یتیموں کی کفالت کے بارے میں ایک اہم مسئلہ

سوال نمبر 558

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

کل سیرت النبی ﷺ کے درس میں یہ بات فرمائی گئی تھی کہ اسلام نے پہلی دفعہ یتیموں کی کفالت کا ایک باقاعدہ طریقہ کار پیش کیا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں نے حکومتی سطح پر یتیموں کی کفالت کیلئے دنیا کے سامنے یتیم خانوں کا طریقہ کار پیش کیا۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے رفاہی کاموں میں زیادہ تر ایسے NGO`s پیش پیش ہیں جو غیر مسلموں کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں اور ان کا مطمح نظر یتیموں کی خدمت نہیں بلکہ یتیموں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں سے بچاؤ کے لئے مسلمانوں کو آج کل کیا طریقہ اپنانا چاہئے تاکہ مسلمان یتیم بچے غیر مسلموں کا آلہ کار بننے سے بچ سکیں؟

جواب:

انسان کی ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ اکثر انسان دور اندیش نہیں ہوتے، انہیں جب فوری تقاضے پیش آتے ہیں تب ان کے دیکھنے کی طاقت بڑی محدود ہو جاتی ہے اور وہ اپنی خواہشات کے سامنے انسان بے بس ہو جاتے ہے۔ شر کے پیروکار اور شر کو پھیلانے والے لوگ انسانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ NGO'S کا سلسلہ ایسا عجیب و غریب ہے کہ بظاہر اس میں خیر نظر آتی ہے لیکن درحقیقت اس میں شر ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ غریب ممالک میں مشنری ادارے فلاحی کام کرتے ہیں، ہسپتال اور سکولز بناتے ہیں۔ بظاہر تو رفاہ عامہ کے کام کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو عیسائی بنا دیا جائے، اگر عیسائی نہ بنا سکیں تو کم از کم مسلمان نہ رہنے دیں۔ اب بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو ان کے سکولوں میں داخل کرتے ہیں اور ان کے ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کا اصل مقصد کیا ہے، لیکن اپنے فوری تقاضوں کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔

اس میں ہمارے اداروں کا قصور بھی ہے کہ ہم لوگ ایسے معیاری ادارے قائم نہیں کرتے جو ان کے مقابلے کے ہوں تاکہ ہمار لوگ ان سے متاثر نہ ہوں۔ اور یہ بھی ہمارا قصور ہے کہ ہمارے ادارے اتنے strong نہیں ہوتے کہ ان کے اداروں کا مقابلہ کر سکیں۔ مثلاً ہمارے hospitals میں لوگوں کی ویسی care نہیں ہوتی جیسی مشنری ہسپتالوں میں ہوتی ہے۔ ہمارے اسکولوں کا وہ معیار نہیں ہوتا جیسا کہ ان کے سکولوں کا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ہر آدمی کو سمجھنا چاہیے کہ ایمان سب سے زیادہ فوقیت رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب انسان کے سر کی طرف کوئی آتا ہے تو سر کو بچانے کے لئے اپنے ہاتھ کو آگے کر لیتا ہے۔ کیا وہ پتھر جو سر کی طرف آ رہا ہے ہاتھ کو زخمی نہیں کرے گا؟ لازماً ہاتھ کو زخمی کرے گا لیکن انسان کی سرشت میں یہ چیز موجود ہے کہ سر زیادہ اہم ہے بمقابلہ ہاتھ کے۔ لہذا سر کو بچانے کے لئے ہاتھ زخمی کرنا قبول کر لیتا ہے۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں کہ اگر ہر طرح کے مزے ہوں، عیش و عشرت ہو مگر اس سے جان پہ بن آتی ہو، تو جان کو بچانا چاہیے یا ایسے عیش و عشرت میں رہنا چاہیے؟ اسی طرح اگر جان بچتی ہو لیکن ایمان خطرے میں ہو تو ایمان کو بچانا چاہیے۔ انسان کو یہ priority ہونی چاہیے کہ ایمان کو بچانا سب سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن بہت سارے لوگ ان چیزوں کو نہیں جانتے یا نہیں جاننا چاہتے۔ ان کے ساتھ پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

اس situation کو ٹریک پر لانے کے لئے ہمیں دو طرفہ کام کرنا پڑے گا ایک تو یہ کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا پڑے گا، صحیح کرنا پڑے گا، کرپشن کو ختم کرنا پڑے گا اور ان اداروں کے معیار پر صحیح توجہ دینی پڑے گی تاکہ لوگ دوسرے اداروں کی طرف نہ جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور پیدا کرنا چاہیے کہ ایمان ہر چیز سے زیادہ اہم ہے اگر آپ کو وقتی طور پر دنیاوی لحاظ سے کچھ فائدہ بھی ہو رہا ہو تو اس فائدے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

جب میں جرمنی میں تھا تو وہاں کراچی کے ایک صاحب بھی میرے ساتھ تھے، جو C miles factory میں training حاصل کرنے کے لئے آئے تھے۔ ہم دونوں چونکہ ایک ملک سے تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ تھا، ملنا جلنا رہتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے ہاں مشنری ادارے کے کچھ لوگ literature تقسیم کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے یہ literature اس وقت تک نہیں لوں گا جب تک آپ مجھے German nationality نہ دلوائیں۔ انہوں نے کہا یہ تو ہمارے بس میں نہیں ہے۔

اس کی یہ بات سن کر مجھے سخت غصہ آ گیا کہ اس کا ایمان اتنا سستا ہے کہ nationality پہ بک سکتا ہے! میں نے ان سے کہا کہ آئندہ تمہاری میری بات چیت ختم، آئندہ نہ آپ میرے پاس آئیں نہ میں آپ کے پاس آؤں گا۔ میں نے اس سے تعلق توڑ دیا کیونکہ وہ اپنے ایمان کو بہت ہی کم وقعت دے رہا تھا۔ میرے نزدیک یہ انتہائی درجہ کی ذلیل حرکت ہے کہ انسان چند دنیاوی فائدوں کے لئے ایسے اداروں کے کام میں شامل ہو جائے جن سے اس کے ایمان کو خطرہ ہو۔ اس طرح کی چیزوں سے اور ایسے موقعوں پہ ہمیں ہر وقت alert رہنا چاہیے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنا چاہیے۔

جہاں تک یتیم خانوں کی بات ہے تو ہمیں خود اپنے یتیم خانے بنا کر ان کے اندر یتیموں کی پرورش کرنی چاہیے۔ اور سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یتیموں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ اگر ان کی کوئی جائیداد ہے تو اس پہ ناحق قبضہ نہ ہو۔ اگر ان کے کوئی اور مفادات ہیں تو وہ متاثر نہ ہوں۔ کیونکہ یہ بے چارے بے آسرا ہوتے ہیں۔ ان بے آسراؤں کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک لازمی فریضہ ہے کہ ہم ان بے آسرا لوگوں کا خیال رکھیں تاکہ وہ کسی غلط طرف نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن