حضرت عائشہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان ایک خاص کیفیت کا بیان

سوال نمبر 562

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ایک واقعہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم کون؟ انھوں نے عرض کیا: میں عائشہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کون عائشہ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :ابوبکر کی بیٹی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کون ابوبکر؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :ابو قحافہ کے بیٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کون ابو قحافہ؟ بعد میں حدیث کے الفاظ ہیں کہ اللہ اور میرے درمیان کوئی وقت ہوتا ہے جب تمام پردے ہٹ جاتے ہیں۔اس واقعہ میں جس کیفیت کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے کیا یہ کیفیت امتیوں کو بھی مل سکتی ہے؟

جواب:

آپ ﷺ کا مقام بہت اونچا تھا اور آپ ﷺ پر حال بہت کم طاری ہوتا تھا۔ آپ ﷺ ابوالحال تھے۔ جبکہ امتی کمزور ہوتا ہے اتنا کمزور کہ اگر و تھوڑی سی روحانیت بھی آ جائے تو ممکن ہے ہوش نہ رہے تو ایسی مدہوشی کی حالت امت کے اوپر تو آ سکتی ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور زمانۂ قریب میں حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے استاذ تھے) کے اس قسم کے واقعات موجود ہیں، اور دور حاضر میں بھی ہوں گے لیکن ہمیں علم نہیں ہو گا یا ہمارے پاس کا کوئی ریفرنس نہیں ہو گا، اس لئے ہم ایسی کسی بات کو نقل نہیں کر سکتے لیکن جن چیزوں کے ریفرنسز موجود ہیں، جو کتابوں میں لکھی گئی ہیں ان کے بارے میں تو ہم بات کر سکتے ہیں۔

ایسے واقعات کی تعداد امت میں بہت زیادہ ہے کیونکہ امتی کمزور ہوتے ہیں، اتنی روحانیت برداشت نہیں کر سکتے جب کہ نبی کی روحانی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے اور امام الانبیاء ﷺ کی طاقت تمام نبیوں سے زیادہ ہے۔ آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ (الحشر:21) کہ اگر یہ قرآن ہم کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ خشیت سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ یہ تو آپ ﷺ کا دل ہے کہ جس نے اس قرآن کو اٹھایا ہوا ہے۔ ایک دفعہ وحی نازل ہو رہی تھی آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک ایک صحابی کی ران پہ رکھا ہوا تھا۔ وہ صحابی فرماتے ہیں کہ جس وقت وحی نازل ہو رہی تھی میری ران پہ اتنا وزن پڑ رہا تھا کہ مجھے لگا کہ میری ران ٹوٹ جائے گی۔

ان واقعات سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ پر عموماً ایسے حالات طاری نہیں ہوتے تھے، اور ایسے حالات میں بھی آپ ﷺ کی برداشت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ مکمل ہوش و حواس میں رہتے۔ جس واقعہ کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے، وہ کوئی بہت ہی خاص واقعہ ہے کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور اس وقت اتنی یکسوئی ہوتی ہے کہ باقی چیزوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔

آپ نے خود اس بات کا مشاہدہ عام لوگوں میں بھی عموماً کیا ہوگا کہ ایک آدمی کسی دنیا کے کام میں ڈوبا ہوا ہے، اور اس کی محویت اتنی زیادہ ہے کہ آپ اس سے بات کر رہے ہیں، اور شاید وہ جواب بھی دے دے لیکن بعد میں کہے گا کہ مجھے تو پتا ہی نہیں کہ ایسی کوئی بات ہوئی تھی، اسے کچھ پتا نہیں ہو گا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک لڑکا بتا رہا تھا کہ ڈاکٹروں نے مجھے دوائی دی تو پندرہ دن تک مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں کیا کرتا رہا، وہ مجھے کھانا بھی دیتے رہے، میں سویا جاگا رہا، لیکن ان پندرہ دنوں میں کیا کچھ ہوا، مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔

یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عام لوگ بھی اس قسم کے حالات سے گزرتے ہیں لیکن وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ عورتوں میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مٹر چھیلتے ہوئے چھلکے جمع کر رہی ہوتی ہیں اور دانے گرا رہی ہوتی ہیں، باتیں کرتے ہوئے دھیان نہیں رہتا۔

ایک دفعہ میرے بھائی کے ہاتھ میں سویٹر تھا، باتیں کرتے کرتے بے خیالی میں اس کا دھاگا کھینچنا شروع کیا اور سارا سویٹر ادھیڑ دیا، اسے پتا بھی نہیں چلا کہ میں نے سویٹر کھول دیا ہے۔

یہ چیزیں عام لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہیں لیکن reasons مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کے ساتھ دنیا کی وجہ سے ہوتی ہیں کسی کے ساتھ روحانیت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور کسی کے ساتھ بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جیسے نفسیاتی بیمار یا ں پاگل لوگوں کو اپنے اردگرد کی خبر نہیں ہوتی۔ تو ایسا کسی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

البتہ آپ ﷺ کے لئے جو ہوا تھا وہ ایک بہت ہی عالی شان حال تھا، جس کے بارے میں آپ ﷺ نے خود فرمایا کہ میرے لئے بعض دفعہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ تمام پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ ایک بہت ہی عالیشان وقت تھا۔ اس کی مثال آپ یو ںسمجھ لیں کہ اگر یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے عرش کے حالات نظر آنے لگیں تو کیا آپ لوگ نظر آئیں گے؟ ظاہر ہے پھر مجھے آپ لوگ نظر نہیں آئیں گے۔ میں بیٹھا تو اِدھر ہوں گا لیکن مجھے یہاں کی کسی چیز کا احساس نہیں ہو گا۔ اسی طرح مختلف احوال ہوتے ہیں۔ بزرگوں کے اس قسم کے بہت سارے واقعات مستند راویوں کے ذریعے سے منقول ہیں، ہم ان کا انکار نہیں کرتے، البتہ اگر ہمیں آپ ﷺ کے بارے میں کوئی بات کرنی ہو تو اس کو انتہائی مستند طریقے سے بیان کرنا چاہیے، سند کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی ہر بات امت کے لئے ایک پیغام ہے، ایک message ہے، ایک حکم ہے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ سے متعلق کوئی چیز اپنی طرف generate نہیں کرنا چاہیے، بغیر تحقیق کے نہیں لینا چاہیے۔ بالخصوص جب کوئی بیان کرنا چاہتا ہے تو اچھی طرح تحقیق کر کے انتہائی مستند روایت کو بیان کرنا چاہیے۔ اس تحقیق کی وجہ یہ نہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا بلکہ یہ اس لئے کہ آپ ﷺ کا مقام ایسا ہے کہ آپ ﷺ کی ہر بات کو امت کے لئے رہنما بنایا جاتا ہے۔ اس وجہ ہمیں بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن