مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

سب سے پہلے تو اپنے ساتھ اپنے لئے نماز کا ساتھی بنائیں کہ جس کے ساتھ آپ نماز کے لئے جائیں یعنی آپ اگر وہ نہیں جاتا تو آپ ان کو بتائیں اور اگر آپ نہیں جاتے تو وہ آپ کو بتائیں، گویا کہ اس سے ان شاء اللّٰه العزیز! یہ والی بات ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا آپ اپنی نماز کے لئے کسی کو ساتھی بنا لیں، جو قریب ہو چاہے وہ گھر میں ہو، چاہے پڑوس میں ہو۔ دوسرا آپ نے یہ بتایا نہیں کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے یا نہیں کررہا؟ یہ آپ مجھے بتائیں گے تو پھر ان شاء اللّٰه! اس کے بعد بتاؤں گا۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ حضرت! بلا ضرورت نامحرم کو دیکھنا اگر گناہ ہے تو ضرورت کا دائرہ کیا ہے؟ کوئی عورت driving کررہی ہے تو کیا کرے؟ میں چلتے ہوئے یا شاپنگ کرتے ہوئے تو اس کا بہت خیال رکھتی ہوں، اس سے پہلے مجھے صرف لڑکیوں کے کپڑے اور جوتے attract کرتے تھے۔ مزید یہ کہ مجھے M.Phil کی research کے لئے Male supervisor سے ملنا ہوتا ہے، کبھی کبھار اس کے آفس جا کے سمجھنا بھی ہوتا ہے اور میں نظر نیچے نہیں رکھ پاتی، میں ان کی بہت respect کرتی ہوں اور اپنے ابو کی جگہ پہ رکھتی ہوں، تو کیا مجھے نیچے نظر کی عادت ڈالنی ہوگی؟ یا میں کیسے بچوں یا آفس میں باہر سے دیکھنا ہو کہ sir فارغ ہیں یا نہیں، اس وقت کیا کروں؟ یہ سوالات جب آپ نے پہلے مجاہدہ دیا تھا، اس وقت سے ذہن میں آرہے تھے، پھر جب آپ نے اگلا مجاہدہ دیا تو مجھے لگا کہ آپ نے اس مجاہدہ کو اس سے replace کردیا ہے، جس کی وجہ سے میں نے اس میں سستی کردی۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! یہ فکر آپ میں پیدا ہوگئی، یہ بہت بڑی بات ہے، اللّٰه تعالیٰ اس کو آپ کے لئے خیر کا ذریعہ بنا دے۔ باقی انسان کوشش کرلے تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کو اپنے ایک دوست کا واقعہ بتاتا ہوں جو امریکہ میں Ph.D کررہا تھا MIT میں، وہ مرد تھا اور اس کی پروفیسر وہ عورت تھی یعنی یہی آپ والی situation تھی کہ آپ کا پروفیسر مرد ہے اور آپ عورت ہیں اور اس کا معاملہ الٹ تھا۔ اب وہ یوں کرتا تھا کہ اگر اسے کوئی بات پوچھنا ہوتی تھی تو دروازے میں کھڑے ہوکر اس سے باتوں باتوں میں پوچھ لیتا کہ اب یہ کرنا ہے، تو اب کیا کرنا ہے، اب وہ عورت بھی اس کے ساتھ عادی ہوگئی تھی، اس لئے وہ بھی اس کو جواب دے دیتی تھی اور اگر کوئی چیز دکھانی ہوتی تو فائل ان کی میز پہ چھوڑ کے آجاتا اور اس کے ساتھ لکھ دیتا کہ یہ یہ کام ہے۔ بس اس طریقے سے ان کو ان کے ساتھ sitting کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اور سب سے بڑی بات عورت کا subordinate ہونا حضرناک ہوتا ہے، اس وجہ سے بے شک وہ آپ کے والد کی جگہ پہ ہیں، لیکن آپ اس کے ساتھ تنہائی میں نہ ملیں یعنی کمرے کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہئے اس وقت، مثال کے طور پر جب آپ ان کے پاس جائیں اور آپ نے کام کی بات کرنی ہو یا فائل وغیرہ آپ کو لے جانی ہو یا اس سے کچھ پوچھنا ہو تو دروازہ کھلا چھوڑ کے ان سے بات کریں اور بات کرکے واپس آجائیے گا۔ باقی جو آپ کو مسائل ہیں، تو اس سلسلے میں یہ کہوں کہ اللّٰه پاک نے ہمیں عقل اس لئے دی ہے کہ اپنے مسائل کو اس سے حل کریں، اگرچہ target اللّٰہ دیتا ہے، لیکن ہم کیسے کریں؟ اس کے لئے ہمیں اپنی عقل استعمال کرنی ہوتی ہے، اپنے ارادے کو اور اپنی ہمت کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے حضرت کو کسی مرید نے کراچی سے خط بھیجا کہ حضرت یہاں تو یہ حالت ہے کہ اگر میں اوپر دیکھتا ہوں تو ایمان جاتا ہے اور اگر نیچے دیکھتا ہوں تو جان جاتی ہے، کیونکہ گاڑیاں ہیں، اس لئے مسئلہ ہے۔ اس پر حضرت نے فرمایا اللّٰه تعالیٰ نے عقل تمہیں اس لئے دی ہے کہ ایسا کرو کہ نہ جان جائے، نہ ایمان جائے۔ لہٰذا اس کے لئے آپ کو planning کرنی پڑے گی۔

سوال نمبر 14:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

آپ یہی غلطی کررہے ہیں کہ آپ خیال میں ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ کرتے ہیں، جبکہ خیال میں ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ کرنے کا میں نے نہیں کہا تھا، بلکہ میں نے کہا تھا کہ آپ یہ تصور کریں کہ ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ ہورہا ہے یعنی آپ نے صرف observe کرنا ہے، اگر نہ بھی ہورہا ہو تو آپ کو observe ہورہا ہوگا اور اگر ہورہا ہوگا تو بھی observe ہوجائے گا، لہٰذا آپ نے صرف observe کرنا ہے، محسوس کرنا ہے کہ آپ ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ محسوس کررہے ہیں یا نہیں کررہے، کیونکہ وہ مختلف طریقوں سے محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ synchronisation ہوجاتی ہے، اور انسان کو پتا چل جاتا ہے کہ ’’اَللّٰه اَللّٰه‘‘ ہورہا ہے۔ لہٰذا بس آپ ذرا اس انداز میں دیکھیں! تو ان شاء اللّٰه العزیز! آپ کو پتا چل جائے گا۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔

My dear and respected مرشد دامت برکاتہم, I hope you are well ان شاء اللّٰه. All اذکار completed for this month without the ناغہ الحمد للّٰہ. Two, four, six and thirty five hundred. Ten minutes مراقبہ with finger on قلب ten minutes مراقبہ with finger on لطيفہ روح and fifteen minutes مراقبہ with finger on لطيفہ سر. I am able to hear اللّٰہ اللّٰہ coming from لطيفہ قلب روح and لطيفہ سر during مراقبہ.

جواب:

Now you should do it on the fourth لطيفہ. For the first three لطائف ten minutes each and for the fourth one, fifteen minutes and the rest will be the same ان شاء اللّٰه.

سوال نمبر 16:

حضرت! جن کو ہم روحانی امراض کہتے ہیں، تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ روح میں تو کوئی مرض نہیں ہوتا، اس لئے یا تو اس کو شیطانی امراض کہہ دیں یا نفسانی امراض کہہ دیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس طرح کہ روح کے اندر کوئی مرض نہیں ہوتا۔

جواب:

جب ملک الموت آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’یَا اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ‘‘ یعنی اے خبیث نفس اور اسی طرح روح کا لفظ بھی ہے یعنی دونوں کا ذکر ہے، اس لئے نفس کا روح پر اثر پڑتا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ اوپر کیا جاتا ہے؟ نفس جاتا ہے یا روح جاتی ہے؟ روح جاتی ہے۔ پھر دونوں کی روح ایک جیسی ہوتی ہے؟ نہیں صالح اور غیر صالح ہوتی ہے یعنی مختلف ہوتی ہیں اور یہی بیماری ہے۔ سب سے بڑی بیماری کفر میں ہے۔ دراصل نفس نے اس کو گھیرا ہوتا ہے اور جب نفس نے گھیرا ہوتا ہے تو یہ بیماری ہوتی ہے اور جیسے جیسے آپ کے نفس کا علاج ہورہا ہوتا ہے تو آپ کی روحانیت بڑھتی ہے اور یہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ روحانیت اصل میں نفسانیت کے کم ہونے کا نام ہے، نفسانیت جیسے جیسے کم ہوتی ہے تو ویسے ویسے روحانیت بڑھتی جاتی ہے، کیونکہ روح آزاد ہوتی رہتی ہے، اس کے حساب سے پھر وہ صحیح perform کررہی ہوتی ہے۔ بہرحال روحانی امراض اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ یہ نفس کی وجہ سے جو روح کو بیمار کرنے والا نظام ہے، وہ اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ بالکل آتی نفس کی وجہ سے ہے، لیکن خراب دل کرتا ہے، مثلاً دنیا کی محبت کہاں ہوتی ہے؟ دل میں ہوتی ہے، لیکن آتی کہاں سے ہے؟ نفس سے، اور دنیا کی محبت بیماری ہے، چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ‘‘ (مشکوۃ، حدیث نمبر: 5213)

ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام گناہوں کی بنیاد ہے‘‘۔

سوال نمبر 17:

حضرت! اس کو بری صحبت کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں؟ یعنی نفس برا ہے، روح میں یہ بیماری نہیں ہے، لیکن صحبت کی وجہ سے اس میں اثر آرہا ہے۔

جواب:

بری صحبت کا اثر بالکل ہے، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ روح جب تک آزاد نہیں ہوئی، تو وہ اپنا کام نہیں کرسکتی، مثال کے طور پر آپ کے معدے کو کوئی روک دے اور وہ نہ چل سکے تو اس کو کیا کہیں گے؟ بیماری کہیں گے، لیکن معدے نے خود تو نہیں پکڑا اپنے آپ کو، بلکہ کسی نے پکڑا ہے، لیکن بیمار وہ ہوگیا۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ حضرت! ہماری مسجد میں بوڑھے حضرات ہیں، جو اونچی آواز میں گپ شپ لگاتے ہیں، میں نے کئی طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ نہیں سمجھتے، داڑھی کا مذاق بھی اڑاتے ہیں، اب مجھے ان پر غصہ آنا شروع ہوگیا ہے اور بغض و کینہ کی طرف بات جارہی ہے، میں عین اقامت کے وقت پہنچتا ہوں، اس کی وجہ سے پہلی صف میں بھی جگہ نہیں ملتی، ایسی حالت میں کیا کام کرنا چاہئے؟

جواب:

اچھا سوال ہے، ماشاء اللّٰہ! علمی بھی ہے اور عملی بھی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری اپنے لحاظ سے پوری کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بیماری کو آپ برا کہیں، مگر بیمار کو برا نہ کہیں، لہٰذا یہ کام تو غلط ہے جو یہ کررہے ہیں، لیکن ان سے اس وجہ سے کینہ نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ان کے اوپر ترس کھانا چاہئے اور ان کے ساتھ رابطہ اس طرح بنانا چاہئے کہ وہ آپ کی بات سن سکیں اور سمجھ سکیں یعنی اگر آپ غصے سے کہیں گے تو معاملہ خراب ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ ان کی زبان سے کوئی چیز نکل جائے اور اگر وہ بے احتیاط ہیں، تو وہ کفر تک بھی جاسکتے ہیں، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے، اور جب آپ کی ان کے ساتھ اتنی dealing ہوجائے کہ وہ آپ کی بات کا احترام کرنا شروع کرلیں، پھر آپ ان کو صحیح طریقے سے بتائیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تیسرے درجے پہ عمل کریں۔ تیسرا درجہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اگر آپ برائی ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے برا کہیں اور اگر زبان سے بھی نہیں کہہ سکتے تو پھر اس کو برا سمجھیں اور یہی کم سے کم درجے کا ایمان ہے، لہٰذا پھر آپ اسی تیسرا درجے پہ عمل کرلیں کہ دل سے برا سمجھیں اور جتنی آپ کوشش کرچکے ہیں، بس اس کو اپنے لئے کافی سمجھیں کہ میں جتنی کوشش کرسکتا تھا، وہ کرلی باقی ہدایت تو اللّٰه کے ہاتھ میں ہے، وہ انسان کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ جیسے علماء کرام فرماتے ہیں: ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘، اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے اوپر تو بات کا پہنچانا ہے، اس کے بعد اگر وہ عمل نہیں کررہا تو وہ ان کی بات ہے۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ اگر مجھ سے ایک ایسا بندہ کسی کا گلہ شکوہ کرے، جس کی بات کو سننے سے میں انکار نہ کرسکوں، تو اس وقت میں ایسا کیا کروں کہ میں گناہ سے بچ جاؤں؟ کیونکہ گلوں شکووں میں اکثر غیبت آجاتی ہے، اس کے علاوہ اور بھی گناہ آجاتے ہیں۔

جواب:

اصل میں کسی کے بارے میں اگر کوئی گلہ شکوہ کرے تو اس کی تین صورتیں ہیں یعنی بزرگوں کے یہاں پائی گئی ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللّٰه مہاجر مکی رحمۃ اللّٰه علیہ پوری بات سن کے آخر میں فرماتے نہیں بھائی! وہ ایسا نہیں ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰه علیہ بات ہی بدل لیتے اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰه علیہ کچھ بھی اس بارے میں comment نہیں کرتے، بس خاموش ہوجاتے۔ لہٰذا آپ بھی خاموش رہ سکتی ہیں، بس سن لیں، لیکن خاموش رہیں، اس پہ کوئی response نہ کریں اور اگر کچھ کہنا ہو تو اتنا کہہ دیں کہ مجھے فی الحال اس پہ تحقیق نہیں ہے۔ بس اس طریقے سے ان شاء اللّٰه! بچت ہوجائے گی، اور یہ مشکل ضرور ہے، لیکن آہستہ آہستہ آسانی ہوجائے گی اور اس طرح آسانی ہوجائے گی کہ پھر وہ آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہ تو ایسے ہی ہے، پھر یا آپ سے بات نہیں کریں گے اس سلسلے میں یا کریں گے بھی تو آپ کا جواب ان کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے یہ جواب دینا ہے۔ بس اس طرح آسان ہوجائے گا ان شاء اللّٰه!

سوال نمبر 20:

حضرت! یہ جو ہم درود شریف پڑھتے ہیں، اس میں کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم سنت پر عمل تو اس طریقے سے نہیں کررہے جس طرح کرنا چاہئے، تو جب ہمارا درود شریف آپ ﷺ پر پیش ہوتا ہے، تو اس وقت آپ ﷺ کی طرف سے اگر جواب آئے کہ تم عمل تو کرتے نہیں ہو اور درود شریف میرے اوپر پڑھ رہے ہو۔ یہ اصل میں خیالات آتے ہیں بعض اوقات، تو کیا کیا جائے؟

جواب:

دیکھیں! ایک معمولی دیندار بھی یہ بات جانتا ہے کہ اگر کوئی روزہ نہیں رکھتا اور نماز پڑھتا ہے تو روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے نماز پڑھنے کو برا نہیں کہتا، تو آپ ﷺ کے بارے میں آپ کیسے گمان کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کے دوسرے کاموں کی وجہ سے ایک اچھے کام کو برا جانیں، البتہ اگر ہمارے اعمال آپ ﷺ کو پیش ہورہے ہیں تو پھر دعائیں کریں گے ان شاء اللّٰه! اور اگر ہم لوگ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کریں گے اور درود شریف بھیجیں گے تو یہ ہماری طرف سے ایک کوشش ہے، اس لئے وہ ہماری طرف سے ہمارے لئے دعا ہی فرمائیں گے ان شاء اللّٰه!

سوال نمبر 21:

بعض اوقات جو لطائف ہیں، ان میں سے صرف لطيفۂ قلب ہی جاری ہوتا ہے یعنی جب خاموشی یا مراقبہ ہو۔

جواب:

کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہمارے جو چشتی حضرات ہیں، ان کے یہاں صرف لطيفۂ قلب ہی اصل لطيفہ ہے، باقی تمام لطائف کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ لطيفۂ قلب ہی کا اثر باقی لطائف پہ ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اور اصل میں تو اللّٰه پاک کا استحضار ہے، اگر وہ آپ کو نصیب ہے تو بالکل ٹھیک ہے، پھر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور جیسے ہفتے کے دن جو مجلس تھی، اس میں گزرا ہے کہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ نے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے مکتوبات شریف میں جو فرمایا تھا، اس میں حضرت نے کسی صاحب کو یہی فرمایا تھا کہ ہمارے یہاں لطائف اور دوائر نہیں ہیں، حالانکہ حضرت کو خود نقشبندیہ کے ساتھ کافی انس تھا اور نقشبندی حضرات کا بھی ان کے ساتھ انس تھا، لیکن اس پر بھی فرماتے تھے کہ ہمارے یہاں یہ لطائف اور دوائر والی باتیں نہیں ہیں، اس لئے ٹھیک ہے، بس طریقۂ کار ہے چاہے ایک ہی ہو یعنی اگر کسی ایک کے ذریعے سے انسان کو فائدہ ہورہا ہے اور اس کا کام ہورہا ہے تو باقی چیزیں ضروری تو نہیں ہیں اور اگر کسی کی ہورہی ہیں تو اس کو ختم بھی نہیں کرنا چاہئے۔ باقی اصل لطيفۂ قلب ہی ہے، کیونکہ قرآن پاک میں اور احادیث شریفہ میں قلب کا ہی ذکر آیا ہے، نفس کا ذکر آیا ہے، روح کا ذکر آیا ہے، اس لئے یہ اصل ہیں، باقی اضافی ہیں، ان کو ظنی کہتے ہیں۔ ہمارے نقشبندی حضرات ناراض نہ ہوجائیں، لیکن اب کیا کریں؟ کیونکہ چشتیوں کو ہم زبردستی نقشبندی نہیں بنا سکتے اور جو نقشبندی ہوتے ہیں یعنی واقعی مناسبت کے لحاظ سے جو نقشبندی ہوں، تو بے شک وہ ہوں، لیکن لاکھ کوئی کہے کہ ایسا نہیں، ایسا نہیں، لیکن ان کی لائن اسی طرف clear ہوگی، یعنی ان پہ اثر نہیں ہوگا، بس ساری باتیں اسی طرح ہوں گی، جو چشتی حضرات ہیں، وہ اپنے ذوق کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 22:

نماز میں ’’اَن تَعْبُدَ ﷲَ کَانَّکَ تَرَاہُ‘‘ والی جو کیفیت ہے، اگر کبھی انسان کو یہ کیفیت محسوس ہو یا وہ کرے کہ میں اللّٰه کو دیکھ رہا ہوں، تو اس میں کچھ خیالات بننا شروع ہوجاتے ہیں اور دونوں خیالات ہیں، پھر آگے سے جواب بھی آتا ہے۔

جواب:

یہ اصل میں انسان کی کمزوری ہے، کیونکہ انسان کی ابتدا تشبیہ سے ہوتی ہے، پھر بعد میں تنزیہ کی طرف جاتا ہے اور اس کے اپنے جو اختیار میں ہے تو وہ تشبیہ کو تنزیہ میں بدل سکتا ہے اور وہ کیسے؟ جیسے حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ جو ہم نے کہا، جو ہم نے سنا، جو کچھ بھی ہم نے کیا، یہ سب اختیاری ہیں، اس لئے اختیاری طور پہ ختم کردیا کریں، البتہ جو ہورہا ہے، وہ تو ہورہا ہے۔ خیر بس یہی بات ہے کہ اختیاری طور پر ہم نے یہ سیکھا ہے، جیسے اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ﴾ (الشوریٰ: 11)

ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں‘‘۔

لہٰذا اختیاری طور پہ یہ ہونا چاہئے، باقی خیالات آجائیں تو خیالات تو انسان کے قابو میں نہیں ہیں۔ اور ابتدا میں تشبیہ ہوتی ہے، پھر اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ تنزیہ کی طرف بڑھتا ہے۔

سوال نمبر 23:

اور کبھی اس طرح کہ جیسے نظر بر قدم والی جو بات ہے کہ قیامت کے دن ﴿یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ﴾ (القلم: 42) (اللّٰه تعالیٰ اپنی پنڈلی کا دیدار کرائیں گے) اس میں بھی اس طرح کبھی خیال بن جاتا ہے ذہن میں اور خیال بھی نہیں رہتا کہ وہ خیال آرہا ہے، بس بندہ سمجھتا ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں، پھر ساتھ خیال آتا ہے کہ وہ تو اس طرح ہے ہی نہیں، وہ تو ویسے ایک نور کی شکل سی ہے۔

جواب:

پنڈلی سے مراد تو اس طرح ہے ہی نہیں۔ اور پھر جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ ابتدا تشبیہ سے ہوتی ہے، پھر بعد میں تنزیہ کی طرف جاتا ہے یعنی ابتدا میں تجلیات افعالیہ اور پھر اس کے بعد صفات ثبوتیہ اور پھر اس کے بعد توجہ الی الذات، اس کے بعد اخیر میں وہ سلبیہ آتا ہے یعنی تنزیہ والا مراقبہ، پھر اس کی صفائی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 24:

کبھی کبھی یہ خیال اس طرح بن جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں، اور میں ان کو دیکھ رہا ہوں، تو وہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔

جواب:

اصل میں ہمارا دیکھنا تو ممکن نہیں ہے، ہمارے لئے تو صرف حکم ہے کہ عمل ایسا کرو جیسا اس صورت میں کرتے جب تم دیکھتے یعنی یہ نہیں فرمایا کہ آپ دیکھیں، بلکہ فرمایا:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

یعنی کَاَنَّک ہے، انگریزی میں جیسے as if ہے کہ جیسے تم دیکھتے تو اس وقت جس طرح عمل کرتے تو اس طرح عمل کرو۔ یعنی اصل دیکھنا نہیں ہے، بس دیکھنے سے دیکھنے کا جو effect ہے، اس کو لینا ہے۔ بس یہی اصل ہے، باقی خیالات ہیں۔ اسی لئے بعض حضرات نے کہا ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف جب رخ کرو تو ایسے سمجھو کہ میں اللّٰه کی طرف متوجہ ہوں، کیونکہ خانہ کعبہ پہ تجلی مسجودی ہے، اس لئے اس کا روخ اس طرف ہے۔ جیسے دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں آسمان کی طرف، اب آسمان میں تو خدا نہیں ہے، وہ اوپر ہے، لیکن یہ چونکہ انسان کا فطری رحجان ہے، لہٰذا معاف ہے۔ اور اللّٰه کا شکر الحمد للّٰہ! اللّٰه پاک نے ہمارے لئے یہ چیز بہت آسان کی ہے اور یہ وہی والی بات کہ اس کا جو اثر ہے، وہ لینا ہے، اس کو صورت میں نہ لینا یعنی اصل والی بات نہیں، اصل کی طرح ہے۔ مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ آپ کی نقشبندی نسبت ہے، میں اس کی جو تشریح سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ چونکہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کا جیسے سوچنا تھا، اس کے ساتھ مجھے بہت زیادہ مناسبت ہے اور حضرت پہ یہ بہت زیادہ غالب تھا کہ اللّٰه اللّٰه ہے اور مخلوق مخلوق ہے، اس وجہ سے وہ ہر بات کے اندر اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ اب ہم پر بھی یہی چیز غالب ہے کہ بے شک محبت کتنی ہی زیادہ ہوجائے، لیکن یہ چونکہ عقیدے کی بات ہے، لہٰذا اس میں ہم آگے نہیں جاتے، ہم کہتے ہیں کہ بس اللّٰه اللّٰه ہے، مخلوق مخلوق ہے اور کوئی نہیں ہے۔

سوال نمبر 25:

ابھی جو وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے، اس میں اگر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰه علیہ جس طرح وضو کا طریقہ بتاتے تھے اور دعاؤں کا اہتمام کرتے تھے، تو اس وہ طریقہ بھی اگر شامل کرلیا جائے تو ان شاء اللّٰه! بہت فائدہ ہوجائے گا، کافی استحضار ہوجائے گا، یہ پورا ایک مراقبہ ہے۔

جواب:

یہ ہم بعد میں کریں گے، فی الحال وضو کا طریقہ سب کو آجائے، اس کا اہتمام کرنا شروع ہوجائیں، پھر اس کے ساتھ دعائیں شامل کریں گے، ان شاء اللّٰه، بلکہ ہمارا خود اپنا ذوق بھی ہے اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ والا جو دعاؤں کا طریقہ ہے، وہ بہت با اثر ہے، اس میں اگر دعائیں ساری یاد نہ بھی ہوں، صرف خیالات بھی آدمی کرتا رہے جیسے گردن کا مسح کررہا ہے، سر کا مسح کررہا ہے، ہاتھ دھو رہا ہے، بس دعاؤں کا ترجمہ ہی ذہن میں رکھ لے، تو اس سے بڑا اثر ہوتا ہے، کیفیت بدلتی ہے، پورا ایک مراقبہ ہے۔ اور بلکہ اب جو نیا گھر بنایا جائے، تو اس میں وضو کی جگہ باہر علیحدہ سے قبلے کی طرف رخ کرکے بنانی چاہئے، لیکن اس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے، بلکہ ابھی میں نے ایک کام شروع کیا ہے، الحمد للّٰہ! یہاں تو میں نے بنا بھی لیا، لیکن گھر میں ذرا chance تھا، تو گھر میں میں نے قبلہ رخ بنایا ہے، ایک تو کھڑے ہونے والا ہوتا ہے، لیکن ہم نے بیٹھنے والا اسی طرح بنایا ہے یعنی اس کا پیر کاٹ کے نیچے رکھ دیا، بہرحال کافی فائدہ ہوا ہے۔ اور ابھی نئے گھر بنے اس میں washroom سے باہر بھی جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آج کل ایک ٹونٹی سسٹم آرہا ہے اوپر نیچے سے، اس میں یہ فائدہ ہے کہ آپ لوٹے کی طرح اس کو استعمال کرسکتے ہیں یعنی آپ اس کو پانی mix کرکے پھر بند کرلیں، تو بند ہوگیا، پھر جس وقت آپ دوسرا پانی لیں تو اس کو تھوڑا اٹھا لیں، پھر لے کے پھر بند کرلیں، جیسے لوٹے سے پانی لیتے ہیں، اسی طرح سے آپ وہ پانی اس سے لے سکتے ہیں، اس سے سنت طریقے کے مطابق وضو کرنے کا ایک سسٹم بن جاتا ہے اور کراچی والوں نے کچھ بنایا بھی ہے شاید مفتی تقی عثمانی صاحب کی سرپرستی میں وضو کے لئے وہ برتن بنایا ہوا ہے، یہ بالکل صحیح ہے، ہمیں بھی اس کا رواج دینا چاہئے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب