غلو فی الدین سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر 541

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ !

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حج کے موقع پر رَمی جمرات کے لئے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ آپ ﷺ کے واسطے کنکریاں جمع کر لیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے متوسط قسم کی کنکریاں جمع کیں۔ آپ ﷺ نے ان کو بہت پسند فرما کر دو دفعہ فرمایا: ایسی ہی متوسط کنکریوں سے جمرات پر رمی کرنی چاہیے۔ پھر فرمایا: غلو فی الدین سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئیں ہیں۔ اس حدیث شریف میں غلو فی الدین کا ذکر آیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے اور اس دور میں غلو فی الدین کی کیا مثالیں ہیں؟

جواب:

غلو یہ ہے کہ انسان اعتدال سے رک جائے اور افراط و تفریط میں مبتلا ہو جائے۔ مثلاً نوافل پڑھنے پہ ثواب ہے لیکن نفل کا ایک درجہ ہے اور اس سے اونچا درجہ سنت کا ہے، اس سے اونچا درجہ واجب کا ہے، اس سے اونچا درجہ فرض کا ہے۔ اگر کوئی نفل کے لئے سنت چھوڑ دے تو یہ غلو ہے۔ فرض و واجب چھوڑ دے تو یہ غلو ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہمیں ایسے غلو سے محفوظ فرمائے۔ اس لئے فقہ کا قانون ہے کہ جس مستحب امر پر واجب کا گمان ہونے لگے اس کے اوپر اتنا زور دیا جانے لگے کہ جیسے واجب ہو، تو پھر اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے بعض علاقوں میں پگڑی باندھی جاتی ہے اور پگڑی باندھنا سنت مستحبہ ہے، سنت مؤکدہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس کو واجب کا درجہ دیا ہوا ہے اور ایسی حالت ہو چکی ہے کہ مسجد میں ایک پگڑی بنی بنائی پڑی ہوتی ہے اور جس وقت امام نماز پڑھانے لگتا ہے تو اپنی ٹوپی اتار کے وہ پگڑی پہن لیتا ہے، پھر نماز پڑھاتا ہے اور وہ پگڑی میلی کچیلی ہوتی ہے۔ کیونکہ پڑی رہتی ہے دھوتے ہی نہیں ہیں۔ اب انہوں پگڑی باندھ کر نماز پڑھنے کا تو سوچا لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جمیل انداز میں کھڑا ہونا بھول گئے۔ بعض لوگ پگڑی کی وجہ سے بڑے بڑے علماء کی نا قدری کرتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بوڑھا آدمی آیا اور کہا: آپ پگڑی کیوں نہیں پہنتے؟ حالانکہ ایک غیر عالم کو عالم پر اعتراض ہی نہیں کرنا چاہیے، عالم سے سیکھنا چاہیے لیکن بہر حال غلو اسی کو کہتے ہیں۔ بہر حال انہوں نے جواب دیا: اگر میں پگڑی پہنتا ہوں تو سر میں گرمی ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو بیماری ہوتی ہے۔ حالانکہ پہلے پہنتے تھے لیکن آخر عمر میں ایسا ہو جاتا ہے۔ جیسے آخر عمر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی نہیں پہن سکتے تھے۔ ان کو بھی سر میں گرمی ہو جاتی تھی۔ اس پر اس شخص نے کہا: یہ ویسے ہی ایسی ویسی بات کر رہے ہیں آپ۔ اب حضرت نے کہا: آپ دھوتی کیوں نہیں پہنتے؟ جیسے پگڑی سنت ہے سنت مستحبہ اسی طرح دھوتی بھی سنت مستحبہ ہے۔ اس نے کہا: مجھ سے گر جاتی ہے۔ فرمایا: بس میرے سر میں بھی اس سے گرمی ہو جاتی ہے۔ یعنی جس طرح آپ کا عذر ہے اسی طرح میرا بھی عذر ہے۔ معلوم ہوا انسان کو غلو نہیں کرنا چاہیے۔ جو چیز جس level پر ہو اس level پر رکھنی چاہیے۔ مثال کے طور پر مجھے کسی شیخ کی کتاب بہت پسند ہے، اس کا ادب کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو قرآن پر بھی رکھ دوں۔ اگر میں اس طرح کروں گا تو غلو ہو گا۔ معلوم ہوا ہر چیز کی اپنی درجہ بندی یا حد ہے اور اس حد پر اس کو رکھنا چاہیے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح طریقے سے سارے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن