اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
صلوٰۃ و سلام کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن پاک میں بڑے پیارے انداز میں حکم موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا“ (الاحزاب: 56)۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ درود شریف کا اہتمام کرتے ہیں لیکن سلام کا اس طرح اہتمام نہیں کرتے جب کہ اس کا کثرت سے حکم ہے۔ کیا صرف درود شریف پڑھنے سے یہ حکم پورا ہو جائے گا یا نہیں اور اگر نہیں تو سلام کو کن الفاظ میں پیش کرنا چاہیے کیونکہ سلام کے الفاظ میں کافی افراط و تفریط ہے بعض لوگ حاضر کا تصور کر کے سلام پڑھتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کثرت والا حکم کیسے پورا ہو گا۔ راہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! اصل میں درود کی بات یہ ہے کہ اس میں سلام کے الفاظ بھی شامل ہیں اور درود پاک کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ جیسے ہم ”بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْل اللّٰہ“ پڑھتے ہیں، ہماری چہل حدیث شریف میں سب سے مختصر درود و سلام یہی ہے۔
ویسے تو ہم یہ جو التحیات پڑھتے ہیں یہ دراصل سلام ہے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ ﷺ سے صحابہ کرام نے سوال کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ سلام کا تو ہمیں پتا چل گیا ہے یہ بتائیے کہ درود کیسے پڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے صحابہ کرام کو سلام کا پہلے سے پتا تھا، اس لئے پوچھا کہ بتائیے درود کیسے پڑھیں۔ آپ ﷺ نے طریقہ بتا دیا کہ اس طرح پڑھنا چاہیے۔
تو یہ التحیات جو ہم تشہد میں پڑھتے ہیں۔ ”اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ“۔ یہ گویا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کرتے ہیں۔ درود شریف میں بھی ہم اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! نبی ﷺ پر رحمت نازل فرمائیے۔ یہ کام چونکہ ہم خود نہیں کر سکتے اس لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم سلام بھی اللہ کی طرف سے بھجواتے ہیں۔
سوال یہ تھا کہ ہم درود تو بھیجتے ہیں سلام کیسے بھیجیں۔ تو ہم سلام بھیجنے کے لئے التحیات والے کلمات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ”اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ“۔ اور اگر کوئی مختصر الفاظ میں درود و سلام بھیجنا چاہے تو یہ پڑھ سکتے ہیں۔ ”بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ“۔ اس میں درود اور سلام دونوں آجاتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں تو ترتیب بھی یہی ہے، شاید ہمارے ساتھیوں کو خیال نہ ہو، ورنہ ہمارے ہاں تو پہلے سے یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ پہلے درود پڑھنا ہے پھر اس کے بعد ”بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ“ پڑھنا ہے۔ تو ہماری ترتیب میں تو الحمد للہ صلوۃ و سلام دونوں آ جاتے ہیں۔
نماز میں تشہد اور درود شریف پڑھنا تو نماز کی ایک ضرورت ہے کہ اس کے بغیر نماز نا مکمل رہتی ہے لیکن نماز کے علاوہ کسی اور وقت میں بھی اگر ہم تشہد اور درود و سلام پڑھیں تو اس کا ایک علیحدہ اجر و ثواب ہے۔
بعض حضرات اولیاء اللہ صاحب نسبت لوگ جب درود و سلام پڑھتے ہیں تو وہ اپنے قلب سے وہاں حاضر ہونے کا تصور کرتے ہیں اور اس حاضری کی کیفیت میں درود سلام پڑھتے ہیں۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ ”اَلصلَّاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ“ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ فرمایا: اگر تم اپنے لئے پوچھ رہے ہو تو جواب یہ ہے کہ تم نہیں پڑھ سکتے۔ اور اگر میرے لئے پوچھ رہے ہو، تو ہاں! میں پڑھ سکتا ہوں۔ اس نے پوچھا اس کی کیا وجہ کہ آپ پڑھ سکتے ہیں اور میں نہیں؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ تم نبی ﷺ کو یہاں حاظر ناظر سمجھو گے کہ میں درود پڑھ رہا ہوں اور آپ ﷺ یہاں تشریف لا کر میرا درود سماعت فرما رہے ہیں اور یہ بے ادبی ہے کہ جب تم چاہو، بس تمہارے چاہنے سے وہ تمہارے پاس آ جائیں۔ جبکہ میرے لئے اس طرح جائز ہے کہ میں یہ تصور کرتا ہوں کہ میں خود وہاں حاضر ہوں۔ اور اپنے بارے میں تو میں جب چاہے تصور کر سکتا ہوں، لیکن کسی اور کے بارے میں تصور کر لینا اور یہ سمجھ لینا کہ محض میرے تصور کرنے سے وہ یہاں تشریف لے آئے، یہ تو ایک خلاف واقعہ بات ہے۔ تم کسی اور کی ذمہ داری نہیں لے سکتے ہو کہ وہ یہاں حاضر ہیں یا نہیں، تمہیں اس بات کا کیا پتا اور تمہیں کیا اختیار، یہ تو تم ایک عام آدمی کی طرف سے بھی نہیں کر سکتے تو آپ ﷺ کے بارے میں ایسا سوچنا کہ میں نے چاہا اور وہ ادھر پہنچ گئے اور در حقیقت وہ پہنچے بھی نہ ہوں، یہ تو زبردستی کے ساتھ جھوٹ بھی ہو گیا۔ تو کتنے مسائل تمہارے اس تصور کرنے سے پیش آ گئے۔ لہٰذا تم نہیں پڑھ سکتے۔ بعض لوگ اپنے لئے دلیل کے طور پہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ وہاں پر بھی یہی بات تھی، حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا مقام تھا کہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔
ایک دفعہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ہاں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے حال میں کچھ ایسا کہہ دیا۔ مجھے اعتراض کے درجے میں اشکال ہوا کہ ایسا کیوں کیا۔ پھر کسی وقت مجھ پر بھی ایک حال طاری ہوا، میں نے بھی کہہ دیا۔ تب میں سمجھا کہ جواب مل گیا۔ جب آدمی بے بس ہو جائے تو پھر کیا کر سکتا ہے۔ اعتراض تو تب ہو جب کوئی اپنے ہوش میں وہ کام کر رہا ہو۔ وہ تو بے بس ہے۔ جو چیز وہ دوسرے کے لئے پسند نہیں کرتا تو اپنے لئے کیسے کر سکتا ہے۔ اگر کسی پہ کوئی ایسا حال آ جائے تو وہ معذور ہے، آپ اس کی تقلید نہ کریں، جب تک آپ پر وہ حال طاری نہیں ہے، آپ اس کو معذور سمجھیں اور خود اس کی تقلید نہ کریں۔
آپ حیران ہوں گے کہ یہاں سے اس طرح پڑھنا تو دور کی بات ہے ہم تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہم آپ ﷺ کے لئے درود و سلام پڑھنے کے بھی قابل ہیں۔ میں جب آپ ﷺ کے روضۂ اقدس پہ حاضر ہوا، وہاں پر میرا یہی حال تھا میری زبان گنگ ہوگئی، کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب میں کیا کروں، کیا کہوں اور کیسے کہوں۔ مانگنے کا حکم تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْن“ (الفاتحۃ: 4) اور دوسری طرف اتنا بڑا موقع ہے۔ میں حاضر ہوا ہوں تو آخر کیا کروں۔ وہاں پر یہ مدینہ منورہ میں روضہ اقدس کے سامنے یہ حالت طاری ہوئی، میں پریشان ہو گیا۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ ہمارے پاس ہی تشریف رکھتے تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت آج تو میرے ساتھ یہ حالت ہو گئی ہے کہ بالکل کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ فرمایا یہ بات میرے ساتھ بھی ہوئی تھی لیکن میرے دل پر یہ حدیث وارد ہوئی: ”اِنَّمَا اَنَا الْقَاسِمُ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ“(بخاری شریف، حدیث نمبر 3114) ترجمہ: ”بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ پاک عطا کرنے والے ہیں“ تو مجھے سمجھ آ گئی تھی۔ لہٰذا تم یہ نہ سوچو میں کس سے کہہ رہا ہوں، اللہ بھی سن رہا ہے نبی ﷺ بھی سن رہے ہیں، بس تم اپنی حاجات پیش کر لو، باقی ان کی آپس کی بات ہے۔ میں اب تک ایسا ہی کرتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ عقیدے کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ عقیدہ بار بار نہیں ملا کرتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں صحیح عقیدہ سے نوازا ہے تو ہمیں اپنے عقیدے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں ”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْن“ (الفاتحۃ: 4) پڑھتے ہیں، آخر اس میں کوئی ایسی بات تو ہے ناں کہ اسے اتنی بار دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
خیر حضرت نے میرے حال کے مطابق مجھے جواب دے دیا کہ تم اس طرح کر لیا کرو، تمہارے اوپر کوئی بات نہیں آئے گی۔ بعض لوگ ایسی سچویشن دوسری طرح بھی balance کر سکتے ہوں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے لوگوں کے لئے یہی طریقہ ہے۔ بعض لوگ دوسرے طریقوں سے بھی balance کر سکتے ہیں ان کے پاس اپنے دلائل ہوں گے۔ مجھے یہ طریقہ حضرت نے صرف میرے حال کے مطابق بتایا تھا، اس لئے اس پر لوگوں کو confuse نہیں ہونا چاہیے، یہ صرف ایک حال کی بات ہے اور سمجھدار مشائخ حال کے لحاظ سے اس موقع کے مناسب ترتیب بنا لیتے ہیں، یہی کمال کی بات ہوتی ہے۔ شیخ کامل کی ضرورت اسی لئے ہوتی ہے کہ جو خود کامل ہوتا ہے وہ دوسرے کی اصلاح کر سکتا ہے۔ جو کامل نہیں ہوتا وہ خود پھنس جائے گا تو دوسرے کا کیا علاج کرے گا۔ اس وجہ سے ایسے معاملات میں شیخ کامل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ایسے مواقع پر صورت حال سنبھال لیتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن