تکلیف پر خوش ہونا انسانی فطرت کے خلاف کیوں نہیں؟

سوال نمبر 543

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ!

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں گیا، آپ ﷺ کو بخار چڑھا ہوا تھا اور آپ ﷺ نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ میں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ رکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ کو کتنا تیز بخار چڑھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہم پر اسی طرح سخت تکلیف و آزمائش آیا کرتی ہے اور ہمارا اجر و ثواب بھی دگنا ہوتا ہے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کن پر آتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: انبیاء پر۔ پھر میں نے پوچھا: اس کے بعد کن پر؟ فرمایا: علماء پر۔ میں نے پوچھا: پھر کن پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک بندوں پر۔ بعض نیک بندوں کے جسم میں اتنی جوئیں پڑ جاتی تھیں کہ اس میں ان کا انتقال ہو جاتا اور بعض پر اتنی تنگدستی آتی تھی کہ انہیں ایک چوغہ کے علاوہ کوئی اور چیز پہننے کو نہ ملتی۔ لیکن تمہیں دنیا کے ملنے سے جتنی خوشی ہوتی ہے انہیں اس سے زیادہ آزمائش اور تکلیف سے خوشی ہوتی تھی۔ اس آخری جملے کی وضاحت فرمائیں کیونکہ تکلیف پر خوش ہونا انسانی فطرت کے خلاف بات لگ رہی ہے۔

جواب:

اس کی تشریح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مواعظ میں بارہا فرما چکے ہیں۔ اصل میں سمجھ سمجھ کی اور دل دل کی بات ہے۔ کسی درجے میں اس کو اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ محبوب کی طرف سے جو تکلیف ملتی ہے اس میں مزہ آتا ہے۔ حضرت نے اس کی مثال دی ہے۔ فرمایا کہ اگر کسی کو اس کا محبوب پیچھے سے پکڑ کر جھینپے، اس کو پتا نہ ہو تو اس کو تکلیف ہو گی لیکن جب اس کو پتا چلے گا کہ مجھے محبوب نے پکڑا ہے اور محبوب پوچھے کہ اگر آپ چاہیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں۔ تو وہ جواب دے گا کہ نہیں۔ کیونکہ اس کو پہلے تکلیف ہو رہی تھی لیکن جب اس کو پتا چلا کہ یہ محبوب کی طرف سے ہے تو وہ نہیں چاہے گا کہ مجھے چھوڑ کر وہ کسی اور کو دبائے۔ علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:

نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت

سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

یعنی دشمن کو یہ نصیب نہ ہو کہ تیرے تیغ سے ہلاک ہو جائیں۔ دوستوں کا سر سلامت رہے تاکہ اس پہ تو خنجر آزماتا رہے۔ یہ عشق اور محبت کی باتیں ہیں۔ جب تک کسی کو کوئی زبان نہیں آتی تو وہ اس کو نہیں سمجھتا۔ جیسے کوئی پشتو نہیں جانتا تو ویسے ہی ہاں ہوں کرے گا لیکن اس کو سمجھ نہیں آئے گی۔ اسی طریقے سے محبت کی بھی ایک زبان ہے۔ محبت کی زبان کو محبت والے ہی جانتے ہیں۔ حدیث شریف میں با قاعدہ اس کی سند مل گئی کہ ”تمہیں دنیا کے ملنے سے جتنی خوشی ہوتی ہے انہیں اس سے زیادہ آزمائش اور تکلیف سے خوشی ہوتی تھی۔“ یہ بات اب بھی ہے لیکن محبت والوں کے لئے ہے۔ دنیا دار لوگ دیندار لوگوں کی بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پتا نہیں کہاں سے بول رہے ہیں؟ اور کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ اور جو دنیا دار جنت کے طالب ہیں وہ اللہ پاک کے طالبوں کی پہچان کو نہیں سمجھتے۔ جس کو جنت کی طلب ہے وہ جنت کی طلب کو دنیا کی سختی جھیلنے کے لئے برداشت کرتا ہے۔ لیکن جو اللہ کے طالب ہیں وہ اللہ کے لئے سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے یہ ایسا نظام بنایا ہے کہ محبت کے ساتھ بہت سی چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔ یعنی اہل محبت کے واقعات و اشعار کے بارے میں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ ہے۔ حالانکہ جن کے اوپر گزرتی ہے وہی اس کو جانتے ہیں۔

کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، جب ہم حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب پڑھ رہے تھے تو اس میں ایک جگہ پر آیا کہ ایک صاحب نے دوسرے صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھا، ان کو ہر قسم کی پریشانی تھی۔ ان صاحب نے انہیں غور سے دیکھا تو انہوں نے کہا: یا مکلف اس طرح مت کرو۔ تم کون ہو میرے اور میرے رب کے درمیان میں آنے والے؟ پھر انہوں نے کہا کہ اے اللہ! تو اگر تکلیفوں کا مجھ پر بوجھ بھی ڈال دے تب بھی میری محبت مزید بڑھے گی۔ ان صاحب کی اس حالت کی دلیل حدیث شریف سے مل گئی۔

حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجذوب قسم کے لوگوں کے بارے میں ایک بات فرمائی تھی۔ جن کا محبت کی وجہ سے دوسرا معاملہ ہو چکا ہوتا ہے۔ فرمایا: ان پہ آپ غور نہ کیا کریں۔ ان کی فقہ اور قانون ہی علیحدہ ہے۔ میں نے سوچا کہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ فرمایا: ان کی قلبی حالت کی وجہ سے ان کی پکڑ بھی ہوتی ہے اور ان کو نوازا بھی جاتا ہے۔ حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ انہی حضرات میں سے تھے۔ بہت بڑے ولی اللہ تھے۔ جب فوت ہو گئے تو کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ حضرت! آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: بس اللہ پاک نے بخش دیا ورنہ معاملہ گڑبڑ ہو گیا تھا۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہتے ہیں: ایک دفعہ مجھے رات کو پیٹ میں درد تھا۔ صبح کسی نے پوچھا: طبیعت کیسی ہے؟ میں نے کہا: رات کو دودھ پیا تھا جس سے پیٹ میں درد ہو گیا۔ اللہ پاک نے اس پر گرفت فرمائی کہ دودھ کی وجہ سے ہوا تھا یا میرے حکم سے ہوا تھا۔ لیکن ہمیں اس پر نہیں پکڑتے۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ تھے۔ بارش ہو گئی تو ان کی زبان سے نکلا کیا موقعے کی بارش ہوئی ہے۔ الہام ہوا کہ گستاخ کبھی بے موقع بھی بارش ہوئی ہے؟ یعنی ان کا stage ایسا تھا کہ جس پر لوگوں کی ان باتوں پر بھی پکڑ ہو جاتی ہے۔ عام لوگوں کی نہیں ہوتی کیونکہ عام لوگ اسباب سے اپنی عقلی فہم کے ذریعے سے مسبب الاسباب کی طرف انتقال کرتے ہیں۔ گویا وہ feel نہیں کرتے لیکن علم الیقین والی بات ان کو یاد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایسا کیا ہے۔ ان کا تعلق علم کے ذریعے سے ہوتا ہے، حال کے درجے میں نہیں ہوتا۔ لہذا ان کے ذہن میں سب سے پہلے تو سبب ہی آئے گا کیونکہ سبب ان کی حال والی بات ہے۔ البتہ قال والی بات ان کی حقیقت ہے۔ اب وہ علم الیقین کے ذریعے مانتے ہیں لیکن ان کو حال نصیب نہیں ہوتا۔ نتیجتاً حال کے معاملے پہ ان کی گرفت نہیں ہوتی۔ گویا اہل حال، حال کی بات پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا حال تھا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ اس دور کے مجدد ہیں۔ اس دور کے حال کے لحاظ سے ہر بات فرماتے ہیں اور ہمارے لئے آسانی پیدا فرماتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھو۔ اگر اللہ تعالیٰ نے تم سے بزرگوں والا معاملہ کیا تو پھر کیا کرو گے؟ بس سادہ رہو۔ اس میں ہی فائدہ ہے۔ ہم اس بات کی قدر نہیں کرتے۔ جو باتیں میں نے کی ہیں وہ ہم نے حضرت ہی سے سنی ہیں۔ حضرت کو In depth سے یہ ساری چیزیں معلوم تھیں۔ لیکن ہمارے لئے چیزوں کو آسان کر دیا۔ ایک تو اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھو اسی میں فائدہ ہے اور دوسرا جیسے کسی شخص کا حال نہیں ہے لیکن قال ہے اور قال میں وہ بڑی ہی محبت کی باتیں کرتا ہے۔ اب اُدھر سے فیصلہ ہو جائے کہ اچھا تو ایسا ہے تو پھر ایسا ہی کر۔ اب وہ کیا کرے گا؟ کیونکہ اس کا حال نہیں تھا بلکہ صرف قال کے درجے پہ تھا۔ معلوم ہوا ہمیں عافیت ہی مانگنا چاہیے، اسی میں ہمارا فائدہ ہے۔ ہمیں ڈرتے رہنا چاہیے۔ البتہ اگر اللہ نے حال نصیب فرما دیا تو پھر اس کے لئے کسی کو سمجھنا نہیں پڑے گا بلکہ وہ خود ہی سمجھ آ جائے گا۔کہتے ہیں:

محبت تجھ کو آداب محبت خود سکھادے گی

جن کو محبت ہو جاتی ہے پھر اس کے آداب بھی ان پہ القا ہو جاتے ہیں اور ساری باتیں ان پہ کھل جاتی ہیں۔ وہ محبت ہی بڑا استاد بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی اور استاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت میرا دل چاہتا ہے کہ توکل علی اللہ کروں اور ملازمت وغیرہ چھوڑ دوں۔ دس روپے ماہانہ ملازمت تھی۔ حضرت نے جواباً لکھا: ملازمت مت چھوڑو، ابھی اللہ پاک نے آپ کو ذریعہ دیا ہے تو اس کی قدر کرو۔ کچھ عرصہ کے بعد خط لکھا کہ حضرت میں نے چھوڑ دی۔ فرمایا: اللہ مبارک فرمائے۔ جن ساتھیوں کے سامنے دونوں باتیں ہوئی تھیں انہوں نے پوچھا: حضرت پہلے آپ نے یوں فرمایا تھا اور اب آپ نے ان کو مبارک باد دی ہے؟ فرمایا: پہلے اس کو وہ حال نصیب نہیں تھا، اگر اس وقت چھوڑتا تو توکل نہیں ہوتا۔ پھر مشکلات میں پڑ جاتا۔ اب اس کو وہ نصیب ہو گیا تو اس کے مطابق اللہ پاک ان کے ساتھ عمل کرے گا۔ شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے دادا پیر تھے۔ ان کے ہاں سے لوگ با قاعدہ کھاتے تھے۔ کہاں سے آتا تھا، یہ اللہ کو پتا تھا۔ کمرے میں جاتے اور تیار پلاؤ اور فروٹ وغیرہ مہمانوں کے لئے لے آتے۔ کمرے میں کدھر سے آ رہا ہے؟ کسی کو کہتے: میرے تکئے کے نیچے سے جتنا ہو لے جاؤ۔ جو ہوتا وہ لے جاتے۔ ایسے لوگوں کے لئے پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ ان کے لئے ہوتا ہے جن کا قال ہوتا ہے، وہ جوڑ جوڑ کے سوچتے ہیں کہ یہ اس طرح ہے اور وہ اُس طرح ہے وغیرہ۔ بس اس درجے پہ رہو۔ لیکن اگر آپ نے اپنے آپ کو اس category میں سمجھ لیا اور اس category کے آداب آپ کے اوپر نافذ ہو گئے تو اس کے بعد آپ کے لئے مشکلات ہوں گی۔۔ یہ بڑے بڑے افسر جو PA's ہوتے ہیں، مجھے ان پر بڑی حیرت ہوتی کہ یہ کیسے زندہ ہیں! وہ ہر وقت tension میں رہتے ہیں۔ نہ چائے صحیح وقت پہ پی سکتے ہیں، نہ کھانا کھا سکتے ہیں، نہ toilet آرام سے جا سکتے ہیں۔ یہ ان کی condition پر depend کرتا ہے۔ کیونکہ کسی وقت کچھ بھی کام آ سکتا ہے۔ اس کام کی priority اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے تمام کاموں کی priority اتنی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان کو ایسی post مل بھی جاتی ہے۔ یعنی ان کی caliber ایسی ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی یوں ہی promotion وغیرہ نہیں ہو جاتی۔ جو misfit ہوتے ہیں وہ خود بخود علیحدہ ہوتے جاتے ہیں۔ اسی طرح جس قسم کا حال نصیب ہوتا ہے اگر وہ اس کے level کا نہیں تو بس misfit ہو جائے گا اور ہٹ جائے گا۔ لیکن جب ہو گا تو پھر آگے بڑھے گا اور اس کے حساب سے اس کو حالات ملتے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ خیر والا معاملہ فرمائے۔ یہ بہت جامع دعا ہے۔ فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔ تحدیث نعمت کے طور پہ کہتا ہوں کہ یہ دعا مجھے مولانا محمد عمر پالنپوری صاحب نے دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔ چنانچہ ہم یہ چیز اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ یا اللہ ہمارے ساتھ خیر والا معاملہ فرما۔ K.P.K میں لوگوں کا ایک دستور ہے کہ اگر کوئی گرتا ہے تو فوراً کہتے ہیں: یا اللہ خیر۔ یہ مکمل دعا ہے۔ یعنی آپ گاڑی چلا رہے ہیں یکدم کوئی مسئلہ ہو گیا تو یا اللہ خیر۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اچھا رواج ہے اور دوسرا ہمارے ہاں یہ بھی رواج ہے کہ روکو نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں: صبر، صبر۔ جبکہ پنجاب میں کہتے ہیں: روکیں روکیں۔ گویا صبر ایک پورا حال ہے، اگر کسی کو نصیب ہو جائے تو یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ یہ اولیاء اللہ کی وہ برکات ہیں جو پورے معاشرے کو نصیب ہوتی ہیں اور معاشرے کے اوپر چھا جاتی ہیں۔ اس کے origin کا پتا نہیں ہوتا کہ کہاں سے آئی ہیں لیکن وہ موجود ہوتی ہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن