نابالغ بچوں کی بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

سوال نمبر 544

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ حضور ﷺ نے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بچپن میں ہی بیعت فرمایا تھا۔ نہ ان کی داڑھی نکلی تھی اور نہ ابھی یہ لوگ بالغ ہوئے تھے۔ ہمارے علاوہ کسی اور بچے کو بیعت نہیں کیا۔ اس روایت سے آپ ﷺ کا نا بالغ بچوں کو بیعت کرنا ثابت ہے۔ کیا آج کل بھی مشائخ نا بالغ بچوں کو بیعت کر سکتے ہيں اور اگر کرتے ہیں تو اُن کی بیعت محض برکت کے لئے ہوتی ہے یا تربیت کے لئے؟

جواب:

عموماً مشائخ بچوں کو بیعت نہیں کیا کرتے، لیکن آج کل چونکہ فتنے کا دور ہے۔ چنانچہ ہمارے مشائخ پہلے وقتوں میں طالب علموں کو بیعت نہیں کرتے تھے۔ لیکن مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آخری دور میں نہ صرف خود بیعت کرنا شروع کر دیا بلکہ مختلف مہتمم حضرات جو حضرت کے متعلقین تھے، جیسے مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کو خطوط لکھے یا بعض کے ساتھ ملاقات کی اور ان کو convenience کیا کہ آج کل بیعت کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس وقت اگر کسی اللہ والے کے ساتھ تعلق قائم نہ ہو تو بعد میں جب ان پر عالم ہونے کا ٹھپہ لگ جائے گا تو پھر یہ اس طرف نہیں آئیں گے۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ ہم عالم ہیں، غیر عالم سے کیسے بیعت ہو جائیں؟ بہت ساری باتیں ذہنوں میں آتی ہیں اور پھر رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حضرت نے بصیرت کا مظاہرہ فرمایا اور اس وقت طالب علموں کو بیعت کرنا شروع کر دیا۔ میں بھی پہلے بچوں کو بیعت نہیں کرتا تھا۔ لیکن دو ایسے واقعات پیش آئے کہ ان سے مجھے لگا کہ اب طلباء کو بھی بیعت کرنا چاہیے۔ ایک واقعہ ادھر پاکستان میں ہوا، خیابان میں ایک 6 سالہ بچی نے اپنی والدہ سے کہا: میں آج شاہ صاحب سے بیعت ہو گئی۔ پوچھا: کیسے بیعت ہو گئی؟ کہا: عورتیں بیعت کر رہی تھیں تو میں نے بھی ان کے ساتھ بیعت کر لی۔ کیونکہ عورتوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتے نہ وہ سامنے ہوتی ہیں، وہ صرف آواز سنتی ہیں۔ میں جو بیعت کے الفاظ کہتا ہوں تو وہ ساتھ دھراتی ہیں، وہ چھوٹی بچی بھی ان کے ساتھ بولنے لگی تو بیعت ہو گئی۔ اس کی والدہ نے مجھے ٹیلی فون کر کے بتایا۔ بہر حال پھر اس کو میں نے مختصر سا وظیفہ بتا دیا۔ چند دن بعد اس نے رات کے بارہ بجے اپنی والدہ کو جگایا کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، شاہ صاحب کو ٹیلی فون کرو۔ یہ اس بچی کی کار گزاری تھی۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک دفعہ میں مدینہ منورہ میں تھا، مسجد نبوی سے باہر نکلا تو ایک صاحب کا فون آیا کہ شاہ صاحب! مہربانی کر کے مسجد نبوی کے اندر سے میرے بچے کو بیعت کر لیں، یہ اُس کی بڑی خواہش ہے۔ میں ٹیلیفون اس کو دیتا ہوں۔ میں چونکہ باہر آ گیا تھا تو میں نے سوچا کیونکہ یہ جگہ ایسی ہے کہ انکار کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے، تو میں واپس اندر چلا گیا اور اس کو ٹیلی فون پر بیعت کر لیا۔ پھر ان بچوں کے واقعات اور حالات کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ اب بچوں کو بیعت کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے بہت نوازا۔ سلسلوں کی اپنی برکات ہوتی ہیں اور جتنا اخلاص ہوتا ہے، جتنی dedication ہوتی ہے اتنا زیادہ ملتا ہے۔ بچوں کی dedication نسبتاً زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ Pure mind ہوتے ہیں۔ ان کو بہت فائدہ ہوا۔ چنانچہ ہر سلسلے کی یہ برکت ہوتی ہے۔ بچپن کی تربیت بھی سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ ایک سال میں بچہ جو سیکھتا ہے وہ اگلے تین سال میں نہیں سیکھ سکتا۔ جو تین سال میں سیکھتا ہے اگلے دس سال میں نہیں سیکھ سکتا۔ جو دس سال میں سیکھتا ہے وہ اگلے پچیس سال میں نہیں سیکھ سکتا۔ اس سے مراد علم نہیں ہے بلکہ وہ کام ہیں جو ان کی شخصیت پہ اثر ڈالتے ہیں۔ علم تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن تربیت کا اثر بچپن میں زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے گیس سلنڈر جب ابتدا میں بھرتا ہے تو اس کی با قاعدہ آواز آتی ہے۔ جیسے کوئی چیز بہت تیزی سے جا رہی ہو۔ پھر جب بھرنے کے قریب پہنچتا ہے تو آہستہ آہستہ آواز کم ہونے لگتی ہے اور آخر میں بالکل slow ہو جاتی ہے۔ جیسے خالی برتن میں کوئی چیز بہت تیزی سے جائے گی۔ اس لئے پہلے وقتوں میں بچوں کو بیعت نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ سنجیدہ نہیں ہوتے یا ان کے اوپر یہ چیز ان کی طاقت سے زیادہ نہ ہو جائے یا والدین کے لئے مسئلہ نہ ہو جائے۔ کوئی ایسی بات ہوتی تھی جس کی وجہ سے رکاوٹ تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں: سب سے زیادہ تربیت بچپن میں ہوتی ہے۔ اگر کسی نے بچپن کی تربیت کا chance miss کر دیا تو بعد میں اس کو catch کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ جب اسلام آیا تو ابتدا میں قبول کرنے والے زیادہ تر جوان ہی تھے۔ بوڑھے لوگ کم مسلمان ہوئے تھے۔ اب بھی جب آپ دعوت کا کام چلاتے ہیں تو نو جوان زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور بوڑھے کم متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ بوڑھے لوگ saturate ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ قسمت سے ہی آتے ہیں ورنہ ان کے دماغوں میں جو کچھ بیٹھا ہوتا ہے بس وہی ان کے مطابق ٹھیک ہوتا ہے، اس کو نکالنا آسان نہیں ہوتا بلکہ وہ دلائل بھی دینے لگتے ہیں، بحث بھی کرنے لگتے ہیں۔ آپ ایک بوڑھے کو convince کرنے میں جتنا time لگاتے ہیں اتنی دیر میں آپ شاید سو جوانوں کو convince کر سکتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ تر عورتیں بھی بچوں کی طرح ہوتی ہیں، یہ بھی بہت جلد متاثر ہوتی ہیں۔ البتہ بچے اور عورتیں متاثر اور اچھے بھی جلدی ہوتے ہیں لیکن خراب بھی جلدی ہوتے ہیں۔ کیونکہ دوسری طرف بھی تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ اگر خراب ماحول میں چھوڑ دیا تو بہت جلدی خراب ہو جائیں گے اور اگر اچھے ماحول میں ڈال دیا تو بہت جلدی اچھے ہو جائیں گے۔ عورتوں اور بچوں کی اس معاملے میں حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ مردوں کی مثال پانی کی طرح ہے کہ پانی جلدی گرم نہیں ہوتا اور جلدی ٹھنڈا بھی نہیں ہوتا۔ عورتوں اور بچوں کی مثال لوہے کی طرح ہے کہ لوہا بہت جلدی گرم ہوتا ہے اور بہت جلدی ٹھنڈا بھی ہو جاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص اپنے بچوں کو کسی شیخ سے بیعت کروا دے اور والدین خود بھی اس کے ساتھ cooperate کریں اور شیخ کی اتباع والی بات اس کے ذہن میں بٹھاتے رہیں اور شیخ کے ساتھ ان کا رابطہ ہو تو فائدے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ تر نو جوان لوگ بیعت ہوئے تھے۔ ایک لڑکا حضرت سے بیعت ہوا، اس کے والد حضرت سے کہا کرتے تھے کہ اس سے یہ کہیں اور وہ کہیں وغیرہ۔ ظاہر ہے تربیت کے اپنے اطوار ہوتے ہیں، ہر ایک کو تربیت کرنا نہیں آتی۔ اگر والد کو تربیت کرنا آتی تو پھر وہی کرتے۔ حضرت جانتے تھے کہ یہ صاحب جو مجھے بتا رہے ہیں یہ تربیت کا ٹھیک طریقہ نہیں ہے لیکن حضرت accommodate کرنے والوں میں تھے۔ کچھ نہ کچھ adjust کر لیتے تھے۔ لیکن اخیر میں حضرت تنگ ہو گئے تو حضرت نے فرمایا: میں نے کبھی بھی کسی بزرگ سے نہیں سنا کہ اگر کوئی بچہ شیخ سے بیعت ہوا ہو تو وہ شیخ اس کے والد سے بیعت ہو جائے۔ چنانچہ آپ اپنے بچے کو لے جائیں میں مزید کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مجھ سے بھی ایک لڑکا بیعت ہوا۔ اس کا اور اس کے والد کا آپس میں کوئی مسئلہ تھا۔ اکثر اس کا والد مجھے کہتا تھا کہ آپ اس سے یہ کہیں اور وہ کہیں۔ مجھے مولانا صاحب والا واقعہ یاد تھا تو میں نے کہا: میں آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا۔ اگر میرے ساتھ ہے تو میں اپنے طریقے سے چلاؤں گا، آپ کے طریقے سے نہیں۔ اور اگر اس کو پتا چل گیا کہ میں آپ سے متاثر ہوں یا آپ کی بات مانتا ہوں تو وہ بھی دور چلا جائے گا اور بد گمانی ہو جائے گی۔ آپ میرے پاس سامنے نہ آئیں، انہوں نے میری بات پہ عمل کیا۔ بعد میں میں نے پوچھا کہ فائدہ ہوا ہے اس سے؟ کہتا ہے: بہت فائدہ ہوا۔ میں نے کہا: ان شاء اللہ اور بھی ہو گا، بس آپ ذرا سا توقف کر لیں۔ چنانچہ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ باتیں ہوتی ہیں، وہ communicate کرنا چاہتے ہیں اور بچے لینا نہیں چاہتے، ان کی اپنی عمر اور سمجھ ہوتی ہے۔ تربیت میں ایک نکتہ سمجھنا چاہیے جو اکثر لوگوں کو بالکل معلوم نہیں ہے کہ ایک آدمی جو بات پچیس سال میں سمجھا وہ کہتا ہے کہ میرا بچہ وہی بات ایک دن میں سمجھ جائے تو یہ نہیں ہو سکتا۔ آخر آپ پچیس سال میں کیوں سمجھے؟ ایک دن میں کیوں نہ سمجھے؟ آپ بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہی ہے۔ معلوم ہوا ایک process ہوتا ہے جس میں تدریجی طریقے سے چلنا ہوتا ہے۔ مشائخ کو تدریج کا پتا ہوتا ہے جبکہ لوگ یک دم کرنا چاہتے ہیں جب کہ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اس طرح سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ بے شک والد کا بچوں کے اوپر بہت حق ہے۔ شیخ ان کو والد کے حقوق یاد دلاتا ہے لیکن تربیت والد کے معیار پر نہیں ہوتی۔ اگر والد تربیت کا طریقہ جانتا ہوتا تو خود کر لیتا۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بچوں کی خود تربیت نہیں فرمائی بلکہ ایک اور بزرگ کے پاس لے گئے۔ یہ بھی ان کی تربیت تھی۔ حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے گئے۔ معلوم ہوا اس میں کسی اور کی contribution کا role ہوتا ہے۔ بعض باتیں انسان اپنے ماحول اور اپنی attachment کی وجہ سے نہیں سمجھا سکتا، دوسرا سمجھائے تو وہ زیادہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن