اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ!
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم کے صفحہ نمبر 235 پر قرآن پاک کے اعجاز کے بارے میں ایک اہم نکتہ بیان فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اہلِ عرب جو قرآن مجید سُن کر اسلام قبول کر لیتے تھے وہ صرف فصاحت و بلاغت کی بناء پر کرتے تھے جب وہ دیکھتے تھے کہ کسی اور شاعر یا خطیب کا کلام ایسا فصیح و بلیغ نہيں ہے تو وہ اسلام قبول کر لیتے تھے لیکن قرآن پاک کا اعجاز جس قدر عبارت و انشاء میں ہے اس سے کہيں زیادہ معانی اور مطالب ميں ہے۔ قرآن اپنے مطالب کو اس طرح ادا کرتا تھا کہ خود بخود وہ دل میں گھر کر جاتے تھے ان کو یہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ ان باتوں کو اس لئے مان رہے ہیں کہ مسلمان ہو چکے ہیں بلکہ یہ باتیں براہ راست اُن کے دل میں اُتر جاتی تھیں اور وہ مسلمان ہو جاتے تھے۔ یہاں حضرت نے قرآن پاک کے معانی و مطالب کا معجزہ قرآن پاک کے اندازِ بیان سے زیادہ بڑا معجزہ قرار دیا ہے اور اہل عرب کے متاثر ہونے کے لئے قرآن پاک کے معانی و مطالب کو زیادہ موثر قرار دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے زمانے میں جو عرب تھے وہ شعر و شاعری اور فصاحت و بلاغت کو سمجھتے تھے لیکن آج کل جو مسلمان ہیں خصوصاً غیر عرب مسلمان وہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کیا اس کے لئے مسلمانوں کو بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی اور کیا اس سے آسان راستہ مراقبہ حقیقت قرآن کا نہیں ہے؟
جواب:
در اصل کسی چیز کو حاصل کرنے میں جو چیز رکاوٹ ہوتی ہے وہی رکاوٹ دور کرنے سے وہ چیز ملتی ہے۔ چنانچہ اگر زبان کا نہ سمجھنا رکاوٹ ہے تو اس کو دور کرنا چاہیے۔ جب آپ الفاظ سے سمجھیں گے تو دو قسم کی باتیں سامنے آئیں گی۔ ایک الفاظ کا جوڑ، الفاظ کی ادائیگی، الفاظ کا حسن صوت، اس کو فصاحت و بلاغت کہتے ہیں۔ قرآن میں فصاحت و بلاغت بے انتہا ہے اور ان کے معنی اس انداز سے ہوتے ہیں جو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں۔ دونوں باتوں میں جنت کا ذکر ہے۔ جیسے ہم بھی بات کرتے ہیں اور اللہ بھی بات کرتے ہیں۔ ہم جب بات کرتے ہیں تو ہمارا نفس بھی اس میں involve ہوتا ہے لہذا اگر ہم غصے میں ہیں تو ساری باتیں غصہ میں کریں گے، اس وقت ہمیں ان کی اچھائی نظر نہیں آ رہی ہو گی حالانکہ ان کے اندر اچھائی بھی ہو گی۔ لیکن ہم ایک ہی رخ کی بات کریں گے۔ اور اگر mood میں ہوں گے تو اس کی برائی نظر نہیں آئے گی۔ یہ برابری نہیں ہے۔ جبکہ اللہ جل شانہ کسی سے بھی متاثر نہیں ہے، جس کی وجہ سے اللہ پاک کی قدرت و ارادے میں فرق پڑے۔ اللہ تعالیٰ کسی بات کو بھولتے بھی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر ہیں۔ اللہ پاک چونکہ اپنے ارادے سے بات کرتے ہیں لہٰذا جس کے لئے جو بات جس طرح مناسب ہو اس طرح کر لیتے ہیں۔ سختی بھی مناسب طریقے سے اور نرمی بھی مناسب طریقے سے۔ انسان کی کمزوریوں کو بھی اللہ پاک جانتا ہے اور اس کی خواہشات کی limitletness بھی جانتا ہے، چنانچہ اس کے حساب سے بات کرتا ہے۔ معلوم ہوا یہاں معانی اور مطالب کی بات ہے۔ مثلاً مصر میں کچھ علماء اسکالرز تھے۔ در اصل اسکالرز کو بھی علماء ہی کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں علماء، دین کا علم جاننے والے کو کہتے ہیں۔ باقیوں کو ہم علماء نہیں کہتے بلکہ اسکالرز کہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ بہر حال کچھ اسکالرز آپس میں discuss کر رہے تھے کہ قرآن میں بڑی بلاغت ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آئی۔ کیوں کہ وہ مصری عرب تھے تو ان کے ساتھ ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: میں بتاتا ہوں۔ آپ لوگ یہ بتائیں کہ آپ اگر عربی میں کہنا چاہیں کہ جہنم بہت زیادہ وسیع ہے تو کیسے کہیں گے؟ کسی نے کہا: "اِنَّ جَہَنَّمَ لَوَسِیْعٌ" یعنی الفاظ مترادفات کہنے لگے۔ اس شخص نے کہا: قرآن میں یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے: ﴿یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ﴾ (ق: 30)
ترجمہ: ”وہ وقت (یاد رکھو) جب ہم جہنم سے کہیں گے: کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے؟“
یہ سن کر انہوں نے اپنی رانیں پیٹ لیں اور کہا: واقعی قرآن کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ بلاغت ہے۔ جو متاثر نہیں ہو رہے تھے وہ بھی متاثر ہو گئے۔ صرف ان کا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا۔ سورۂ شمس میں ہے: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8) یہ صلۂ خبر کہلاتی ہے۔ لیکن اس کو سامنے لانے کے لئے اللہ تعالیٰ قسمیں کھا رہا ہے۔ فرمایا: ﴿وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا 0 وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا 0 وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا 0 وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا 0 وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا 0 وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا 0 وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا﴾ (الشمس: 1 تا 7) یہ قسمیں کھا کر جو بات کہنی ہے اس کے لئے میدان بنا لیا۔ پھر جوابِ قسم کے طور پہ فرمایا: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: ”پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو بد کاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیز گاری کی ہے۔“
آگے فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9، 10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
یعنی جو اختیار دیا گیا ہے اس پہ عمل کرنے یا نہ کرنے میں اور کس طرح عمل کرنے اور کس طرح عمل نہ کرنے میں کیا ہو گا۔ وہ فوراً اس کے بعد بتا دیا کہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9، 10) اور کمال کی بات یہ ہے کہ قرآن unnecessary ایک لفظ بھی نہیں کہتا۔ جہاں پر آپ کو غور کرنے کی ضرورت ہو وہ بات آپ کے غور کرنے پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ایک منظر کشی ہے اور دوسرا سمجھنے کے لئے راستہ دینا اور تیسرا ان چیزوں کو ایسا expose کرنا کہ آپ کا دل گواہی دے کہ بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہ قرآن کا اعجاز ہے جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ چونکہ وہ عرب شاعر تھے، ان کو معلوم تھا کہ ہم اس موضوع کی باتوں کو شعر میں نہیں لا سکتے ہیں جس طرح قرآن پاک نے accommodate کی ہیں۔ یہ واقعی معجز کلام ہے۔ وہ دو طرح سے اس سے متاثر ہوتے تھے، اس کی بلاغت سے بھی متاثر ہوتے تھے اور اس کے معانی جو دل پہ اثر کرتے تھے ان سے بھی متاثر تھے۔ ہمارے علماء جو واقعی علم کے اس درجے میں پہنچ گئے ہیں کہ براہ راست قرآن پاک سے اخذ کر سکتے ہیں تو ان کے اوپر اسی طرح کا اثر ہوتا ہے۔ قرآن کو ایسے عجیب انداز سے پڑھتے اور بیان کرتے ہیں کہ دوسرے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی وجہ سے اللہ پاک نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ”یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔“
یعنی اگر آپ دل والے سے قرآن سے سنیں گے تو پھر آپ کے اوپر بھی اس کا اثر ہو گا بشرطیکہ آپ اس کی طرف مکمل متوجہ ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں ﴿اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ﴾ پر ہی عمل کرنا پڑے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن