اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْد بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
کیا درود تنجینا حدیث شریف سے ثابت ہے؟ بعض علماء کرام سے سنا ہے کہ درود تنجینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بزرگ کو خواب میں سکھایا تھا۔ اگر یہ صحیح ہے تو کیا خواب کے ذریعے فرمائے گئےالفاظ کی حیثیت حدیث کی سی ہوتی ہے؟ اور اگر خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمائے گئے الفاظ مبارکہ حدیث نہیں ہیں تو پھر درود تنجینا کو اتنے اہتمام کے ساتھ کیوں پڑھا جاتا ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ! اچھا سوال ہے کیونکہ فکر والی بات ہے۔ یہ بات تو بالکل صحیح ہے کہ درود تنجینا حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اگر آپ ﷺ کسی کو خواب میں کوئی چیز بتائیں تو اس کو حدیث شریف نہیں کہتے اور خواب میں آپ ﷺ کو دیکھنے والا صحابی نہیں بنتا۔ البتہ درود تنجینا ذاتی برکات ہیں، آپ ﷺ نے ان کی نشاندہی فرمائی ہے۔ درود تنجینا بھی اصل میں ایک دعا ہے جس میں درود شریف کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنی اجات و مشکلات کے بارے میں مدد مانگی جاتی ہے۔ اور دعا کرنا تو دین میں ثابت ہے، خواہ الفاظ آپ کے اپنے ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ یہ بات بالکل جائز اور صحیح ہے کہ آپ اپنے الفاظ میں اپنی زبان میں دعا کریں، چاہے پشتو میں کریں چاہے اردو میں، چاہے پنجابی میں کریں چاہے سندھی یا بلوچی میں، کسی بھی زبان میں کر لیں اللہ تعالیٰ سنتے ہیں اور قبول بھی فرماتے ہیں۔
لہٰذا درود تنجینا کے بارے یوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی طرف سے رہنمائی کی گئی کہ ان الفاظ کے ذریعہ اللہ پاک سے مدد مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں۔ یہ ایک اطلاع ہے، جو ایک امتی کو خواب میں آپ ﷺ کی طرف سے ملی۔ یہ حدیث شریف نہیں ہے اور نہ ہی درود تنجینا کا درجہ حدیث شریف سے ثابت شدہ دعاؤں کی طرح ہے۔ علماء کرام نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس طرح ثابت شدہ چیزوں کو وہ درجہ نہیں دینا چاہیے جو احادیث شریفہ یا قرآن سے ثابت شدہ دعاؤں کا ہوتا ہے اور اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
میں ایک دفعہ حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ حضرت میرا ذوق ہے کہ کبھی کبھی میں
بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ
صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
گنگناتے ہوئے پڑھتا ہوں، یہ عمل کیسا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ماشاء اللہ بہت خوب، بہت اچھے اشعار ہیں ان میں آپ ﷺ کی تعریف کی گئی ہے، لیکن میں اس سے بھی اچھی بات آپ کو بتاؤں! میں نے کہا حضرت ضرور بتائیے، پوچھا ہی اس لئے ہے۔
فرمایا: دیکھو اگر آپ کا کسی افسر کے ساتھ کام ہو اور وہ آپ کو بتا دے کہ ان الفاظ میں یہ درخواست لکھو، اس طرح اور اس طرح کر کے لکھو، اور میں منظور کر لوں گا۔ اب اگر آپ انہی الفاظ میں، اسی انداز میں لکھیں تو یقینی بات ہے ان شاء اللہ منظور ہو جائے گی، لیکن اگر آپ اپنے خیال میں بہت خوبصورت الفاظ میں لکھ کے پیش کریں، اور ادھر سے جواب آئے کہ جو طریقہ اور الفاظ میں نے بتائے تھے ان میں کیا کمی رہ گئی تھی؟ تو کیا جواب دو گے؟ لہذا جو درود شریف آپ ﷺ سے آپ ﷺ کے الفاظ مبارکہ میں منقول ہے، بس وہ اعلیٰ درود ہے، اس کو پڑھنے پہ اجر زیادہ ہے۔ اجر کے لحاظ سے تو یہی بات ہے کہ آپ ﷺ سے جو درود شریف منقول ہے، آپ ﷺ سے جو سلام منقول ہے اسی کو پڑھنا زیادہ اجر کا باعث ہے۔ ہم یہاں جو چہل حدیث شریف پڑھا کرتے ہیں اس کے بھی سارے الفاظ آپ ﷺ سے منقول ہیں، ان میں برکت بھی ہے اصلاح بھی، اور انہی چیزوں کے حصول کے لئے ہم انہیں پڑھتے ہیں۔
اگر آپ درود تنجینا کے الفاط پہ غور کریں تو اس میں درود شریف تو بالکل ابتداء میں ہے، اس کے بعد اپنے مسائل و حاجات اور مشکلات کے لئے دعا ہے اور اپنے لئے دعا کرنا قرآن اور احادیث شریفہ سے بھی ثابت ہے، الفاظ چاہے کوئی بھی ہوں، الفاظ کی تخصیص نہیں ہے، اس میں دعا اور دعا کی کیفیت کا اعتبار ہے۔ دعا کرتے ہوئے جو کیفیت کسی کے دل میں ہو گی، اسی کے مطابق اللہ جل شانہ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائیں گے۔
ایک ہوتا ہے ایک رواجی انداز میں پڑھنا۔ جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر لوگ دعاؤں کو طرز لگا کر، گنگنا کر، ترنم سے یا تلاوت کے انداز میں پڑھتے ہیں، ایسے نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس میں دعا کا انداز ہونا چاہیے، التجا کا انداز ہونا چاہیے، جیسے آپ کسی سے کوئی چیز مانگ رہے ہوں۔ آپ بتائیں آپ نے کبھی کسی سے کوئی چیز مانگنی ہو تو ترنم سے اور گنگنا کر طرزیں لگا لگا کر مانگتے ہیں یا عاجزی کے ساتھ سیدھے سادے الفاظ میں التجا کرتے ہیں؟ اگر آپ ترنم سے طرز لگا کر مانگیں گے تو سامنے والا بجائے آپ کی حاجت پوری کرنے کے آپ سے سوال کرے گا کہ بھئی میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ آپ کے انداز اور الفاظ میں جتنی عاجزی اور انکساری ہو گی سامنے والے پہ اتنا زیادہ اثر ہو گا۔ لہٰذا دعا میں محبوب طریقہ یہی ہے کہ دعائیہ انداز میں دعا مانگی جائے۔
جو دعائیں احادیث شریفہ میں منقول ہیں وہ چاہے عربی الفاط میں مانگے چاہے اپنی زبان میں، جن دعاؤں میں دلی کیفیت اور التجا و عاجزی اور انکسار کا انداز ہوتا ہے ان کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے جو آپ اپنی زبان میں مانگتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور جو احادیث میں منقول الفاظ میں مانگتے ہیں وہ بھی قبولیت کو پہنچتی ہیں۔ اپنی زبان میں بھی مانگنا چاہیے۔ کچھ دعائیں قرآنی مانگ لی جائیں، کچھ احادیث شریفہ کی اور کچھ اپنی زبان میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے میں انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں، اس طرح اس میں کیفیت بنتی ہے، اور کیفیت سے اثر آتا ہے۔ جبکہ قرآنی اور حادیث والی دعاؤں کا درجہ سند اور برکت کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ یہ تمام چیزیں ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہیں۔ سب کو ملا گلدستہ بنانا چاہیے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن