جدید دور میں ایمان کی حفاظت: نئی چیزوں سے دوری یا جدید طریقوں کو سیکھنا؟

سوال نمبر 563

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آج کل چونکہ ہر شعبہ میں تغیر اور تبدیلی بڑی تیزی سے آ رہی ہے، اس لئے کچھ مشائخ اور علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایمان کی حفاظت اس میں ہے کہ نئی چیزوں سے دور رہو، کیونکہ سادگی اور سنت کے راستے میں سلامتی اور نورِ نبوت کا فیض چھپا ہوا ہے اور جدت پسندی کے پردوں میں گمراہی، معصیتیں اور ظلمتیں چھپیں ہیں جن میں بظاہر امتیاز کرنا مشکل ہے۔ جیسا کہ حدیث کا مفہوم کم و بیش کچھ اس طرح ہے کہ کچھ چیزیں واضح حلال ہیں اور کچھ واضح حرام ہیں اور کچھ مشتبہات ہیں۔ جس نے مشتبہات سے اپنے آپ کو بچایا اس نے اپنے ایمان کی حفاظت کی۔ دوسری طرف اگر ہم آج کل کے جدید طریقوں کو نہ سیکھیں تو ہمارے دشمن ان طریقوں سے ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ہمارے لئے ان دو رائے میں سے کونسی رائے پر عمل کرنا سیرت طیبہ کے قریب تر ہے؟

جواب:

ایک بات ہے جاننے کی اور ایک بات ہے ماننے کی۔ پس جو لوگ جاننے والے ہیں، ان چیزوں کو جان سکتے ہیں، سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں وہ مسلسل جاننے کی کوشش کریں کہ کیا نئی چیزیں آ رہی ہیں، کیسی ہیں اچھی ہیں یا بری ہیں۔ ان میں کیا کیا اچھائی اور کیا کیا برائی ہے۔

رہے وہ لوگ جن میں اتنی استطاعت اور سمجھ نہیں ہے کہ وہ ہر نئی بات کو جان سکیں اور اس کے فوائد و نقصان سمجھ سکیں ایسے لوگ پہلی قسم کے لوگوں کی بات مانیں۔ جدید اشیاء اور ان کے استعمال کے سلسلے میں وہ جو ہدایات دیں ان کے مطابق عمل کریں۔ کیونکہ ہر ایک میں ایسی باتیں سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اگر ہر آدمی ہر بات جاننے کی کوشش کرے گا تو نقصان ہو گا۔ مثلاً ایک ملحد کی کتاب عام آدمی پڑھے گا تو خطرہ ہے کہ کہیں خود ہی ملحد نہ ہو جائے۔ ایک عالم پڑھے گا تو اس کے الحاد کو سمجھ کر دوسروں کو اس سے بچائے گا۔ لہٰذا عالم کو پڑھنا چاہیے اور عام آدمی کو نہیں پڑھنا چاہیے۔ خصوصاً تب، جب عالم کہہ دے کہ اس کو نہ پڑھو، تو پھر عام آدمی کو ایسی چیز نہیں پڑھنی چاہیے۔ عام آدمی کے لئے یہی طریقہ سب سے بہتر ہے۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آج کل یہ بڑی مصیبت ہے کہ خود جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں ان کی مانتے نہیں۔ واقعی اس وقت المیہ یہ ہے کہ جو سب سے بڑا جاہل ہے وہ سب سے بڑا عالم بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اس کا کیاجائے، وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ ایسا آدمی سب سے زیادہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ اگر وہ دین کی کسی بات کو مکمل طور پر نہ جانتا ہو، وہ بات درست ہو مگر یہ اسے غلط سمجھتا ہو اور اپنے آپ کو عالم بھی سمجھتا ہو، تو پھر یہ اس غلط بات پر دوسروں کو بھی قائل کرنا شروع کر دے گا، پہلے اس کا شر صرف اس تک محدود تھا، مگر اب سب کو نقصان پہنچائے گا اور دوسروں کا وبال بھی اپنے سر لے گا۔ اسے پڑھی لکھی جہالت کہتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ پڑھی لکھی جہالت بہت زیادہ ہے۔ جانتے کچھ بھی نہیں ہوتے لیکن show یہ کرتے ہیں جیسے سب سے زیادہ جانتے ہیں۔

لہٰذا جو جان سکتے ہیں وہ اپنی حفاظت کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کریں۔ اور پھر دوسرے لوگوں کو بتائیں۔ اور جو جانتے نہیں وہ مانتے رہیں۔

جب ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تو لوگ کہتے کہ ہم خبروں کے لئے رکھتے ہیں یا بچوں کے لئے لیتے ہیں، لیکن پھر خبروں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بھی دیکھنے لگ جاتے اور ٹیلی ویژن جن برائیوں کا ذریعہ بن سکتا ہے ان سب میں مبتلا بھی ہو جاتے۔ اس کے بعد وی سی آر آیا جس نے اس چیز کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا۔ پھر DVD آ گئی۔ اس کے بعد سب سے بڑی مصیبت موبائل آ گیا۔ موبائل نے پہلے تمام آلات کے مفاسد کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اندر فوائد بھی ہیں، لیکن وہ فوائد بہت ہی کم role play کر رہے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس میں بری چیزیں زیادہ ہیں، فوائد کے مقابلے میں مفاسد زیادہ ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ انسان کی جبلت ایسی ہے کہ بری چیزوں کی طرف زیادہ کھنچتا ہے۔ اگر 100 اچھی چیزیں ہوں اور ایک بری ہو تو 100 کی طرف لوگ بہت کم متوجہ ہوں گے، اس ایک بری چیز کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے۔

ایک بہت بڑا عالم جا رہا ہو تو اس کو دیکھنے والے لوگ کم ہو ں گے۔ لیکن اگر ایک بے پردہ لڑکی جا رہی ہو تو اس کی طرف دیکھنے والے لوگ زیادہ ہوں گے۔ بلکہ 100 علماء جا رہے ہوں ان کی طرف لوگ نہیں دیکھ رہے ہوں گے بلکہ اس ایک لڑکی کی طرف سب دیکھ رہے ہوں گے۔

چونکہ یہ موبائل ایسی چیز ہے کہ جس میں مفاسد، فوائد کی نسبت زیادہ ہیں، اور چونکہ انسانی طبیعت بھی بری چیز کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے، اس وجہ سے جب سے موبائل آیا ہے، پچھلی ایجادات کے تمام مفاسد پہلے سے کئی گنا بڑ گئے ہیں۔

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ علماء بھی اس سے محفوظ نہیں خصوصاً آج کل کے نوجوان علماء اس کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ اپنی طرف سے ان کی نیت اسے صحیح استعمال کرنے کی ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ غلط استعمال کر رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ کوئی ایسا طریقہ بنا لیں گے جس سے سب بچ جائیں گے۔ کیونکہ قیامت نے تو آنا ہے، اور وہ تب آئے گی جب سبھی کافر ہوں گے، زمین پر ایک بھی ایمان والا نہیں رہے گا۔ اب سارے اسباب اسی طرف جا رہے ہیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ قیامت اپنے وقت پہ آئے گی اس کے لئے حالات سارے بنیں گے۔ لوگ محنتیں کر کے خود ولی اللہ بن جائیں گے۔ لیکن حالات ویسے ہی ہوں گے۔

مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں محنت کر کے ولی اللہ بن گئے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں محنت کر کے ولی اللہ بن گئے۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں محنت کر کے ولی اللہ بن گئے۔ مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں محنت کر کے ولی اللہ بن گئے۔ اب باقی لوگوں نے ان سے کتنا اثر لیا اور کتنا فائدہ اٹھایا یہ تو قسمت کی بات ہے لیکن وہ خود تو ولی اللہ بن ہی گئے۔ لہٰذا جو لوگ ان مشکل حالات میں محنت کرتے ہیں، وہ بچ جائیں گے ان کو فائدہ بھی ہو گا۔ لیکن کتنے لوگ ان سے متاثر ہوں گے یہ ہر ایک کا اپنا اپنا نصیب ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ خاندان والے بہت کم متاثر ہوتے ہیں، دور کے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اس وقت شر غالب ہو رہا ہے، بتدریج بڑھ رہا ہے، اور یہ بڑھتا جائے گا۔ اس کے بعد خیر کا ایک پورا زمانہ آئے گا۔ امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ۔ ان کے ساتھ جو لوگ ہوں گے وہ ماشاء اللہ بہت خوش نصیب ہوں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام حکومت کریں گے۔ اس کے بعد جو حالات خراب ہوں گے وہ پھر کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ پھر شر بڑھتا ہی جائے گا حتی کہ قیامت آ جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے اور یہ تبدیلی شر کی طرف جا رہی ہے۔ اس کے اندر خیر کی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن شر غالب ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو بچاؤ۔ یہ سب سے بڑی بات ہے۔ روایات میں فرمایا گیا ہے کہ ایسا زمانہ آئے تو گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ یعنی گھروں کے اندر دبک جاؤ۔ ملنا جلنا ہی چھوڑ دو کیونکہ ملنے جلنے میں خیر نہیں ہو گی شر ہو گا۔

ہمارے ایک دوست ہیں میجر صاحب۔ ایک دفعہ میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا اچھا ہوا آپ صحیح وقت پہ آئے ہیں میری بیٹی کی شادی ہے۔ اس میں سب بڑے بڑے لوگ آئیں گے۔ آپ بھی دین کی دعوت کی نیت سے تشریف لے آئیں۔ میں باراتوں میں شریک نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے جب یہ کہا کہ لوگ آئیں گے آپ ان سے ذرا دین کی دعوت کی بات کرلیجیے گا۔ تو میں تیار ہو گیا۔ اور شادی کی تقریب میں چلا گیا جو ایک شادی ہال میں تھی۔ اوہو! اتنا تکبر، اتنا تناؤ۔ وہ صورت حال اور احساسات بیان سے باہر ہے۔ بس پھر میں نے سوچا کہ دین کی دعوت بعد کا کام ہے پہلے میں اپنے آپ کو بچاؤں۔ میں ساری تقریب کے دوران بس لَاحَوْلَ وَ لَا قُوۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھتا رہا۔ اور خیال میرا یہی تھا کہ یہ تو اثر نہیں لیں گے تم بس اپنے آپ کو بچاؤ۔اس وقت تمہارا سب سے اہم کام یہی ہے۔

اس وقت بہت عجیب و غریب حالات ہیں۔ ایک کرنل صاحب ہمارے رشتہ دار تھے۔ جب میں ان کے سامنے کوئی دین کی بات شروع کرتا وہ کہتے اپنا tape بند کرو، مجھے کوئی بات نہیں سننی۔ جو سننا ہی نہیں چاہتا آدمی اس کے ساتھ کیا بات کر سکتا ہے۔ ان کو کوئی بھی نصیحت کرتا وہ فوراً کہتے بھئی یہ میرا مسئلہ ہے تم چپ رہو۔ ایسی حالت میں انسان کسی کو کیا کہے جب وہ ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہو۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگ جب پریشان ہو جاتے ہیں پھر آپ کے پاس ہی آئیں گے۔ تکلیف میں آپ کے پاس ہی آئیں گے کہ ہمارے لئے دعا کر دیں۔ اس وقت ان کو اللہ رسول اور ان کا دین یاد آئے گا لیکن جب ٹھیک ہو جائیں گے پھر پہلے کی طرح ہو جائیں گے۔ اس لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ نئی چیزیں ان تک محدود رکھو جو انہیں صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں اور صحیح طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر چیز کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کبھی کبھی کرنٹ بھی لگ جاتا ہے۔ ہم سب کو اپنے دین کی زیادہ حفاظت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن