کیا ربیع الاول کی مبارک باد دینا درست ہے؟

سوال نمبر 546

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ!

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہے۔ اس مہینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ باتیں آئی ہیں۔ مثلاً حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک باد دی اس پر جنت واجب ہو گی۔ اس کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ جیسے لوگ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں اسی طرح اس مہینے کی چونکہ آپ ﷺ سے نسبت ہے اس لئے اس کی بھی مبارک باد دیں۔ کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

در اصل ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور آپ ﷺ پر کوئی مسلمان جھوٹ نہیں باندھ سکتا، چاہے کتنی ہی اچھی نیت سے باندھے۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں حدیث شریف میں ہے "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ" (سنن الترمذی،حدیث نمبر: 2257)

ترجمہ: جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

.چنانچہ سوال میں جس حدیث کا ذکر کیا گیا اس کی سند کے لحاظ سے تحقیق کی جائے گی۔ کیونکہ ابھی تک اس کی کوئی سند سامنے نہیں آئی۔ اور سوال میں بھی اس کی سند ذکر نہیں کی گئی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ تصوف کی کسی بات کے بارے میں فرمایا: ”ما را قول امام ابو حنیفہ و امام شافعی درکار است“ ہمارے لئے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا قول چاہیے۔ ہمارے لئے اس میں جنید اور شبلی کے قول کی ضرورت نہیں ہے۔ جنید اور شبلی رحمۃ اللہ علیهما کا مقام تصوف میں بہت اونچا تھا لیکن یہ چونکہ تحقیقی اور علمی بات تھی تو اس کی بھی علمی دلیل ہو گی۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: "إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) تمام اعمال جن کے بارے میں صحیح طور پہ ثابت ہو کہ وہ دین کے اعمال ہیں اور ثابت ہونے کے ساتھ ان میں نیت بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ کسی بھی عمل میں اچھی نیت کر لو تو وہ عمل قبول ہو گا۔ کیونکہ (نعوذ بالله) آپ کسی کو قتل کرنے میں اچھی نیت کر لیں تو اس میں شریعت کی بات پر عمل ہوگا نہ کہ آپ کی نیت پر۔ بعض جاہل لوگ کچھ جاہلوں کے کہنے پر اپنے بچے کو قتل کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں: میں قربانی دے رہا ہوں۔ تم ابراہیم علیہ السلام تو نہیں ہو، ان کا خواب تو وحی تھا۔ تمہارا خواب بھی وحی نہیں ہے، تمہارا قول بھی وحی نہیں ہے۔ تمہاری کیا حیثیت ہے؟ تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی سنت پوری کر رہا ہوں؟ تمہیں حضور ﷺ کے طریقے پہ چلنا ہے۔ یہاں پر ہمیں سند چاہیے تب اس کے اوپر یقین کیا جا سکتا ہے۔ جب تک ہمارے پاس سند نہیں ہو گی، ہم اس کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ یہ اس کی علمی دلیل ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے میلاد النبی بھی نہیں منایا، تابعین نے بھی نہیں منایا، تبع تابعین نے بھی نہیں منایا۔ اس کی مبارک باد کیسے دی جا سکتی ہے؟ اگر ثابت ہو جائے کہ عید ہے تو ٹھیک ہے لیکن صرف دو عیدیں ثابت ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ اور جمعہ کے دن کو عید کی طرح کہا گیا ہے۔ اس میں سفید صاف کپڑے پہنے جاتے ہیں اور صفائی وغیرہ ہو جاتی ہے۔ گویا یہ جمعے کا دن عید کی طرح ہے لیکن عید نہیں ہے۔ عیدَین کا لفظ آتا ہے یعنی دو عیدیں۔ یہاں پر تثنیہ کا قاعدہ ہے۔ اس ایک لفظ سے پتا چل گیا کہ صرف دو عیدیں ہیں اس کے علاوہ کوئی اور عید نہیں ہے۔ اپنی طرف سے آپ خوشی کا دن کہہ دیں تو آپ کے لئے خوشی کا دن ہو گا لیکن عید نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی میں بہت سے خوشیوں کے دن آتے ہیں تو کیا ساری عیدیں ہو جائیں گی؟ چنانچہ آپ ﷺ کے صحابہ نے ربیع الاول کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا ہم بھی وہی کریں۔ تابعین نے جو رویہ اختیار کیا تھا ہم بھی وہی اختیار کریں اور تبع تابعین نے جو رویہ اختیار کیا ہم اسی طرح کریں گے۔ کیونکہ حدیث مبارکہ میں تین زمانوں کا بتایا گیا ہے: "خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُم" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 2508) ترجمہ: "تم میں سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں ، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔‘‘ ان تین زمانوں میں جو بات ثابت ہوگئی تو ہو گئی اس کے بعد کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یہ سب باتیں ابھی دو سو سال پہلے شروع ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس قسم کی باتیں بنانا بالکل غلط ہے۔ اس کو دین کہنا بدعت ہے۔ اور کوئی دین نہ کہے بلکہ ویسے ہی کریں تو لغو بات ہے۔ اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ البتہ اگر یہ چیز دین کی کسی بات کے لئے ذریعہ ہوتی تو پھر ٹھیک تھی کیونکہ ذریعے پہ پابندی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر درود شریف کی کثرت کسی چیز کا ذریعہ بنالو تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر آپ کہیں کہ صرف درود شریف زیادہ پڑھنا چاہیے باقی اذکار رہنے دو تو یہ بدعت ہو جائے گی۔ کیونکہ آپ نے اپنی طرف سے ایک نیا قانون بنا لیا۔ آپ درود شریف ایک دن میں ایک لاکھ بار پڑھ لیں اور دوسرے دن بالکل نہ پڑھیں تو آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کہیں کہ جس وقت میں نے ایک لاکھ بار پڑھا تھا تو اس سے بھی زیادہ پڑھنا چاہیے تھا تو یہ قانون ہے۔ نہیں! یہ تمہارا اختیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر امام نماز کے بعد مقتدیوں کی جانب دائیں طرف سے بھی مڑ سکتا ہے اور بائیں طرف بھی مڑ سکتا ہے۔ لیکن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: جس نے نماز کے بعد اپنے آپ پر دائیں طرف مڑنا لازم کر لیا اس نے اپنی نماز میں شیطان کا حصہ بنا دیا۔ کیونکہ ہم نے آپ ﷺ کو بائیں طرف بھی مڑتے دیکھا ہے۔ حالانکہ عام قانون یہ ہے کہ دائیں طرف سے اچھا کام شروع کیا جاتا ہے۔ اس قانون کی رو سے اگر کوئی دائیں مڑتا تو اس میں کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن چونکہ آپ ﷺ بائیں طرف بھی مڑے ہیں تو آپ ﷺ کے کسی کام کو کم نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا اب دونوں طرف والی بات ہو گی۔ اگر صرف ایک طرف کو مختص کیا جائے گا تو یہ اپنی طرف سے اضافی بات ہو جائے گی۔ اس کو دین کی بات نہیں کہا جا سکے گا۔ البتہ ایک آدمی بیمار ہے اور بائیں طرف مڑ ہی نہیں سکتا تو اس پر پابندی نہیں۔ لیکن تم اپنے اوپر لازم بھی نہ کرو۔ البتہ آزاد رہو تو پھر بے شک آپ دائیں طرف مڑو، چاہے بائیں طرف مڑو، چاہے نہ مڑو۔ آپ بالکل سیدھے بیٹھ جائیں تو یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ معلوم ہوا شریعت نے جن باتوں کی اجازت دی ہے وہ اجازت کوئی ختم نہیں کر سکتا اور جن باتوں کی اجازت نہیں دی، ان کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جیسے حلال کو حرام نہیں کہا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں صورتوں میں پابندی ہے۔ ہم تو پابند ہیں، ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بنا سکتے، جنہوں نے بنائی ہیں وہ ذمہ دار ہیں، وہی اس کا جواب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن