اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
سوال:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! (ﷺ) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نیک لوگوں کے اعمال کے سردار ہیں اور ان دونوں کو کب چھوڑ دیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں وہ خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! (ﷺ) بنی اسرائیل میں کیا خرابیاں پیدا ہوئی تھیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے نیک لوگ دنیا کی وجہ سے فاجر لوگوں کے سامنے دینی معاملات میں نرمی برتنے لگیں اور دینی علم بد ترین لوگوں میں آ جائے اور بادشاہت جھوٹوں کے ہاتھ لگ جائے۔ تو پھر اس وقت تم زبردست فتنہ میں مبتلا ہو جاؤ گے، تم فتنوں کی طرف جاؤ گے اور فتنے بار بار تمہاری طرف آئیں گے۔
جواب:
آج کل یہ ساری باتیں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نیک لوگ فاجر لوگوں کے سامنے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ ناراض نہ ہوں۔ بادشاہت جھوٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا کہ جب یہ باتیں ہوں تو تم زبردست فتنہ میں مبتلا ہو جاؤ گے، ہم سب فتنوں میں مبتلا ہیں۔
اگر انسان اپنا مقصد دنیا کی زندگی کو سمجھے گا تو دنیا کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر اپنا مقصد آخرت کی زندگی کو بہتر کرنا سمجھے گا تو پھر آخرت کی زندگی کو دنیا کے لئے داؤ پہ نہیں لگائے گا۔ اگر دیندار لوگ دین کے لئے دنیا کو قربان نہیں کر سکیں گے تو پھر وہ دین پر سمجھوتا کریں گے، دنیا پہ نہیں کریں گے۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب دیندار آدمی تھے، اچھے مسلمان تھے۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ ایوب خان کے دور کی بات ہے کہ ایک مجلس میں ایوب خان نے تقریر کی اور تقریر میں بڑے فلسفے بھگارے کہ فلاں کام ایسا ہونا چاہیے اور فلاں کام ویسا ہونا چاہیے۔ ایک قادیانی افسر اٹھا اور اس نے کہا کہ جناب صدر ہم تو حیران ہو گئے ہیں۔ آپ کی تقریر سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپ کو پیغمبرانہ بصیرت دی گئی ہو۔ قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ میں ڈر گیا کہ اس خوشامد سے ایوب خان کہیں بھٹک نہ جائے اور واقعی یہ نہ سمجھ لے کہ مجھ میں پیغمبرانہ صلاحیتیں ہیں۔ میں اٹھا اور میں نے اس سے بھی زیادہ با ادب انداز میں کہا کہ حضرت یہ لوگ جو آپ کی خوشامد کر رہے ہیں یہ پیغمبری میں بھی دو نمبر کرتے ہیں اور نقلی پیغمبر بھی مانتے ہیں، ان کی باتوں میں آکر کہیں حضور اپنا ایمان خراب نہ کر بیٹھیں۔ تو وہ قادیانی افسر غصہ سے لال پیلا ہو گیا اور مجھ سے لڑنے پہ اتر آیا اور بات اس حد تک پہنچی کہ ایوب خان کو خود صلح کروانا پڑی۔ لیکن کم از کم میں نے ان تک اپنا پیغام ضرور پہنچا دیا۔
ایک بار میں اور میرے تین ٹیچرز آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک ٹیچر نے کہا کہ آئن اسٹائن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا آئن سٹائن بہت بڑا سائنسدان تھا، بڑا نام کمایا، اسے لوگوں نے بہت عزت دی۔ کہتے ہیں یہ بتائیں وہ جنت میں جائے گا یا نہیں؟ میں نے کہا یہ میرا domain نہیں ہے، اس بارے میں بھلا میں کیا کہہ سکتا ہوں، یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے۔ اللہ پاک نے قانون بنایا ہے کہ ایمان والا ہی جنت میں جائے گا۔ میری معلومات کے مطابق تو وہ کفر کی حالت میں مرا تھا، اگر آپ کو پتا ہو کہ وہ ایماندار تھا تو ثبوت دے دیں، ہم بھی خوش ہو جائیں گے کہ چلو وہ مسلمان تھا۔ یہ سن کر ان میں سے ایک نے کہا کیا جنت میں جانے کے لئے ایمان لانا ضروری ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! بغیر ایمان کے تو جنت میں کوئی نہیں جا سکتا۔
کہنے لگے کہ یہ بات تم حدیث سے ثابت کرو گے تو میں اس حدیث کو نہیں مانتا جو قرآن کے خلاف ہو۔
میں نے کہا: سر ماشاء اللہ آپ ایک بڑے سائنسدان ہیں۔ اگر کوئی مولوی منبر پر بیٹھ کے فزکس کی کسی بات کو غلط طریقے سے بیان کرے تو آپ کو حق ہے کہ آپ اسے روکیں کہ بھئی یہ آپ کی فیلڈ نہیں بلکہ میری field ہے۔ اگر آپ اس مولوی پر فزکس کی بات غلط طریقے سے بیان کرنے پہ اعتراض کریں گے تو آپ کا یہ اعتراض کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے ساری زندگی الیکٹرون پروٹون میں گزاری ہے، جب کہ اس نے یہ چیزیں نہیں پڑھیں۔ اس بارے میں تو آپ کی بات درست ہو گی۔ لیکن دین کی بات میں ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ اگر آپ ایک عالم اور مولوی نہیں ہیں تو آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ حدیث قرآن کے مقابلے میں ہے یا نہیں، اس کو مانا جائے گا کہ نہیں، یہ بات وہ بتائے گا جو صحیح مولوی ہو گا۔ یہ بات سائنسدان نہیں بتائے گا، کیونکہ یہ سائنس کی domain ہی نہیں ہے۔
اس پر دوسرا ٹیچر کہنے لگا، شبیر اپنی سوچ ذرا وسیع رکھو اتنی تنگ نظری نہ کرو۔
میں نے کہا: sir اتنا تنگ نظر رہنے دیں کہ ایمان اور کفر میں فرق کر سکوں۔ اپنی سوچ اتنی وسیع نہیں کر سکتا کہ ایمان ہی نہ رہے۔ یہ میری مجبوری ہے، میں اپنے ایمان کو بچانا چاہتا ہوں۔
لہٰذا دین کے معاملے میں کبھی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے، دنیا کے لئے دین کی بات کو موڑنا اور توڑنا درست شیوہ نہیں ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو درست سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن