اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ!
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں صفحہ نمبر 270 پر کفار و مشرکین کے غلط عقائد کے بارے میں فرماتے ہيں: عرب کے مشرکین کو جب کوئی خلاف توقع تکلیف پہنچتی تو زمانہ کی شکایت کیا کرتے تھے اور اس کو بُرا کہتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس سے منع کیا اور فرمایا: زمانہ کو گالی نہ دیا کرو، زمانہ خود خدا ہے اور فرمایا کہ خدا ارشاد فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانہ کو بُرا کہتا ہے، زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں شب و روز کا انقلاب کرتا ہوں۔ یعنی جن تکلیفوں اور مصیبتوں کا خالق زمانہ کو سمجھ کر لوگ اس کو بُرا کہتے ہیں حقیقت میں ان کو پیدا کرنے والا خدا ہی ہے۔ اس لئے یہ گالی حقیقت میں خدا کو دی جاتی ہے۔ آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ زمانہ کو بُرا کہتے ہيں۔ اس طرح زمانہ کو بُرا کہنے سے کیا نقصانات پیدا ہو رہے ہیں اور ان نقصانات کا کیا تدارک ہے؟
جواب:
اصل میں وقت ایک ایسی چیز ہے جس کی تعریف کوئی نہیں کر سکا۔ وقت ہمارے لئے ایک medium ہے، جس میں ہر شخص اپنی اپنی بصیرت اور بصارت کے ذریعہ سے مشغول ہے جیسے سب موجودات اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے ظلال ہیں۔ اس وجہ سے جو یہاں ہیں وہ اصل میں وہاں سے ہے، چنانچہ ہم ان موجودات کو اس طرح استعمال کریں جیسے وہاں سے حکم ہو، پھر تو اس میں خیر ہے۔ مثلاً ہمارے پاس وقت ہے، جان ہے، مال ہے، اولاد ہے۔ یہ چار چیزیں ہیں۔ جان اللہ پاک کی دی ہوئی ہے لیکن اس میں اصل روح ہے۔ روح اوپر سے آئی ہے اور جان یہاں کی پیدا کردہ چیز ہے اور موجودات میں سے ہے۔ جب تک یہ combination رہے گی اس وقت تک ہمارے اعمال کی منفی یا مثبت صورت ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ زمانہ وقت کو کہتے ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس میں سب کچھ کروا رہا ہے۔ ہمیں جتنا اختیار دیا گیا ہے اس کے مطابق ہم اس میں اچھا کام کریں۔ مثال کے طور پر میں کسی کو پیسے دوں وہ جا کر جوئے میں ہار جائے یا اس سے ناچ گانے کی محفلیں قائم کرے یا پھر اس پیسے سے مسجد بنوائے یا کسی غریب کی مدد کرے۔ پیسے میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن استعمال کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اسی کے مطابق ہمیں نمبر ملیں گے اور پوزیشن بنے گی۔ چنانچہ اگر ہم اس کا صحیح مصرف ڈھونڈ لیں تو ہمارا فائدہ ہو گا۔ اسی طریقے سے کوئی اولاد کی اچھی تربیت کر کے اس کو اپنے لئے صدقہ جاریہ بنا لیتا ہے اور کوئی اس کو اس کے نفس کے حوالے کر کے اپنے لئے مصیبت بنا لیتا ہے۔ چنانچہ ہمیں ان چاروں کے اوپر شریعت کے مطابق محنت کرنی ہے۔ مال بذاتِ خود برا نہیں ہے۔ برا بھی وہ اسی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور اچھا بھی اس کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے۔ جیسے حدیث شریف میں ہے: "نِعْمَ الْمَالُ لِلْرَجُلِ الصَّالِح" ”اچھا مال صالح آدمی کے لئے ہے“ اسی طریقے سے انسان جو وقت صحیح جگہ لگاتا ہے وہ برکت والا وقت ہوتا ہے۔ چنانچہ توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ انسان اگر گناہ کرتا ہے تو وقت کا اتنا حصہ گناہ میں استعمال ہو گیا اور بعد میں اس کو احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے اور توبہ کر لے تو گناہ معاف ہو جائے گا لیکن وہ وقت جو گناہ میں استعمال ہوا وہ اگر چاہتا تو اچھے کاموں میں بھی استعمال ہو سکتا تھا۔ یعنی وہ گناہ کا عرصہ جس میں اچھائی بھی ہو سکتی تھی اب ختم ہو گیا۔ مثلاً دس منٹ کے اندر وہ گناہ کر رہا تھا بعد میں اس نے توبہ کر لی اور گناہ معاف ہو گیا، لیکن گزشتہ دس منٹ تو گئے، ان دس منٹوں میں وہ ذکر بھی کر سکتا تھا، اللہ کے راستے میں دعوت بھی دے سکتا تھا، پڑھ بھی سکتا تھا۔ لیکن ان دس منٹ میں اس نے گناہ کیا پھر توبہ کرکے معاف کروا لیا لیکن وہ time واپس نہیں آ سکتا کیونکہ time کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کچھ بیوقوف لوگ اپنی سالگرہ مناتے ہیں اور ایسا عجیب شیطانی نظام ہے کہ دیکھا دیکھی سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شمعیں جلاتے ہیں اور جتنی اس کی عمر ہوتی ہے اتنی شمعیں ہوتی ہیں، پھر وہ اس کو پھونک مار کر بجھا دیتے ہیں۔ یعنی کہ میرے اتنے سال ختم ہو گئے۔ اگر آپ جلائے رکھتے تب بھی سمجھ میں آتا لیکن آپ تو بجھا رہے ہیں۔ پھر اس خوشی میں تالیاں بجنی چاہیے یا افسوس کرنا چاہیے! انسان عقل سے کام لے تو سمجھ جائے کہ یہ غلط ہے۔ یہ وہ عقل ہے جس کو شیطان نے مسخ کر دیا ہے۔ عقلمند اور سمجھدار لوگ ان چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
یعنی آپ کا وقت چلا گیا، ضائع ہو گیا۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ پیسہ کو آپ store کر سکتے ہیں لیکن وقت کو store نہیں کر سکتے۔ وقت کو صحیح استعمال کر لو یا ضائع ہو جائے یا غلط استعمال کر لو، یہ 3 صورتیں ہیں۔ مثلاً آپ سو گئے تو نہ کچھ ملا نہ کچھ گیا۔ گناہ کر لیا تو اپنے سر پہ بوجھ ڈال دیا۔ اچھائی کر لی تو آپ نے اپنے لئے کمائی کر لی۔ ان تین باتوں میں option ہے ۔ اس وجہ سے آپ زمانہ اور وقت کو برا نہ کہیں، اس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔ تمہارا تعلق اس عمل کے ساتھ ہے جو اس وقت کے اندر کرنا ہے۔ اس وجہ سے زمانے کو برا نہ کہو۔ پشتو میں بہت اچھے الفاظ کے ساتھ اس کی نصیحت کی گئی ہے۔ فرماتے ہیں: "زمانه خرابه نه ده دہ غویہ بلكه غویہ زما نه خرابه ده" یعنی یہ نہ کہو کہ زمانہ خراب ہے بلکہ کہہ دو مجھ سے خراب ہے۔ یعنی میں نے خرابی کی ہے۔ اس وجہ سے زمانہ کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ زمانہ سب کے لئے ایک ہی ہے۔ پیغمبر کے لئے بھی زمانہ تھا، صحابہ کے لئے بھی زمانہ تھا۔ اس وقت ابو جہل کے لئے بھی زمانہ تھا، امیہ بن خلف کے لئے بھی زمانہ تھا۔ اچھے برے سب کے لئے زمانہ ہوتا ہے لیکن اچھا اس کو صحیح استعمال کر لیتا ہے اور برا اس کو غلط استعمال کر لیتا ہے اور اس کو سزا زمانے کی نہیں دی جاتی بلکہ اپنے عمل کی سزا دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا زمانہ خراب نہیں ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کی درستگی کی فکر کرنی چاہیے۔ اپنے وقت کو بچا کے، مال کو صحیح استعمال کر کے، اپنی جان کو صحیح استعمال کر کے اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر کے اپنے وقت کو قیمتی بنانا چاہیے۔کیونکہ پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ وقت کیسے گزارا؟ مال کیسے کمایا؟ مال کیسے خرچ کیا؟ علم کیسے استعمال کیا؟ اور اپنے جسم کو کیسے استعمال کیا؟ اللہ جل شانہ ہمیں اس کے مطابق تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن