تصاویر اور رحمت کے فرشتے: گھروں میں تصاویر کی موجودگی کا حکم

سوال نمبر 564

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ”جس گھر میں تصویر ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے“۔

آج کل ہر چیز میں تصویر شامل ہوتی ہے۔ دوائیوں کے ڈبے پر تصویر، بچوں کی کتابوں میں تصاویر، بچوں کے کپڑوں، سویٹر، سکول بیگ غرض زیادہ تر چیزیں ایسی ہیں جن پر تصاویر ہوتی ہیں۔ نیز وہ سب چیزیں روز مرہ کے ضروری استعمال کے لئے ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں تصویروں سے کیسے بچا جائے؟

بعض اوقات گھر کے باہر کچھ لوگ اشتہارات لگاتے ہیں۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے بینرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان پر سیاسی امیدواروں کی تصاویر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں سے باہر ہر جگہ پر تصاویر کی ایک بہتات ہوتی ہے۔ کیا یہ تصویریں بھی از روئے حدیث رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا سبب ہوتی ہیں؟ تصویر کی اس وباء سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

اس سوال کے جواب میں چند نکات عرض ہیں۔

آنحضرت ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو آخری زمانہ میں مبعوث فرمایا گیا جو قیامت کے بہت قریب ہے۔ حضور ﷺ نے شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی کو ملا کر فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح قریب ہیں جیسے یہ دو انگلیاں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد زمانہ اپنے اخیر کی طرف جا رہا ہے۔ اور دنیا قیامت کے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نیز یہ فرمایا گیا کہ قیامت تب آئے گی جب دنیا میں کوئی ایمان والا باقی نہیں ہوگا۔ اس لئے چیزیں آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی طرف جا رہی ہیں۔ برائی کی قوتیں اپنے کام میں لگی ہیں اور اچھائی کی قوتیں اپنا فرض ادا کر رہی ہیں۔ مگر چونکہ منشائے خداوندی یہی ہے کہ آخر کار قیامت برپا ہو۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ معاملات بتدریج بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ تصاویر کا ہر جگہ اور ہر موقع پر عام ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حدیث مبارکہ میں تصویر کا جو اثر بتایا گیا ہے بلاشبہ وہ سو فیصد حق اور سچ ہے کہ جس جگہ جاندار کی تصویر ہوگی وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آئیں گے، خواہ وہ گھر ہو، بازار ہو، دیوار ہو، دفتر ہو، مسجد ہو، کتاب ہو، کوئی بھی چیز کیوں نہ ہو۔ جہاں تصویر ہو گی وہاں رحمت کے فرشتے نہیں ہوں گے اور جہاں رحمت کے فرشتے نہیں ہوں گے وہاں شیطان ہوں گے۔ اور جہاں شیطان ہوں گے وہاں خیر اور رحمت کی بجائے شر ہو گا۔ آج کل آپ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ماحول میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ان تصاویر کا عام ہونا بھی ہے۔ آس پاس کے ماحول کا خراب ہونا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ تصاویر کا اثر ہوتا ہے۔

اب یہ سوال آتا ہے کہ ان حالات میں تصاویر کے شر سے کیسے بچا جائے۔ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ انسان اس چیز کا مکلف ہوتا ہے جو اس کے اختیار میں ہو، اور اس حد تک مکلف ہوتا ہے جس حد تک اس کا اختیار ہو۔ تصاویر کے معاملہ میں بھی یہی ضابطہ چلے گا کہ آدمی حتی المقدور تصاویر سے بچے۔اگر وہ اپنی طاقت کے بقدر تصاویر سے بچتا ہے تو اللہ پاک اسے تصاویر کے شر سے بھی محفوظ رکھیں گے۔ عملی طور پر تصاویر اور ان کے شر سے بچنے کے لئے درج ذیل ہدایات پر عمل کیا جائے تو تصاویر اور ان کے شر سے بآسانی بچا جا سکتا ہے۔

اپنے گھر کے بارے میں آپ کو مکمل اختیار ہے۔ اس لئے اپنے اختیار کو استعمال کریں اور اپنے گھر میں تصویروں کو نہ آنے دیں۔

اگر بچوں کے کپڑوں پر تصویریں ہوتی ہیں، تو ایسے کپڑے لیں جن پر تصویریں نہ ہوں۔ اگر ایسے کپڑے بازار سے نہ ملیں، تو ان سلے کپڑے لے کر سلوا لیں۔ ضروری نہیں ہے کہ بازار سے سلے سلائے کپڑے ہی لیے جائیں۔ تصاویر سے پاک کپڑے گھر میں خود بھی سئیے جا سکتے ہیں، درزیوں اور درزنوں سے بھی سلوائے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی ناممکن اور مشکل بات نہیں ہے۔

جہاں تک کتابوں میں تصاویر کا تعلق ہے۔ تو اس میں تفصیل ہے، بند کتاب کا حکم اور ہوگا، کھلی کتاب کا حکم اور ہوگا۔ جب تک کتاب بند ہے، تو اس کے اندر موجود تصویر سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں جب کتاب کھلی ہے، اس میں چھپی ہوئی تصویر سامنے ہے، تو جب تک وہ سامنے ہے تب تک رحمت کے فرشتے وہاں نہیں ہوں گے۔ اس میں یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ جب بچے پڑھائی کر رہے ہوں تو ان کو کسی ایک کمرے میں بٹھا دیا جائے اور اس کا دروازہ بند رکھا جائے۔ اس طرح ان تصاویر کا اثر کمرے سے باہر نہیں آئے گا۔

پڑھائی کی کتابوں میں جانداروں کی تصاویر کا استعمال ایک اجتماعی مسئلہ ہے، ہمیں چاہئے اسکولوں کا نظام ایسا بنائیں جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جاندار کی تصاویر استعمال نہ ہوں۔ لیکن جب تک ایسا نظام نہیں بنتا تب تک انفرادی طور پر اس شر سے بچنے کے لئے یہ طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں جو عرض کر دیئے ہیں۔

گھر کی دیواروں وغیرہ پر تو آپ کا مکمل اختیار ہوتا ہے، وہاں اس اختیار کو استعمال کریں اور جانداروں کی تصاویر کو گھر میں پھٹکنے بھی مت دیں۔

گھر میں ٹی وی نہ رکھیں۔

تصاویر کے عام ہونے کا ایک بڑا سبب موبائل بھی ہے۔ لیکن وہ بھی آپ کے اختیار میں ہے اگر آپ تصاویر سے بچنا چاہتے ہیں تو اس میں تصویریں نہ رکھیں۔ اور اگر آپ نہیں بچ پا رہے تو پھر اس کا حل یہ ہے کہ سادہ موبائل استعمال کرنا شروع کر دیں۔

ایسے اخبار و رسائل گھر میں نہ لائیں جن میں تصاویر ہوں۔

جن چیزوں پر تصاویر کے ہونے یا نہ ہونے پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے، جیسے کرنسی نوٹس، پاسپورٹ شناختی کارڈ وغیرہ۔ ایسی چیزوں کو حتی الامکان چھپا کے رکھیں، جیب میں ، پرس یا کسی بھی ایسے طریقے سے رکھیں کہ تصاویر نظر نہ آئیں۔

اگر ان طریقوں کو کام میں لایا جائے تو ان شاء اللہ تصاویر کی نحوست سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ یہ طریقے اسی کے لئے ہیں جو خود بچنا چاہتا ہے، جو خود نہ بچنا چاہے، اس کے کام کوئی طریقہ نہیں آ سکتا۔

عموماً سوال پوچھنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے لوگوں کا مقصد سوال پوچھنے سے یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا طریقہ معلوم ہو جائے کہ اس پہ عمل کریں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میں کروں گا تو وہی جو مجھے پسند ہے اور جو میں پہلے سے کر رہا ہوں۔ بس کوئی ایسا طریقہ معلوم ہو جائے جس سے یہ کام جائز ہوجائے۔ تو یہ طریقے جو ہم نے بتائے ہیں، پہلی قسم کے لوگوں کے لئے ہیں، جو عمل کرنا چاہتے ہیں اور عملی حل چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم مفتی نہیں ہیں، ہمارا تعلق اصلاح کی لائن سے ہے، اور اس میں عملی طریقہ کار ہی بتایا جا سکتا ہے، کہ آپ اپنی ہمت اور طاقت کے بقدر یہ سب کام کریں۔

باقی ہر طبقے کے لوگوں کو اجتماعی طور پر یہ معاملہ اٹھانا چاہیے کہ اپنے اپنے طبقے اور حلقے میں تصاویر کا سلسلہ کم سے کم کرنا شروع کیا جائے اور آہستہ آہستہ اسے مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

چند علماء حضرات تصاویر کے استعمال کی کچھ صورتوں کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن ایک تو یہ کہ وہ علماء معدودے چند ہی ہیں، اور اب ان میں سے بھی کئی حضرات کا کہنا ہے کہ لوگوں نے ہمارے فتوی کو غلط رنگ دے کر غلط استعمال شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی علماء نے رجوع بھی کر لیا ہے۔ جبکہ اکثریت اور جمہور کا فتویٰ یہی ہے کہ جاندار کی تصویر کسی صورت جائز نہیں ہے۔ ہم ان علماء کو غلط تو نہیں کہتے، کیونکہ ہم مفتی نہیں ہیں، لیکن ”اپنے آپ کو بچاؤ“کے نعرے پر عمل کرتے ہیں۔

اگر ایک عالم اجتہادی طور پر کوئی ایسا کام کر رہا ہے جس سے عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ تو ہم یہی کہیں گے کہ اس کا اجتہاد اپنی جگہ پر ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے لئے نقصان سے بچنا ضروری ہے، اس لئے ہم اس طریقہ پر عمل کریں گے جس میں ہمارا مکمل بچاؤ ہوتا ہو۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن