حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اور اس سے حاصل ہونے والی تعلیم

سوال نمبر 553

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا“ اتنے میں ایک انصاری آئے جن کی داڑھی سے وضو کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ اگلے دن آپ ﷺ نے پھر وہی بات فرمائی۔ پھر وہی انصاری اسی طرح آئے۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حالت میں آئے۔ جب آپ ﷺ مجلس سے اٹھے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس انصاری صحابی کے پیچھے گئے اور ان سے کہا کہ میرا اپنے والد صاحب سے جھگڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے میں اپنے گھر نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے تین دن اپنے پاس قیام کی اجازت دے دیں۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین راتیں ان کے ساتھ گزاریں لیکن کوئی خاص عمل معلوم نہیں ہوا۔ بالآخر میں نے ان سے دریافت کہ آپ ﷺ نے آپ کے بارے میں تین دفعہ ایسا فرمایا ہے کہ یہ جنتی آدمی ہے۔ لیکن آپ کا کوئی خاص عمل مجھے معلوم نہیں ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے عمل تو وہی ہیں جو تم نے دیکھ لئے، البتہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ اور کینہ نہیں ہے۔ (حیاة الصحابہ جلد دوم صفحہ 83)۔ اس روایت سے حسد اور کینہ کے بارے میں ہمیں کیا باتیں معلوم ہو رہی ہیں اور ان روحانی بیماریوں کا علاج کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

پہلے یہ سمجھ لیں کہ حسد کسے کہتے ہیں۔ کسی آدمی کے پاس کوئی نعمت ہو اور کوئی اس نعمت کو دیکھ کر یہ سوچے کہ یہ چیز اس کے پاس نہ رہے۔ اور اس حسد کا باقاعدہ اثر ہوتا ہے، حاسد اور محسود (جس سے حسد کیا جائے) دونوں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ محسود پر یوں اثر ہوتا ہے کہ بعض اوقات اسے حاسد کی نظر لگ جاتی ہے، اور اس کے پاس وہ نعمت نہیں رہتی۔ نظر لگنا حق ہے، حدیث شریف سے ثابت ہے۔ بلکہ یہاں تک آتا ہے کہ نظر بد کی وجہ سے اونٹ ہانڈی میں اور انسان قبر میں پہنچ جاتا ہے۔ یعنی اس کا اثر اتنا شدید ہوتا ہے۔ اور روحانی بیماریوں کا سبب زیادہ تر یہی حسد اور نظر بد ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست ہیں، کام کے سلسلے میں امارات ہوتے ہیں۔ ان کا واقعہ ہے کہ ایک بار ان کے کسی دوست نے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ اتفاق کی بات ہے اس وقت ان کی جیب میں اس ماہ کی تنخواہ کا چیک موجود تھا، اس نے وہ نکال کر دکھایا کہ اتنی تنخواہ ہے۔ اگلے دن جب وہ دفتر گیا، تو اسے ایک نوٹس ملا کہ آپ کو اس جاب سے ہٹا دیا گیا ہے آپ کا یہ حساب کتاب بنتا ہے، اپنی رقم لے لیں۔ اس کی نوکری ہی ختم ہو گئی۔وہ حیات صاحب کے پاس آئے اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ انہوں نے اسے کہا: ارے سادہ آدمی، اب آپ کو کیا سمجھاؤں، آج کل کے دور میں اپنی نعمت کوئی اس طرح دکھاتا ہے؟ آج کل کسی میں برداشت نہیں ہے، آپ کسی کو اپنی نعمت دکھائیں گے، بس اس کے دل میں ایک برے خیال کا آنا ہے، سمجھو تیر چل گیا اور نشانے پہ لگ گیا۔

بعض لوگوں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ انہیں نظر زیادہ لگتی ہے۔ مجھے بھی بہت زیادہ نظر لگتی ہے۔ بچپن سے ہی میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔تب تو یہ حال ہوتا تھا کہ اگر میں اسکول میں کسی سرگرمی میں حصہ لیتا تو گھر پہنچتے پہنچتے میری طبیعت خراب ہو جایا کرتی تھی اور بخار ہو جاتا۔ پھر ایک خاتون نظر اتارنے کے لئے آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر دے ، وفات پا چکی ہیں۔

یہ تو اس بات کی کچھ تفصیل ہوئی کہ حسد سے محسود کیسے متاثر ہوتا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ خود حاسد پر حسد کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حاسد کو حسد کرنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ سب سے پہلے تو اسے جلن اور کڑھن شروع ہوتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے جسمانی بیماریاں لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ بلڈ پریشر، شوگر، ٹینشن، ڈپریشن، اینگزائٹی اور السر وغیرہ، یہ سب بیماریاں اسی جلنے کڑھنے اور عدم برداشت کا شاکسانہ ہیں۔ اب تو یہ بات باقاعدہ ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کے دل و دماغ کے خیالات اور کیفیات کا اثر جسم پر ہوتا ہے، کئی جسمانی بیماریوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ مریض کے خیالات اور کیفیات میں اعتدال نہیں ہوتا۔ جو لوگ غصہ اور ناراض رہتے ہیں، پریشان اور ڈپریس رہتے ہیں، ان کے جسم پر اس کا اثر ہوتا ہے اور وہ بیمار ہونے لگتے ہیں۔ اور جو لوگ خوش ہوتے ہیں، دل کے وسیع ہوتے ہیں، ان کے ہارمونز بھی صحت مند ہوتے ہیں۔

اب اگر کوئی خوش رہنا چاہے اور اس کا طریقہ یہ اپنائے کہ کسی کے لئے اپنے دل میں کھوٹ نہ رکھے، کینہ نہ رکھے، معاف کردیا کرے، تو اس میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت میں بھی آرام ہو گا۔

اگر کوئی حسد میں رہتا ہے، تو دنیا میں تو پریشانی اور بیماری ہے ہی، آخرت کا نقصان یہ ہے کہ اس کی نیکیاں ایسے جلتی ہیں جیسے آگ لکڑی کو کھاتی ہے۔

حسد سے ایک بیماری پیدا ہوتی ہے جسے کینہ کہتے ہیں۔ کینہ اصل میں چھپا ہوا غصہ ہے۔ یعنی کسی پہ غصہ ہو، اس کو فی الحال تو کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکتا ہو لیکن دل میں ارادہ ہو کہ جب مجھے موقع ملے گا تو اس کو سبق سکھاؤں گا۔ اس غصے کو اپنے دل میں پالنا ، یہ کینہ ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جس کے دل میں کینہ ہو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اور لوگوں کی دعائیں بھی اس کے لئے قبول نہیں ہوتیں۔

چونکہ ان انصاری صحابی کے دل میں کسی کے لئے کھوٹ نہ تھی، انہیں اس کا انعام یہ ملا کہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ جنتی ہے۔ کسی کے لئے دل میں کھوٹ اور کینہ نہ رکھنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اگر کسی کو یہ بات حاصل ہو تو پھر اس کے لئے روز مرہ کے عمومی فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کا درجہ بہت بڑھ جاتا ہے اور اس کے یہ اعمال محفوظ رہتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی مسلمان کے اعمال ضائع ہونے کی اصل وجوہات یہی ہوتی ہیں، غیبت، حسد، کینہ ظلم وغیرہ۔ آپ سارے نیک اعمال کرتے ہیں، لیکن اگر ان کے ساتھ ساتھ دل میں حسد کینہ اور کھوٹ رکھتے ہیں تو یہ اعمال ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ محفوظ نہیں رہتے۔ فائدہ تبھی ہے جب ان اعمال کو محفوظ رکھ کرآخر تک لے جایا جائے۔

یہ ساری بات سمجھنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح ایسی مہلک بیماری سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے سارے نیک اعمال ضائع کر سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اصلاح اس طرح ہو گی کہ مقامات سلوک طے کرنے ہوں گے۔ پچھلے سب گناہوں سے توبہ کرنی ہوگی۔ مستقبل میں گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرنا ہوگا۔ سستی کو دور کرنا ہوگا۔ حرص سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔

یہ حسد حرص کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے اندر سے حرص کا مرض ختم ہو گیا تو آپ کو کسی سے حسد نہیں ہوگا۔ کیونکہ آپ کو سیر چشمی حاصل ہو جائے گی، دل میں لالچ نہیں رہے گا۔

زہد اور صبر کا مقام طے کرنا ہوگا۔ اگر کسی کو زہد و صبر مل جائے تو اس کے دل میں کسی کے لئے کینہ نہیں رہتا۔

اگر ایک انسان یہ تہیہ کر لے کہ میں نے دس مقامات سلوک لازمی طور پر طے کرنے ہیں، تو اس کی اصلاح ہونا شروع ہو جائے گی اور ان شاء اللہ ان بیماریوں سے نجات کے راستے پہ چل پڑے گا۔ نتیجتاً ان کے نقصان سے حفاظت بھی رہے گا اور عمل محفوظ رہیں گے۔ ہاں کوشش کرنا شرط ہے۔

اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 69)

ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔

لہٰذا کوشش کریں کہ شیخ کامل کی تلاش کر کے اپنی پوری اصلاح کرائی جائے، اس کے لئے وقت نکالا جائے اور اس کام کو ہر کام سے اہم سمجھا جائے۔

اصل علاج تو یہ ہے۔ ایک علاج فوری اور وقتی بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر دل میں کسی کے لئے حسد کے خیالات آئیں تو فوراً مَا شَاءَ اللّٰہُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ کہہ کر اس کے لئے خیر و برکت کی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اور نعمتوں اور برکتوں سے نوازے۔ جب آپ اس کے لئے دعا کریں گے تو فرشتے آپ کے لئے دعا کریں گے۔ اس طریقے سے آپ حسد سے بھی بچ جائیں گے، اور فرشتوں کی دعائیں بھی مل جائیں گی۔ اس طریقے پر عمل کر کے آپ حسد سے بچ سکتے ہیں۔

کینہ کا علاج یہ ہے کہ جس کے لئے دل میں کینہ ہو اس کے بارے میں کہیں کہ اسے میں نے اللہ کے لئے معاف کر دیا۔ جب آپ کسی کو اللہ کے لئے معاف کرتے ہیں تو اللہ بھی آپ کو معاف کر دیتا ہے۔

یہ طریقے فوری طور پر حسد اور کینہ سے بچنے کے ہیں۔ جبکہ اصل علاج وہی ہے جو عرض کر دیا کہ اپنی اصلاح کروائیں۔ اصلاح کے بعد روحانی بیماریوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہمیں صحیح طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے ۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن