اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے یہودیوں کو چونکہ اپنی کتابوں کے ذریعے آپ ﷺ کے بارے میں علم تھا۔ اس وجہ سے وہ باقاعدہ انتظار کرتے تھے اور مدینہ منورہ کے باشندوں کو یہ کہتے تھے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں سے لڑیں گے۔ لیکن جب آپ ﷺ بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے تو یہود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہو کر مغضوب علیہم ہو گئے۔ ہم مسلمانوں کو بھی آپ ﷺ کی احادیث شریفہ سے امام مہدی علیہ السلام کے آنے کی خبر ملی ہے اور ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ اگر امام مہدی علیہ سلام ہماری زندگی میں آجائیں تو ہم ان کے ساتھ ہوں لیکن تاریخ میں ہمارے لئے یہودیوں کی مثال موجود ہے کہ عین وقت پر اپنے وعدے سے پھر گئے۔ تو ہمیں کیا ایسے کام کرنے چاہئیں کہ امام مہدی علیہ السلام کے آنے پر ہم کو شیطان بہکا نہ سکے اور ہم ان کے ساتھ ہو جائیں؟
جواب:
سوال واقعی بڑا اچھا ہے۔ ماشاء اللہ! پہلے ذرا اس بات پہ غور کرنا پڑے گا کہ یہود نے ایسا کیوں کیا۔ پہلے وہ نبی ﷺ کی آمد کے منتطر تھے مگر جب آپ ﷺ تشریف لائے تو وہ آپ ﷺ کے دشمن ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود بنی اسرائیل تھے اور وہ تمام اچھائیاں بنی اسرائیل کے ساتھ چاہتے تھے۔ اور ان کی یہ چاہت ان کے اپنے نفس کی وجہ سے تھی، اخلاص کی بنا پر نہ تھی۔ یہود میں عصبیت عام ہو چکی تھی وہ سمجھتے تھے کہ ساری اچھائیاں صرف ہمارا حق ہیں۔ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ غیر یہودی لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اگر ان کو کوئی اپنے مقاصد کی خاطر تباہ کر دے یا مار دے تو کوئی گناہ نہیں۔ جیسے ہم لوگ کیڑے مکوڑوں کو مارتے ہیں۔ جن حشرات الارض سے ہمیں نقصان اور تکلیف ہوتی ہو تو ان کو مارنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ اسی اس طرح یہود باقی لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
اس وقت کے یہودی بھی قومی عصبیت کا شکار تھے لہٰذا اگر ان میں کوئی ایسا شخص آ جائے جس کی انہیں تعظیم کرنا پڑے تو یہ ان کے مزاج میں نہیں تھا۔ نتیجتاً انہوں نے انکار کر لیا اور اس حد تک منکر ہوئے کہ مخالف اور دشمن ہو گئے اور دشمنی بھی ایسی کہ حد سے گزری ہوئی۔ ہر قسم کی سازش پہ اتر آئے،یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مجسم شیطانیت پہ اتر آئے۔ جیسے شیطان جانتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ اللہ جل شانہٗ نے کیا چاہا اور میں نے کیا چاہا اور کیا ہو گیا۔ لیکن سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے صرف آدم علیہ السلام سے حسد کی بنا پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قرآن پاک میں ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا مگر جو تیرے چنے ہوئے لوگ ہیں ان پر میرا کوئی زور نہیں چلے گا۔ تو جس طرح شیطان جانتا تھا اسی طرح یہود نے بھی سب کچھ جانتے ہوئے حسد اور تعصب کی بنا پر انکار کر دیا تو ”مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ“ ہو گئے۔ یہود اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ ﷺ کون ہیں اور آپ ﷺ کا کیا مقام ہے سب کچھ جاننے کے باوجود محض عصبیت اور حسد کی وجہ سے انکار کرتے تھے۔
یہ عصبیت اور انتہا پسندی بڑی بری بلا ہے۔ آج کل سیاست میں یہ عصبیت بہت زیادہ ہے، جو ہمیں پارٹی بازی کی صورت میں نظر آتی ہے، کہ لوگ اپنی پارٹی کی حمایت میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ حق سچ کی تمیز نہیں رہتی۔ پارٹی بازی سے بچنا چاہیے عصبیت سے بچنا چاہیے۔ میں پٹھان ہوں۔ ٹھیک ہے پٹھان ہونا کوئی بری بات نہیں ہے مگر پٹھان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں باقی لوگوں کو برا سمجھوں، باقی سب کو غلط سمجھوں۔ اسی طرح اگر میں پنجابی ہوں تو ٹھیک ہے، پنجابی ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی غیر پنجابی کو برا سمجھوں۔ اسی طرح بلوچی اور سندھی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب غلط اور برے سمجھے جائیں۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ جس میں جو جو اچھی صفات ہیں انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مثلاً پٹھانوں کی کچھ اچھی صفات ہیں، پنجابیوں میں کچھ اچھی صفات ہیں، بلوچوں میں کچھ اچھی صفات ہیں، سندھیوں میں کچھ اچھی صفات ہیں۔ عربوں کی الگ اچھی صفات ہیں، عجمیوں کی الگ۔ تو اچھی صفات کو تو اپنانا چاہیے، چھوڑنا نہیں چاہیے۔ لیکن اپنی اچھائی کا مطلب باقی سب کا غلط ہونا نہ ہو۔
یہ باتیں میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اس وقت social media کا رنگ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر چیزیں کچھ سے کچھ انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔ ہوتا کچھ ہے اور پیش کچھ کیا جاتا ہے۔ ایک فراڈ کا جہان ہے، فراڈ ہی چل رہا ہوتا ہے اور فراڈ ہی کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس حد تک نوبت آ گئی کہ عوام علماء کو جاہل کہنے لگے ہیں، بے عقل علمندوں کو عقل سکھانے لگے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، ہر ایرا غیرا منہ اٹھا کے کہہ رہا ہے کہ علماء کو یہ کرنا چاہیے علماء کو وہ کرنا چاہئے۔ خدا کے بندو! اگر کسی عالم کی کوئی ذاتی غلطی ہے تو اس کا علم کے ساتھ تعلق نہیں ہے، علم اپنی جگہ موجود ہے۔ علمی حیثیت کو challenge نہیں کر سکتے۔ اگر کسی عالم کی کوئی بات غلط ہے تو اس کی وجہ سے اس کی علمی بات غلط نہیں ہو گی۔ علمی بات کے غلط ہونے کے لئے علمی دلیل چاہیے۔ اگر آپ کے پاس علمی دلیل ہے تو علمی انداز میں بات کرو۔ یہ درست نہیں کہ ذات کو بنیاد بنا کر ان کی اچھی باتوں کو بھی غلط کہنے لگیں۔ یہ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اکثر لوگ ان علماء کو جو سیاست میں کام کر رہے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں۔ بھئی! سیاسی علماء بھی علماء ہی ہیں۔ عالم دین ہونے کے لحاظ سے ان کی قدر ہونی چاہیے۔ آپ ان کی سیاسی باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں، آپ کی اپنی رائے ہے ان کی اپنی رائے، لیکن اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے آپ ان کی علمیت پر سوال نہیں اٹھا سکتے، اس وجہ سے ان کو مطعون نہیں کر سکتے۔ ایسی باتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ آج سے پچیس سال پہلے جتنے حالات دس سالوں میں تبدیل ہوئے، آج کل اتنی تبدیلی ایک سال میں آ رہی ہے اور شاید اب speed مزید بڑھ جائے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو بہت محتاط رہنا پڑے گا۔
کچھ چیزوں کے اوپر کسی صورت compromise نہیں ہونا۔ جن میں سب سے اول درجے پر حق بات ہے۔ حق پر کوئی compromise نہیں ہونا چاہیے۔ حق میرے والد کے ساتھ ہے تو میں والد کے ساتھ ہوں، میرے والد کے مخالف کے ساتھ ہے تو میں اپنے والد کے مخالف کے ساتھ ہوں۔ والد ہونے کی حیثیت سے اب بھی قدر کروں گا، والد کافر بھی ہو تب بھی اس کے والد والے حقوق ختم نہیں ہوتے، لیکن حق بات کے مقابلے والد کی بات نہیں مانی جائے گی۔ اس کی وجہ سے کافر تو نہیں ہوا جا سکتا۔
بات شروع ہوئی تھی یہودیوں کے حسد، تعصب اور عصبیت کی وجہ سے نبی ﷺ اور حق کا انکار کرنے سے۔ ہمیں اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ اسی موضوع پر اک آخری پوائنٹ سمجھ کر بات کر کے ختم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں دو باتیں یاد رکھیں۔ ایک ہوتا ہے تعصب۔ اور ایک ہوتا ہے تصلب۔ تعصب بری چیز ہے، جس کی وجہ سے انسان حق سے محروم ہو جاتا ہے، جبکہ تصلب اچھی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حق پر قائم رہتا ہے۔ لہٰذا تصلب نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حق کی بات کو نہیں چھوڑنا ہے چاہے مشکل حالات ہوں، چاہے کچھ بھی ہو۔ یہ تصلب ہے۔ یہ تو ہونا چاہیے۔ لیکن تعصب سے بہت زیادہ بچنا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن