صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک عمل کی تعریف

سوال نمبر 557

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لائے وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم آپس میں زمانہ جاہلیت کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ کس طرح ہم گمراہ تھے پھر کیسے اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا یہ عمل بہت پسند آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت اچھا عمل کیا اسی طرح کیا کرو۔(حیاة الصحابہ جلد دوم صفحہ 573) اس واقعے میں ہمارے لیے کیا تعلیم ہے؟

جواب:

تین باتیں ہیں:

1۔ صحیح بات کا ادراک کر لینا۔ یہ بہت بڑی دولت ہے۔

2۔ پھر اس نعمت کا سبب محض اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنا۔

3۔ پھر شکر کے تقاضوں پر عمل کرنا۔

یہ تینوں باتیں صحابہ کرام میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ انہیں اس بات ادراک ہوگیا تھا ہم جس راستے پر پہلے تھے وہ بدترین راستہ تھا اور اب جس راستے پر ہیں یہ بہترین راستہ ہے۔ پھر وہ اس ادراک کے حصول کو اللہ تعالیٰ نعمت عظیمہ سمجھ کر اس پر شکر کرتے تھے اور شکر کے تمام تقاضوں پہ عمل کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ اگر ہمیں ہدایت نہ دیتے تو ہم کیا کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا ہو اور سب کو اجازت دی جائے کہ جو اندر جانا چاہے، چلا جائے۔ اس وقت جو لوگ وہاں موجود ہوں گے وہ اپنے اوپر ناز کریں گے اور خوش ہوں گے کہ اللہ شکر ہے ہم اس وقت موجود تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دے دیا اور ہم خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کی خوشی تھی کہ اگرچہ ہم پہلے گمراہ تھے لیکن آپ ﷺ ہمارے وقت میں تشریف لائے، اللہ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی، ہمیں توفیق دی اور ہم مسلمان ہوگئے۔

تو پہلی بات اس نعمت کا ادراک کرنا ہے۔ اس کے بعد اس نعمت کا شکرنا ہے اس طور پر شکر کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ شکر کے تقاضوں میں سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ نعمت پر شکر کا اظہار کیا جائے۔ جیسے اللہ پاک نے نبی ﷺ کو فرمایا: ﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحی: 11) (ترجمہ: (اے نبی ﷺ) اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہیں)۔ لہٰذا پہلا شکر کا پہلا تقاضا یہ ہوا کہ نعمت پر شکر کا اظہار کرنا چاہیے۔

دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس نعمت کو صرف اپنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ آگے بھی پھیلانا چاہیے۔ آگے پھیلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اگر ایک آدمی دوسرے تک پہنچائے اور خود اس پر عمل نہ کرے پھر بھی کام خراب ہوگا۔ اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔ اگر صرف اوروں تک پہنچا دیا اور خود اس پر عمل نہیں کیا تو اس نے اپنا نقصان کیا اور دوسروں کا فائدہ کیا اور اگر خود عمل کیا اور دوسروں تک نہیں پہنچایا تو بخل کیا۔ اور بخل کر کے مزید یہ نقصان کیا کہ اگر پھیلا دیتا تو اس کو صدقہ جاریہ مل سکتا تھا کہ اس کی پھیلائی نعمت سے جتنے لوگ فائدہ اٹھاتے وہ اپنا اجر بھی پاتے اور ان سب کا اجر اس کو بھی ملتا۔ تو بخل کر کے یہ اس اجر سے بھی محروم ہو گیا۔ سورۂ عصر میں انسان کی زندگی کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اسی بات پر زور دیا گیا ہے۔

﴿وَ الْعَصْرِ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر: 1، 2 ،3)

ترجمہ: ’’زمانے کی قسم۔ بیشک (بالیقین) انسان سر تا پا خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔ ‘‘

اس میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ اعمال صالحہ صرف خود تک محدود نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ کے مطابق ایک دوسرے کو ہر معاملہ میں حق کی وصیت کرنا اور پھر اس پر جمے رہنے کی تلقین کرنا بھی ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔ انسان خود صبر کرتا ہے، یہ بھی ٹھیک ہے تاہم دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے۔ انسان خود حق پر رہتا ہے، یہ بھی ٹھیک ہے لیکن دوسروں کو بھی حق بتائے۔

ماشاء اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس سارے طریقے پر پورا پورا عمل کیا۔ خود عمل کرتے ہوئے دوسروں کے لئے بھی عمل کا ذریعہ بنے۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو دیکھیے جو خود گمراہ تھے اللہ پاک نے ان کو دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔ حتٰی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْم فَبِاَیِّھِمِ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُم (مسند دیلمی: 2/190) ترجمہ: ”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کے پیچھے بھی چلو گے، ہدایت پاؤ گے“۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ پر ایمان لانا ہی ساری چیزوں کی تکمیل کا دروازہ ہوتا تھا اور جو ایمان لاتا تھا وہ کامل و مکمل ہدایت کا ستارہ بن جاتا تھا۔ مثلاً کوئی ایسے موقع پر ایمان لایا جب جہاد ہو رہا تھا۔ وہ لڑا اور پانچ منٹ میں شہید ہو گیا۔ یہ بھی نمونہ ہے اس بات کا کہ جب اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرو تو مکمل طور پہ کر دو ایسے جذبہ کے ساتھ کرو جیسے جذبہ کے ساتھ انہوں نے کیا کہ ذرہ بھر بھی سوچا نہیں اور ایمان لاتے ہی اس طرف چلے گئے اور اس پر اپنی جان قربان کر دی۔ یہ شہداء کے لئے نمونہ ہے۔ اسی طرح ہر صحابی کسی نہ کسی عمل میں ہدایت کا نمونہ اور ستارہ ہے۔

تو صحابہ کرام نے اس پر شکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ایسا کرتے رہو۔ کیونکہ یہ چیز یعنی شکر کا اظہار کرنا اور اس کے تقاضوں پہ عمل کرنا واقعی ایسی چیز تھی کہ جو ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو بھی صحابہ کرام کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جب ہم صحابہ کرام کی طرح کام کریں گے ہر معاملے میں ان کے طریقوں پہ چلیں گے جو بشارتیں ان کو ملی ہیں ان کا کچھ حصہ ہمیں بھی مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیقات سے نوازے۔ آمین

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن