اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْد بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
ایک دفعہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ہجرت کی کونسی صورت سب سے افضل ہے؟ فرمایا کہ تم ان کاموں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناپسند ہیں۔ ہجرت دو طرح کی ہے۔ ایک شہر والوں کی ہجرت اور ایک دیہات والوں کی ہجرت۔ دیہات والوں کی ہجرت تو یہ ہے کہ وہ رہے تو اپنے دیہات میں لیکن جب اسے تقاضے کے لئے بلایا جائے تو فوراً ہاں کر دے اور جب اسے حکم دیا جائے تو اسے فوراً پورا کرے۔ شہر والوں کے ہجرت میں آزمائش بھی زیادہ ہے اور اجر بھی زیادہ کیونکہ اپنا وطن ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر مدینہ آ کر رہے گا اور دعوت کے تقاضوں میں ہر وقت چلے گا (حوالہ حاکم)۔ اس حدیث شریف میں دیہات والوں اور شہر والوں کی الگ الگ ہجرت بیان فرمائی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کیجئے۔
جواب:
انسان کو اللہ جل شانہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان صلاحیتوں کے ذریعے اعلی چیزوں کو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور ادنی چیزوں کو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا: پہلوان کسے کہتے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جو مخالف کو گرا دے۔ فرمایا اصل پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے کو پچھاڑ دے۔ یعنی غصے کی حالت میں اپنے آپ کو کنٹرول کر لے، یہ بڑی پہلوانی ہے۔ عرفاً جو پہلوانی مشہور ہے اس سے انکار نہیں کیا گیا لیکن اس کو استعمال کر کے اس سے اعلیٰ چیز کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہاں پر بھی آپ ﷺ نے اس ہجرت سے انکار نہیں کیا جو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہوئی یا جو اللہ کے دین کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ shift کر لے، بلکہ فرمایا: اس سے اعلیٰ ہجرت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہش کو چھوڑے اور اس سے ہجرت کرے۔ غصے میں بھی نفس کی بات تھی اور یہاں بھی نفس کی بات ہے۔ اسی طریقے سے جہاد کے بارے میں بھی فرمایا کہ جہاد اکبر کی طرف نہ لوٹ رہے۔ جہاد اکبر اس لئے فرمایا کیونکہ نفس کے ساتھ ہر وقت کی لڑائی ہے۔ اصغر اس لئے کہا گیا کہ وہ اس کا ایک جز ہے اور اکبر اس لئے کہا گیا کہ وہ جامع ہے، یعنی اس میں ہر چیز شامل ہے یہاں تک کہ جہاد بھی شامل ہے۔ معلوم ہوا آپ ﷺ ذہن کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف منتقل کرواتے تھے۔ جیسے ایک صاحب نے آپ ﷺ کو بتایا تھا کہ میں جہاد کا مال بیچتا رہا اور اس سے مزید مال خریدتا رہا یہاں تک کہ میرے پاس بہت مال جمع ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص فجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک بیٹھتا ہے اور پھر وہ نماز پڑھتا ہے تو وہ اس سے زیادہ کما لیتا ہے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ وہ مال نہیں ہے، لیکن یہ فرمایا کہ اصل کمائی یہ ہے۔ ہمارے معروف ذہن میں جو چیز ہوا کرتی ہے آپ ﷺ اس سے آگے کی بات بتا دیتے تھے، جس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہوتا تھا۔ کیونکہ دنیا عارضی جگہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے ذکر کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اصل ذکر وہ ہے جو گناہوں سے روک دے۔ اب ذکر سے نفی نہیں ہوئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر سے انسان اتنی ترقی کر لے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچا لے۔ چنانچہ ہجرت کے بارے میں بھی یہی بات فرمائی گئی کہ اصل ہجرت یہ ہے کہ تم ان کاموں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو نا پسند ہوں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن