اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ!
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت نفیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزرا۔ اس نے کہا کہ کتنی خوش قسمت ہيں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم ہمیں تو تمنا ہی رہی کہ جو کچھ آپ نے دیکھا، ہم بھی دیکھ لیتے اور جن مجلسوں میں آپ حاضر ہوئے ہم بھی ان میں حاضر ہوتے۔ حضرت نفیر رضی اللہ عنہ کہتے ہيں کہ اس آدمی کی بات سُن کر حضرت مقداد رضی اللہ عنہ غضبناک ہوئے، مجھے اس پر تعجب ہوا کہ اس نے تو ایک اچھی بات کہی تھی۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے اُس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں شریک نہیں ہونے دیا تم اس مجلس میں شریک ہونے کی تمنا کیوں کرتے ہو؟ کیا پتا اگر تم اُس مجلس میں شریک ہوتے تو تمہارا کیا حال ہوتا؟ اللہ کی قسم بہت سے لوگوں نے حضور ﷺ کو دیکھا لیکن ان کو اللہ تعالیٰ نے منہ کے بل دوزخ ميں ڈال دیا کیونکہ اُنہوں نے حضور ﷺ کی دعوت کو قبول نہيں کیا۔ کیا تم اس پر شکر نہیں کرتے کہ اس نے جب تم کو پیدا کیا تو تم اپنے رب کو پہچانتے تھے اور حضور ﷺ جو کچھ لے کر آئے تھے تم اُسے سچا مانتے تھے۔ حیاۃ الصحابہ، جلد اول میں صفحہ نمبر 326 پر یہ موجود ہے۔ اس دنیا ميں آپ ﷺ کی رفاقت کا حاصل ہونا ایک بہت اعلی مقام ہے اور یہ مقام کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتا لیکن اس واقعے میں ایک تابعی نے آپ ﷺ کی رفاقت کی تمنا کی لیکن مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ناراضگی ظاہر فرمائی۔ اس کی وضاحت فرمائیں؟
جواب:
عموماً جو کچھ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کو حاصل کر سکتا ہے، اس سے بے پرواہ ہوتا ہے اور جو چیز اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بزرگوں نے فرمایا ہے: ماضی کے بارے میں بھی اتنا نہ سوچو، بس جو غلطیاں کی ہیں ان پہ توبہ کرو، یہ کافی ہے اور مستقبل کے بارے میں بھی اتنا نہ سوچو۔ حال کے بارے میں زیادہ سوچو۔ جو حال آپ کو اللہ نے دیا ہے اس حال کو آپ قابو کریں۔ یعنی اس میں عمل کر لیں۔ مثال کے طور پر اس وقت میں بیٹھا ہوں، میں ذکر بھی کر سکتا ہوں، تلاوت بھی کر سکتا ہوں، کوئی مفید بات بھی کر سکتا ہوں، اگر مکروہ وقت نہ ہو تو نماز بھی پڑھ سکتا ہوں۔ اگر میں اس کی پرواہ نہ کروں اور وقت ضائع ہونے دوں اور ماضی پر روتا رہوں کہ میں نے بہت وقت ضائع کیا وغیرہ۔ اسی طرح مستقبل کے بارے میں بھی سوچتا رہوں تو یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے بلکہ صرف حال کے ساتھ deal کر سکتے ہو۔ مستقبل کی بھی پرواہ حال کے ذریعے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مستقبل کچھ ہی عرصے میں حال بن جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم مستقبل کے لئے حال میں تیاری کرو گے۔ اگر آپ نے حال کا فائدہ نہیں اٹھایا تو آپ کا مستقبل خطرناک ہو گا۔ مستقبل کی بھی صحیح سوچ حال کے مطابق ہے، جو قال کے طریقے سے ہو گی۔ اور ماضی میں بھی حال ہی کی بات ہے۔ مثلاً ماضی میں آپ نے بڑے بڑے گناہ کئے تو حال میں توبہ کرو۔ اور جو آپ کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا تو اس سے عبرت حاصل کر کے اب کرنا شروع کر دو۔ معلوم ہوا جو حال کی حفاظت کرتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے۔ اگر اس بات پر غور کر لیں تو حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے اس پر شکر کرو اور اس کو صحیح استعمال کرو۔ اب اللہ پاک نے مسلمانوں میں پیدا کیا ہے تو اس پہ ہمیں بہت شکر کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ آپ ﷺ کے وقت میں ہم کیوں نہیں تھے؟ یہ فیصلہ اللہ کا تھا اور اللہ کے فیصلے پہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے وقت میں جن لوگوں نے آپ ﷺ کی بات کو نہیں سمجھا اور اس پر عمل نہیں کیا تو وہ کافر ہو گئے۔ کیونکہ آپ ﷺ کے ساتھ اختلاف ممکن نہیں تھا جو اختلاف کرتا وہ کافر ہو جاتا۔ اگر اللہ پاک نے اس امتحان سے بچا لیا اور ہمیں ایسے حالات میں پیدا فرمایا کہ وہ خطرہ نہیں ہے لیکن آپ ﷺ کا پیغام محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچ گیا اور اس پر ہم عمل کر سکتے ہیں تو اس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ انہی حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم اس پر شکر کیوں نہیں کرتے! اور کچھ لوگوں نے با قاعدہ آپ ﷺ کی مجلس میں آپ ﷺ کو کئی بار دیکھا لیکن انہوں نے نا شکری کی اور قدر نہیں کی نتیجتاً وہ کافر ہو گئے اور جہنم کے اندر گر پڑے۔ ہم لوگوں کے ساتھ جو ہمارا نفس ہے، اگر یہی ہمیں نَعُوذُ بِاللهِ مِن ذَالِک آپ ﷺ کے خلاف اکساتا اور ہم اس کی بات پر عمل کرتے تو کافر ہو جاتے۔ اب اگر ہم علماء سے اختلاف کرتے ہیں تو یہ کفر نہیں ہے البتہ غلط اور نقصان کی بات ہے۔ لیکن کم از کم یہ بات کفر تک نہیں لے جاتی۔ اگر اللہ پاک نے ہمیں محفوظ فرمایا ہے تو اس پر ہمیں اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ نہ مستقبل کو روو، نہ ماضی کو روو، بس حال کو استعمال کرو۔ مستقبل کے لئے بھی حال ہے اور ماضی کے لئے بھی حال ہے۔ لہذا ہمیں اپنے حال کو درست کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن