فرشتوں سے مصافحہ: کیا یہ ممکن ہے؟

سوال نمبر 565

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ جب ہم آپ کی مجلس سے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں تو وہاں ہماری وہ حالت نہیں ہوتی جو آپ ﷺ کی مجلس مبارکہ میں ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ہر وقت آپ کی ویسی ہی حالت رہتی جو میری مجلس میں ہوتی ہے تو فرشتے تم لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لیلۃ القدر کے علاوہ بھی فرشتے انسانوں سے مصافحہ کرتے ہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کی کیا نشانی ہوتی ہے کہ جس سے ایک مسلمان کو پتا چل جائے کہ میرے ساتھ فرشتے نے مصافحہ کیا ہے؟

جواب:

سوال میں فرشتوں کے مصافحہ کرنے کے بارے میں جس حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں آپ ﷺ نے آخر میں یہ بات بھی فرمائی ہے کہ ”یہ تو گاہے گاہے ہوتا ہے“۔ یعنی فرشتوں کا مصافحہ کرنا مستقل طور پر نہیں ہوتا، بلکہ کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسی حالت کے نہ رہنے میں اللہ پاک کی کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان بہت سارا نور اور بہت ساری روحانیت برداشت نہیں کر سکتا۔ مثلاً انسان سورج کو عین نصف النہار کے وقت، جب وہ پوری آب و تاب میں ہوتا ہے، نہیں دیکھ سکتا۔ اس وقت سورج کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی آنکھ کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ ہاں طلوع یا غروب کے وقت تھوڑی دیر کے لئے دیکھ سکتا ہے۔ جس طرح انسان کے لئے زیادہ روشنی بھی برداشت کے قابل نہیں ہوتی، اسی طرح انسان اپنی طاقت سے زیادہ روحانیت بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر وقت روحانیت کی انتہا پہ ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم لوگ کتنا برداشت کر سکتے ہیں، وہ ہمیں ہماری قوت برداشت سے زیادہ نہیں دیتا۔ یہ اللہ پاک کے انتظام ہیں ان میں ہمیں دخل نہیں دینا چاہیے۔

مثلاً آپ کسی اچھی محفل میں جائیں تو اس سے آپ کو جو فائدہ ہوتا ہے وہ دوسرے اوقات میں آپ کے کام آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ فائدہ جو آپ کو وہاں جانے سے ملا وہ اس محفل کے علاوہ باقی اوقات تک پھیل گیا، پھر جب اس مجلس میں گئے زیادہ عرصہ ہو جاتا ہے تو اس کا اثر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے ملا ہوا فائدہ خرچ ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر آپ دوبارہ اس مجلس میں جاتے ہیں اور کچھ فائدہ سٹور کرتے ہیں اور بعد میں کام میں لاتے ہیں۔ روحانیت اور فرشتوں سے مصافحہ کرنے کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ کسی وقت انسان پر ایسی روحانیت کا حال آتا ہے کہ فرشتے اس سے مصافحہ کرنے لگ جاتے ہیں، پھر دوسرے اوقات میں وہ حال نہیں رہتا، لیکن ان اوقات میں اُس روحانیت اور فرشتوں سے مصافحہ کا اثر موجود ہوتا ہے اور وہ انسان کے کام آتا ہے۔

انسان کے حواس ایسے بنائے گئے ہیں کہ ان میں اثرات اور یاد داشتیں محفوظ ہو جاتی ہیں، جن سے بعد میں کام لیا جا سکتا ہے۔ جب آدمی کسی اچھے اثرات والی جگہ پہ موجود ہوتا ہے تو وہاں سے اچھے اثر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ بعد میں دوسری چیزوں کی وجہ سے وہ اثرات کم ہو جاتے ہیں تو پھر دوبارہ پہلی جگہ پہ جانا پڑتا ہے تاکہ وہی اثرات دوبارہ مل جائیں۔

حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب میں میوات گشت کے لئے جاتا ہوں تو باوجود اس کے کہ میں اپنے ساتھ صلحاء کی جماعت کو لے جاتا ہوں، لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے میرے قلب پہ اثر ہو جاتا ہے۔ اس اثر کو ختم کرنے کے لئے میں سہارنپور شریف یا رائپور شریف کی خانقاہ میں جاتا ہوں۔ اگر یہاں نہ جا سکوں تو مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔

حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے شیخ تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ ان لوگوں کے ساتھ ملتے جلتے تھے جو دنیا میں پھنسے ہوئے ہوتے تھے، تو ان لوگوں کا اثر حضرت کے قلب پہ آ جاتا تھا، اس اثر کو مٹانے کے لئے وہ ایسے ماحولوں میں جاتے تھے جہاں ذکر کے اثرات زیادہ ہوتے تھے، تاکہ دل دوبارہ اپنی اصلی حالت پہ آ جائے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی چونکہ سارا فیض نبی ﷺ سے ملتا تھا۔ اس لئے جب وہ آپ ﷺ کے پاس ہوتے، تب بہت روحانیت ہوتی تھی، اس روحانیت سے ان کے دل منور ہو جاتے تھے، لیکن جب اس مجلس سے باہر جاتے تھے تو باہر کے ماحول میں ویسی روحانیت نہیں ہوتی تھی۔

جب آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابھی ہم نے آپ ﷺ کی قبر اطہر کی مٹی سے ہاتھ جھاڑے ہی تھے کہ ہمیں اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس ہونا شروع ہو گئی۔

اس سے معلوام ہوا کہ یہ اللہ پاک کا بنایا ہوا نظام ہے۔ روحانیت کا اپنا ایک منفرد اثر ہوتا ہے۔ اس کی مثال روشنی کی سی ہے۔ جبکہ نفسانیت کی مثال اندھیرے کی سی ہے۔ زیادہ اندھیرا روشنی کو کم کرتا ہے جبکہ زیادہ روشنی اندھیرے کو کم کر تی ہے۔ جب آدمی روحانیت والی جگہ پہ جاتا ہے تو اس کو روحانیت ملتی ہے۔ اس روحانیت کے ذریعہ وہ نیک اعمال کی طرف راغب ہوتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف اگر آدمی ایسے علاقوں میں جائے جہاں روحانیت کی جگہ نفسانیت ہو جیسے بازار وغیرہ، تو وہاں روحانیت کم ہوتی ہے۔ جسے واپس حاصل کرنے کے لئے دوبارہ مساجد میں جانا ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ سب سے اچھی جگہ مسجدیں ہیں اور سب سے بری جگہ بازار ہیں۔ جب آدمی دوبارہ روحانیت والی جگہ پہ چلا جاتا ہے یا کسی روحانی شخصیت کے پاس چلا جاتا ہے تو اس کی روحانیت واپس آ جاتی ہے۔ جیسے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ خانقاہوں میں جاتے تھے۔

ہمارے ہاں بھی ایسا نظام ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے انعکاسی فیض کی وجہ سے جو روحانیت ملتی ہے اس پہ مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ القائی فیض لینا چاہیے۔ القائی فیض خود اپنے کیے ہوئے اعمال کے ذریعہ سے ملتا ہے، جبکہ انعکاسی فیض دوسروں کے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور القائی فیض تب ملتا ہے جب آدمی خود ذکر کرتا ہے اور اسے روحانیت ملتی ہے۔

آپ ﷺ کے زمانہ مبارک میں انعکاسی فیض اتنا زیادہ تھا کہ القائی فیض کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا صحابہ کرام کو آپ ﷺ کی مجلس کے علاوہ مزید کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن تابعین کے دور میں انعکاسی فیض صحابہ کے دور کی نسبت کم ہو گیا، اس لئے انہیں روحانیت کی مقدار پوری رکھنے کے لئے خود محنت کرنی پڑتی تھی۔

روحانیت اور نفسانیت کے اس سارے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ آدمی اپنا وقت ضائع کرتا رہتا ہے اور نقصان اٹھاتا رہتا ہے۔ روحانیت کے حصول کی جگہیں اور شخصیات موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ان کی ناقدری کی وجہ سے محروم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن