اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کا ایک وصف آپ ﷺ کا امی ”ان پڑھ“ ہونا ہے۔ جیسے آپ ﷺ کی دوسری صفات ہمارے لئے قابل تقلید ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ کا شفیق ہونا، آپ ﷺ کا معاف کرنا، بہادری ، سخاوت، سادگی وغیرہ۔ اسی طرح آپ ﷺ کی اس صفت، یعنی امی ہونے میں آج کل کے دور کے حالات کے لحاظ سے ہمارے لئے کیا درس ہے۔ اس سوال میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی والے دور میں بعض لوگ مختلف دینی concepts پر غور و فکر کرتے ہوئے زیادہ باریکی میں چلے جاتے ہیں، سادگی اور عملیت سے دور رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے سیرت پاک ﷺ سے کیا رہنمائی مل سکتی ہے؟
جواب:
ایک ہے آپ ﷺ کا امی ہونا، اور ایک ہے آپ ﷺ کی امت کا امی ہونا۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ آپ ﷺ کا امی ہونا ایک خاص وجہ سے ہے۔ وہ یہ کہ آپ ﷺ کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آپ ﷺ ہی سب کے استاد ہیں۔ آپ ﷺ کے استاد صرف اور صرف اللہ جل شانہٗ ہیں۔ اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے، ظاہر اور واضح کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لئے تمام پڑھنے لکھنے والے راستے بند کر دیئے تھے۔ ایسا نہیں کہ اس وقت لوگ پڑھتے لکھتے نہیں تھے، بلکہ اس وقت پڑھے ہوئے لوگ بھی موجود تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ پڑھے ہوئے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں پڑھنے لکھنے کے تمام ذرائع موجود تھے، لیکن آپ ﷺ نے ان ذرائع میں سے کسی ذرائع سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اللہ پاک نے یہ ترتیب اس لئے بنائی تاکہ کوئی یہ الزام نہ لگائے کہ کسی نے ان کو سکھایا ہے۔
آپ ﷺ ”امی محض “تھے۔ اتنے امی کہ احادیث میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پہ جب معاہدہ لکھا جا رہا تھا۔ اس معاہدہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے معاہدہ کی ابتداء میں لکھا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور کفار مکہ کے درمیان ہے۔ کفار نے اعتراض کیا کہ ”محمد“کے ساتھ ”رسول اللہ“ کیوں لکھا ہے۔ ہم یہ نہیں مانتے۔ ہمارا تو بنیادی اختلاف ہی یہی ہے کہ ہم محمد (ﷺ) کو رسول اللہ نہیں مانتے اس لئے یہ الفاظ حذف کیے جائیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ میری ہمت نہیں کہ میں ”رسول اللہ“ کے الفاظ پہ قلم پھیروں۔ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بتاؤ کہ ”رسول اللہ“ کہاں لکھا ہے۔ میں خود مٹاتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنا نام لکھنا تو دور کی بات ہے، پہلے سے لکھے ہوئے نام کو پہچان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کہاں لکھا ہے۔ اسی لئے پوچھا کہ بتاؤ کہاں لکھا ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشاندہی فرمائی۔ آپ ﷺ اپنے دست مبارک سے ان الفاظ کو مٹایا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ ﷺ اس لحاظ سے امی تھے کہ حصول علم کے ان ذرائع سے آپ ﷺ نے اس وقت کچھ نہیں سیکھا تھا، جو اس زمانے میں عام تھے۔ لیکن جب اللہ پاک نے اپنے ذرائع سے علوم عطا فرما دیئے تو پھر سب لوگ آپ ﷺ ہی سے سیکھنے لگے۔
جہاں تک امت کے امی ہونے کی بات ہے۔ اس بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا:
” نَحْنُ اُمَّةُ اُمِّیَّةٌ“ (رواه البخاری : 1814 و مسلم: 1080)
ترجمہ: ہم امی امت ہیں۔
اور پھر چاند کے حساب کے لئے ہاتھ کے اشارے سے وضاحت فرمائی۔
یہ بات اس طریقے سے فرمانے سے مقصد تھا کہ سادگی مطلوب ہے،امت سے ان پڑھ ہونا مطلوب نہیں۔ سادگی اور ان پڑھ ہونے میں فرق کرنا چاہیے۔
لہٰذا اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ ﷺ کا امی ہونا اور ہے، امتیوں کا امی ہونا اور ہے۔آپ ﷺ کے امی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے کے ذرائع تعلیم کے مطابق ان پڑھ تھے۔ جبکہ امتیوں کے امی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ سادگی اختیار کریں۔ غیر ضروری چیزوں میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ علم برائے علم نہ ہو، علم برائے عمل ہو۔ اتنا علم ضرور ہو جس سے آپ فائدہ اٹھا سکیں۔ بلاوجہ و بلا فائدہ باریک بینی نہ ہو۔ایسی باریک بینی جس کا بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہونا شروع ہو جائے۔ کج بحثی نہ ہو۔ ایک چیز کو نہ جاننا، اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرنا، پھر اس کے لئے دلائل ڈھونڈنا، اور بحث کرتے رہنا، یہ کج بحثی ہوتی ہے۔
میرا اپنا ایک واقعہ ہے کہ مجھے یہ شک ہوتا تھا کہ کپڑے پاک ہوئے یا نہیں۔ ایک بار مجھے تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جو فاضل دیوبند تھے) نے فرمایا: دیکھو بات سنو۔ ایک ہے عقل کی بات، اور ایک ہے اللہ تعالیٰ کی بات۔ ہم عقل سے کام تو ضرور لیں گے، لیکن عقل کو اللہ کی بات کے سامنے نہیں لائیں گے۔ پھر فرمایا: جب آپ نے ناپاک کپڑا تین دفعہ دھو لیا اور تیسری دفعہ خوب نچوڑ لیا۔ تو شریعت کا کہنا ہے کہ یہ پاک ہو گیا۔ لیکن اگر عقل سے پوچھیں تو عقل کہتی ہے کہ پہلی بار دھوتے ہوئے جب پاک پانی ناپاک کپڑے پر لگا، تو یہ پانی ناپاک ہو گیا، پھر یہی پانی کپڑے کے باقی حصے میں جذب ہوا تو وہ بھی ناپاک ہو گیا۔ جتنی بار اس کپڑے پہ پاک پانی ڈالیں گے تو وہ یوں ہی ناپاک ہوتا رہے گا۔ اس طرح یہ کپڑا کبھی پاک نہیں ہوگا۔ جبکہ شریعت کہتی ہے، بس تین دفعہ دھو لو پاک ہو جائے گا۔
حضرت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک اور مثال دی۔ فرمایا: ناپاک کنواں 100 ڈول پانی نکالنے پہ پاک ہو جاتا ہے۔ جب آپ 100 ڈول نکال لیں تو کنواں بھی پاک ہو گیا، رسی بھی پاک ہو گئی اور ڈول بھی پاک ہو گیا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پاک کہہ دیا۔ اس کے بعد تمہاری کیا اوقات ہے کہ تم اس میں شک کرو۔
آپ ﷺ نے جو فرمایا کہ
” نَحْنُ اُمَّةُ اُمِّیَّةٌ“
ترجمہ: ہم امی امت ہیں۔
اس سے مراد یہی ہے کہ ہم سادہ امت ہیں۔ اور سادگی سے مراد یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے وہاں عقل کا ناطقہ بند ہوجائے۔
احادیث میں ہے کہ مسجد نبوی میں ایک بدو آیا۔وہ دیہاتی آدمی تھا، ادب آداب اسے معلوم نہیں تھے۔ اس نے مسجد میں ہی ایک کونے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو غصہ آیا اور اسے روکنے کے لئے اس کی طرف بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان کو روکا۔ فرمایا اس کو ابھی مت روکو، ایک دم ڈر کر پیشاب کرنے سے رکا تو تکلیف ہو جائے گی۔ ہم آسانیاں پیدا کرنے کے لئے آئے ہیں۔جب اس نے پیشاب کر لیا تو فرمایا اس پر دو تین ڈول پانی ڈال دو۔ جگہ پاک ہو جائے گی۔
یہ واقعہ عرض کرنے سے مقصد یہ بتانا ہے کہ اس ناپاک جگہ پہ بس تین دفعہ پانی ڈالا گیا اور وہ پاک ہو گئی۔ شریعت کا کہنا یہی ہے، اور یہی سادگی ہے۔ اگر عقل کے کہے پر چلیں ، باریکیوں میں جائیں تو پھر شاید کبھی ناپاک جگہ پاک نہ ہو سکے۔
اسی طرح فیکٹریوں سے جو چیزیں تیار ہو کر آتی ہیں، اگر ان میں یقینی طور پر کوئی حرام چیز نہیں ملائی گئی تو وہ پاک ہیں۔جب تک کسی چیز کی ناپاکی کا یقین نہ ہو وہ پاک ہے۔ یہ آسانیاں ہیں۔ ان آسانیوں پر آپ تب عمل کر سکتے ہیں جب آپ اپنی عقل کو شریعت کے مطابق مینیج کر لیں۔ شریعت کے مطابق ڈھال لیں۔ block نہیں کرنا، block کرنے میں خطرہ ہے۔ بس اتنا مینیج کر لیں کہ شریعت کے آڑے نہ آئے۔ جو کام اس کو کرنے ہیں وہ کرنے دیں اور جو کام اس کو نہیں کرنے وہ نہ کرنے دیں۔ اس طریقے سے آپ کو اور سب کو فائدہ ہو گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن