تبلیغی جماعت، علم کی اہمیت اور اصلاح نفس کی موجودہ صورتحال کا حل

سوال نمبر 554

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

سوال:

آپ کے ایک درس قرآن میں طالب اور غیر طالب کی بات ہوئی تھی۔ اس ضمن میں سورہ عبس کی ابتدائی آیات کی تشریح میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ طالب کا حق زیادہ ہے۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے غیر طالبوں کے اندر طلب پیدا کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح آج کل علماء اور مشائخ عمومی بیانات کے ذریعے عوام کے اندر طلب پیدا کرتے ہیں۔ تبلیغی حضرات تبلیغ کے فضائل بیان کرتے ہیں، علماء علم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور مشائخ اصلاحِ نفس کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ ان سارے کاموں کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن ایک شخص جو پہلے غیر طالب تھا، اب ان تینوں شعبوں کے حضرات کی باتیں سن کر اس میں طلب پیدا ہوئی کہ میں اپنے رب کو راضی کروں لیکن ان تینوں شعبوں کے حضرات کی باتیں سننے سے اسے اپنے مقصود کے حصول کا طریقہ کار معلوم نہیں ہو رہا کہ میں شروع کہاں سے کروں۔ اس مشکل کے حل کے لئے آج کل کے دور میں کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟ کیا ایک اور شعبے کی بنیاد رکھنی چاہیے جو عوام کی ضروریات کو خواص تک پہنچا کر مسائل کا حل عوام تک پہنچا سکیں؟

جواب: 

تعلیم و تدریس، تبلیغ اور تزکیۂ و اصلاح۔ یہ تینوں شعبے بہت اہم ہیں۔ شریعت میں ان تینوں شعبوں کے قیام کا مستقل طور پر حکم دیا گیا ہے، اور ترتیبیں بتائی گئی ہیں۔ تحصیل علم کے بغیر انسان کو شریعت پر چلنے کی توفیق ہی نہیں ہو سکتی۔ علم حاصل کرنے کے بعد ہی انسان عمل کر سکتا ہے۔ اصلاح و تربیت اور تزکیہ کے بغیر علم پر عمل نہیں ہو سکتا، اور تبلیغ کے بغیر وہ علم عالم تک محدود رہتا ہے، کسی اور تک نہیں پہنچ سکتا۔ معلوم ہوا کہ تینوں شعبوں کی مستقل اہمیت ہے۔ 

دعوت اس وقت بار آور ہوتی ہے جب علم بھی ساتھ ہو، یا علم کے حاصل کرنے کا بندوبست بھی ہو اور علم اس وقت فائدہ دیتا ہے جب تربیت بھی ہو۔ اب جو طالبین مدرسوں میں علم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں اور خانقاہوں میں تربیت حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں، ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے نظام موجود ہیں۔ جو تربیت کروانا چاہتے ہیں وہ خانقاہوں میں آتے ہیں تو ان کی تربیت ہو جاتی ہے اور جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مدرسوں میں جاتے ہیں تو ان کو علم حاصل ہو جاتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا ذریعہ موجود ہو کہ جو لوگ علم کی فضیلت سے بھی آگاہ نہیں اور تربیت کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے، ان تک یہ بات پہنچائی جا سکے کہ تربیت اور علم ضروری ہیں۔ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغی جماعت بنائی کہ بے طلب لوگوں میں پہلے تحصیل علم کی طلب پیدا کی جائے، طلب علم پیدا ہونے کے بعد وہ مدارس میں علماء کی خدمت میں جا کر ان سے علم سیکھیں۔ اس کے بعد تربیت کروانے کے لئے خانقاہوں میں مشائخ کی خدمت میں جائیں۔ تبلیغی جماعت کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ عام لوگوں میں طلب پیدا کر کے انہیں تحصیل علم اور اصلاح و تربیت کی طرف راغب کریں۔ لہذا تبلیغی جماعت کے اندر یہ صفت موجود ہے کہ اسے مدارس میں طلبہ پہنچانے اور خانقاہوں میں سالکیں پہنچانے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس لئے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق جس طرح مدارس کے ساتھ تھا اسی طرح خانقاہوں کے ساتھ بھی تھا۔ 

چونکہ تبلیغ میں جانا دوسرے دونوں مقاصد کے لئے ایک ذریعہ تھا، اور جب تک اس ذریعہ کے فضائل نہ بیان کیے جائیں تو لوگ اس کی طرف آتے نہیں۔ اس لئے تبلیغ کے فضائل کا بیان ہونا شروع ہوا، لیکن آہستہ آہستہ ان فضائل پہ اتنا زور آ گیا کہ اصل اہمیت تبلیغ کے فضائل اور تبلیغ کے لئے نکلنے کی رہ گئی، اسی کو نہ صرف اصل سمجھا جانے لگا، بلکہ بعض اوقات دوسرے دونوں مقاصد کا بالمقابل بنا کے پیش کیا جانے لگا۔ 

حالانکہ خود تبلیغ کے اصول میں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے، آپ کو معلوم ہوگا کہ تبلیغ میں جو چھ نمبر بیان کئے جاتے ہیں ان میں ”علم و ذکر“ کے عنوان سے باقاعدہ ایک نمبر ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے علماء کے پاس جائیں اور کسی شیخ کامل متبع شریعت سے رابطہ کر کے اپنی تربیت کروائیں۔ یہ دونوں باتیں تبلیغ میں باقاعدہ خاص طور پر بیان کی جاتی تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ایسا ہوا کہ اصل مقصود پیچھے چلا گیا اور تبلیغی جماعت نے صرف ایک ایسی تحریک کی صورت اختیار کر لی کہ جس کا مقصد لوگوں کو اٹھانا ہو۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے اس کو چلانے والے تمام لوگ علماء کرام و مشائخ عظام ہوا کرتے تھے۔ خود مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ عالم بھی تھے شیخ بھی تھے۔ اس لئے معاملہ جب تک علماء و مشائخ کی نگرانی میں تھا، تب تک محفوظ تھا۔ لیکن جب صرف وقت لگانا یعنی سہ روزہ، دس روزہ، چلہ، چار مہینے اور سال لگانا وغیرہ ہی تکمیل کے لئے کافی سمجھا جانے لگا تو معاملہ گڑبڑ ہو گیا۔ جبکہ درحقیقت تعلیم اور تربیت و اصلاح کے بغیر محض وقت لگانا کافی نہیں ہوتا۔ Lawrence of Arabia چودہ سال ایک مسجد میں امام رہا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں ان کے گاؤں کے پاس ایک انگریز Abbott نامی سات سال امام رہا ہے۔ (یہ دونوں انگریز جاسوس تھے) اگر کوئی شخص اتنا عرصہ بغیر ایمان کے، planning کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لئے مسجد کا امام بن سکتا ہے تو کیا دو سال تبلیغ میں وقت نہیں لگا سکتا! اب اگر وقت لگانا ہی کافی سمجھا جائے اور کوئی آدمی اور وقت لگا کر سینئر ہو جائے، تو یہ بزرگوں میں آ جائے گا، پھر آہستہ آہستہ مشوروں میں آئے گا، پھر ساری شوریٰ پہ اثر انداز ہو گا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، محض وقت زیادہ لگانے کی بنیاد پر معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے جن کی نہ تربیت ہوئی تھی نہ ہی ان کے پاس علم تھا۔ انہی لوگوں نے مسائل پیدا کئے، یہ علماء کے لئے بھی رکاوٹ بن گئے اور مشائخ کے لئے بھی رکاوٹ بن گئے۔ جو بہت ہی عمدہ ترتیب مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی بنائی ہوئی تھی، اس میں گڑبڑ شروع ہو گئی۔ حضرت مولانا محمد عمر پالنپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو تبلیغی جماعت کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں وہ حتی المقدور ان چیزوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیانوں اور ہدایات میں ان معاملات کو درست کرنے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ لیکن ایسے لوگوں کا بڑا نیٹ ورک بن گیا تھا اور ان چیزوں کو کنٹرول کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ مسئلہ اس حد تک بڑھ گیا کہ مساجد پہ کنٹرول حاصل کرنے تک یہ معاملات پہنچ گئے۔ 

اس لئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ یہ مسئلہ اصل تبلیغی جماعت کا نہیں ہے جو شریعت و طریقت کے سائے میں چلتی تھی۔ یہ مسائل ان لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جن کی نہ تربیت ہوئی ہے نہ ان کے پاس علم ہے، اور وہ بزرگ بن گئے ہیں۔ تبلیغی جماعت تو وہی ہے لیکن اس میں جہاں جہاں تک ایسے لوگوں کا اثر گیا ہے وہاں وہاں مسائل ہیں۔ بعض مراکز میں مسئلہ زیادہ ہے، بعض مراکز میں کم ہے۔ 

جب تبلیغ میں یہ مسائل پیدا ہوئے تو اس کے reaction میں علماء نے علم کی فضیلت پہ زیادہ زور دینا شروع کر دیا۔ مشائخ نے اصلاح و تربیت کے بارے میں زیادہ بات کرنی شروع کی۔ اب عوام کے لئے مسئلہ بن گیا کہ وہ کیا کریں۔ کس کی سنیں، کس پہ چلیں، کس کی مانیں۔ تو عوام کے لئے حل یہ ہے کہ وہ سب کی سنیں اور سب کی مانیں، سب فضائل پہ عمل کر لیں۔ کیونکہ فضائل تو سبھی چیزوں کے ہی ہیں۔ اگر سب پہ عمل کریں گے تو کوئی نقصان نہیں ہے۔ نقصان تب ہوتا ہے جب صرف ایک طرف کے فضائل سنتے ہیں اور باقی چیزوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ فضائل کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسری چیز غلط ہو گئی ہے۔ مثلاً اللہ کے راستے میں نکلنے کی فضیلت کا مطلب یہ نہیں کہ تحصیل علم اور تزکیہ نفس غلط ہے۔ اسی طرح تربیت کی فضیلت کا مطلب یہ نہیں کہ تبلیغ میں جانا غلط ہے۔ آپ ایک دینی کام کو بڑھانے کے لئے دوسرے دینی کام کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ دین کے کسی بھی شعبے کے لئے دوسرے کسی شعبے کی مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ 

خیر! عوام کے لئے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ وہ سب کی سنیں اور سب کے فضائل پر عمل کر لیں۔ غلط کسی کو بھی نہ سمجھیں۔ مخالفت کسی کی بھی نہ کریں۔

میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ میں حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ان کی خانقاہ میں گیا تھا۔ ان کی خانقاہ کے بالکل قریب مفتی زر ولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مدرسہ ہے۔ کوئی ایک دو منٹ کا فاصلہ ہے۔ اس وقت ان دونوں حضرات کے درمیان کچھ اختلاف تھا جبکہ میرا دونوں کے ساتھ تعلق تھا۔ میں مولانا زرولی خان صاحب کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے جاتا تھا۔ وہ ہمارے گاؤں کے تھے ہم سے محبت بھی کرتے تھے اور حضرت حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تصوف کے لحاظ سے جاتا تھا کہ ان کے ہاں عصر کے بعد تصوف کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ تو حضرت حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا کر میں نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ میں مفتی زرولی خان صاحب کے ہاں قیام کرتا ہوں اور مفتی زرولی خان صاحب کو کبھی نہیں بتایا کہ میں عصر کے بعد ان کے پاس بھی جاتا ہوں۔ بس نکل جاتا اور پہنچ جاتا۔ کسی کو کبھی نہیں بتایا۔ کیونکہ مجھے اپنا فائدہ عزیز تھا۔ جو ان کی آپس میں علمی بات تھی اس میں میرا کوئی کام نہیں تھا۔ وہ بڑوں کی آپس کی بات تھی۔ الحمد للہ دونوں حضرات سے فائدہ حاصل کیا۔ میرے ساتھ اس طرح کے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ دو حضرات کا آپس میں علمی اختلاف ہوتے ہوئے بھی میرا دونوں کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ میں دونوں کے پاس جاتا اور دونوں سے علم حاصل کرتا۔

اگر وہ لوگ جو صحیح معنوں میں طالبین ہیں وہ اسی طریقہ کو اختیار کر لیں تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ ہم تو اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی بندگی جس رخ پہ ملے گی ہم حاصل کریں گے۔ 

ایک دفعہ میرا رائیونڈ جانا ہوا۔ وہاں ایک بیان میں یہ بات کہی گئی کہ اگر آپ کی کسی علاقے میں تشکیل ہو جائے اور آپ کے پاس اس علاقے تک جانے کے پیسے نہ ہوں تو آپ تشکیل والوں کے پاس جا کر اپنی تشکیل تبدیل کروا لیں۔ کیونکہ اس صورت میں آپ اپنے اور جماعت کے دوسرے ساتھیوں کے لئے مسئلہ ہوں گے۔ اس کے بعد کسی دوسرے بیان میں یہ بات ہوئی کہ جو ٹرین پہ جا رہے ہیں اور ان کی نظر اپنی جیب پر ہے کہ میرے پاس پیسے ہیں یا نہیں۔ وہ پریشانی میں ہے کہ جاؤں یا نہ جاؤں، تو ابھی اس کا کلمہ نہیں بنا۔ یہ دونوں الگ الگ نوع کی باتیں سن کر میں متردد ہو گیا کہ یا اللہ! یہ کیا صورت حال ہے۔ اگر پہلی بات پہ عمل کر لوں تو دوسری کی مخالفت ہے، دوسری پہ عمل کروں تو پہلی کی مخالفت ہے۔ میں تو بہت پریشان ہوا۔ کیونکہ دونوں باتیں ایک ہی جگہ پر ہوئی تھیں۔ اگر الگ الگ جگہ پہ ہوتیں تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہوتا۔ میں سمجھ لیتا کہ دونوں کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ایسے وقت میں شیخ کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب میں وہاں سے واپس گیا تو سیدھا حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری بات عرض کی۔ حضرت ساری بات سن کر مسکرائے اور فرمایا: دیکھو بھائی! سنو سب کی لیکن مانو اس کی جس کو اپنا مربی بنایا ہے۔ ورنہ ایک آپ کو ایک طرف کھینچے گا دوسرا دوسری طرف کھینچے گا اور آپ کا حشر نشر ہو جائے گا۔ 

اب اس بات میں سوال کا اصل جواب آ گیا کہ عام آدمی ایسا شیخ کامل تلاش کرے جو ان سارے شعبوں کو مانتا اور سمجھتا ہو، دین کے کسی شعبے کا انکار نہ کرتا ہو، اور وہی شیخ کامل ہوتا ہے جو ان سب کو مانتا ہو اور ان کے درمیان احقاق حق کر سکتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ عالم بھی ہو۔ ایسا شیخ تلاش کر لیں اور جب بھی ایسی مشکل پیش آئے تو اس کی خدمت میں عرض کر لیں۔ جو راستہ وہ بتائے اس پہ چل پڑیں۔ یہی سہل اور صحیح طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن