حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی وجہ کیا ہے؟

سوال نمبر 545

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کی ایک دعا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ یا اللہ میں تجھ سے وعدہ لیتا ہوں جسے تو ہر گز نہ توڑ کہ میں بھی بشر ہوں۔ سو جس مسلمان کو تکلیف دوں یا اسے بُرا بھلا کہوں یا اسے ماروں، پیٹوں یا اسے بد دعا دوں تو اس کو تو اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی اور قربت کا سبب بنا دے۔ جس سے تو اس کو مقرب بنا لے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے زندگی بھر کسی کو اپنی ذات کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی بلکہ جنہوں نے تکلیف دی ان کو معاف فرمایا۔ ان سب کے با وجود آپ ﷺ یہ دعا مانگ رہے ہیں، اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔

جواب:

اصل میں یہ غایتِ رحمت اور شفقت کی وجہ سے ہے کہ آپ ﷺ کو اپنی امت پر اتنی رحمت اور شفقت تھی کہ دور از کار جس کا خیال ہی ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں بھی آپ ﷺ سوچ لیتے کہ کہیں اس کی وجہ سے میری امت کو تکلیف نہ ہو۔ اس میں انسان کی طبعی بات بھی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی کو تکلیف دیں تو طبعی طور پر اس کو جو تکلیف ہوتی ہے اس سے پھر دوسروں کو بھی تکلیف ہو سکتی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی بھی دعا مانگی کہ کسی وجہ سے بھی میری امت کو تکلیف اور نقصان نہ ہو۔ حضرت مولانا مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ امتی تھے لیکن اللہ پاک کے بڑے مقبول بندے تھے۔ ان کا مزاج بہت نازک تھا۔ اگر ان کو کوئی تکلیف ہو جاتی اور ان کو جو تکلیف پہنچاتا اس کو بھی با قاعدہ ایک قسم کی سزا کے طور پہ تکلیف پہچتی۔ حضرت سے کسی اپنے جاننے والے نے کہا: حضرت! آپ کبھی معاف بھی کر دیا کریں، اتنی سختی نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت نے فرمایا: میں ان کی غلطی سے پہلے معاف کر دیتا ہوں لیکن کیا کروں اللہ پاک معاف نہیں کرتے۔ چنانچہ بعض مقبولین کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ غایت درجہ اللہ تعالیٰ کے مقبول تھے۔ آپ ﷺ کو اس بات کی بھی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں میری وجہ سے کوئی گرفت میں نہ آ جائے۔ اگر میری وجہ سے کوئی تکلیف میں آ سکتا ہو تو اس کی تکلیف کو اس کے لئے معافی کا ذریعہ بنا دے۔ یہ بات بہت اونچی ہے۔ جو لوگ اس فکر کے حامل نہ ہوں ان کو یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی۔ آج کل اگر کوئی چھوٹی سی بات ہو جائے تو ہمیشہ کے لئے دل میں رکھ لیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کیا، جب موقع ملے گا تو میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ یہ کینہ ہے جو بہت خطر ناک چیز ہے۔ آپ ﷺ میں کینہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے opposite شفقت اتنی زیادہ تھی کہ اپنے دشمنوں کے لئے بھی دعا کرتے تھے۔ ایسی دعا جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ آپ ﷺ کی انتہائی عظمت کی بات ہے اور نزول انبیاء کرام کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ نزول ہے جو آپ ﷺ ہی کو ہو سکتا تھا کسی اور کو ایسا نہیں ہو سکتا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن