ملت ابراہیمی میں شامل ہونے کا مفہوم

سوال نمبر 272

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ یہ اعلان کریں ﴿قُلْ اِنَّنِیْ هَدانِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾ (الانعام: 161) ”اے پیغمبر کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے ابراہیم علیہ السلام کا دین جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کیا ہوا تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔“

یہاں آپ ﷺ کو فرمایا کہ ملت ابراہیمی میں ہونے کا اعلان کرو۔ جب آپ ﷺ ملت ابراہیمی میں شامل ہو گئے تو آپ ﷺ کی ساری امت ملت ابراہیمی کی ملت میں شامل ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو صحیفے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے اور پھر بعد میں اور بھی انبیاء علیہ السلام تشریف لائے ان پر جو کتابیں نازل ہوئیں سب پر ہمارا ایمان ہے لیکن عمل ہمارا قرآن پر ہے۔ تو پھر یہاں خصوصیت کے ساتھ ملت ابراہیمی میں شامل ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب:

ہر چیز نشو و نما کے ذریعے سے ترقی کرتی رہتی ہے اور اللہ جل شانہ نے قدرتی نظام بنایا ہوتا ہے جس کے مطابق وہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ سارے انبیاء اللہ جل شانہ کی طرف سے تھے ان میں کوئی تخصیص نہیں ہے، اس معاملے میں سارے پیغمبر برابر ہیں کیونکہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے۔ اسی طرح ساری کتابیں جو پیغمبروں پر اتاری گئی ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس میں بھی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے ہیں یا انسان کو جو حالات پیش آتے ہیں ان میں ایک رویہ اختیار کرتا ہے جو balance سے out ہو سکتا ہے۔ اس کو balance پر لانے کے لئے اس کا دوسرا رخ سامنے لایا جاتا ہے، اس پہ زیادہ زور دیا جاتا ہے تاکہ اس کا جو balance out ہوا ہے وہ واپس آ جائے۔ لیکن اس سے بھی کسی اور direction میں balance out ہو جاتا ہے تو پھر اس کو balance کرنے کے لئے کچھ اور کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جب تک کہ وہ مکمل نہ ہو۔

اسی طرح پہلے پہل بہت سادہ احکامات تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے کجی اختیار کی جس کو درست کرنے کے لئے اور پیغمبر آئے انہوں نے اس کو ٹھیک کیا لیکن کچھ لوگوں نے اس سے کچھ اور اثر لے لیا اور پھر اس کے بعد اور پیغمبر آ گئے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کا ایک خاص رنگ ہے، ایک خاص چیز پر انہوں نے زور دیا ہے یعنی حنیفیت پر۔ کٹ کٹا کے اللہ پاک کا ہو جانا۔ اور شرک سے بہت دور ہونا۔ تو ملت ابراہیمی آگے والوں کے لئے ایک بنیاد ہے۔ بنیاد تو یہی رہے گی لیکن بعد میں آنے والے پیغمبروں نے اپنے وقت اور حالات کے لحاظ سے اس میں مزید چیزیں شامل فرمائيں۔ جیسے موسی علیہ السلام کے لئے اپنے حالات تھے، عیسی علیہ السلام کے لئے اپنے حالات تھے۔ پھر جب آپ ﷺ کا دور آیا تو اس وقت بھی شرک بہت زوروں پر تھا جس کو دور کرنے کے لئے ملت ابراہیمی کی طرف خاص اشارہ کیا گیا۔ تو آپ ﷺ کو اعلان کرنے کا فرمایا کہ میں ملت ابراہیم میں سے ہوں یعنی ابراہیم علیہ السلام بھی شرک ختم کرنے کے لئے آئے تھے اور میں بھی شرک ختم کرنے کے لئے آیا ہوں۔

اس میں دو بہت بڑی باتیں سامنے آ گئیں، چونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے اسی وجہ سے مکہ مکرمہ آباد ہوا ہے۔ تو ملت ابراہیمی بنیاد ہے توحید کی۔ ملت ابراہیمی میں تو ان بتوں کو دور کرنا تھا، تم لوگوں نے خانہ کعبہ میں بت کیسے رکھے؟ اور بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو لات و عزی وغیرہ کی؟ ابراہیم علیہ السلام تو ان تمام چیزوں سے پاک تھے۔ میں انہیں کی ملت پر ہوں، صرف اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوں، مشرکین میں سے میں نہیں ہوں۔ دوسری طرف یہود و نصاری کے بھی آباء ہیں ابراہیم علیہ السلام تو ملت ابراہیمی میں سے ہونے کی وجہ سے ان کے لئے بھی پیغام تھا کہ مجھے آپ لوگ اپنے سے جدا نہ سمجھیں کیونکہ میں بھی ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں اور ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر ہوں، ابراہیم علیہ السلام کی ملت پہ ہوں۔ باقی عمل کا تعلق وقت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ قرآن پاک جو آخری کتاب ہے اس میں بھی بعض آیتیں ایسی ہیں جن کا حکم منسوخ ہو چکا ہے، تلاوت جاری ہے۔ جیسے وصیت والی آیت ﴿اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ﴾ (البقرۃ: 180) جب موت کا وقت آ جائے اس وقت اپنے والدین کے لئے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کریں۔ لیکن اس آیت پر عمل نہیں ہے کیونکہ یہ آیت ﴿یُوْصِیْكُمُ اللهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ﴾ (النساء: 11) کے ذریعے سے منسوخ کرا دی گئی۔ اس کی تلاوت ہم کر رہے ہیں لیکن آیت پر عمل منسوخ ہے۔

دوسری طرف بعض ایسی آیات کریمہ ہیں جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے لیکن حکم باقی ہے۔ جب قرآن کے اندر ایسا ہے تو باقی کتابوں کا آپ کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں؟ دیگر آسمانی کتابوں میں لوگوں نے تحریف کی ہے جس کی وجہ سے ان پہ حکم نہیں ہے کیونکہ اب قرآن مکمل ہے۔

ایک دفعہ جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تورات پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ نے ان کو دیکھا تو آپ ﷺ کی طبیعت بہت متغیر ہو گئی۔ یہ دیکھ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: عمر تیری ماں تجھے روئے، تجھے پتا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو فوراً عرض کی "رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَّبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَّبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا" مسلسل یہ کہنے لگے حتی کہ حالات normal ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر یاد رکھو اگر موسی علیہ السلام بھی اب آئیں گے تو ان کو بھی میرے طریقے پہ چلنا پڑے گا۔ اور عیسی علیہ السلام آئیں گے تو آپ ﷺ کے طریقے پر ہی چلیں گے۔

بہرحال اللہ جل شانہ ہم سب کو تمام پیغمبروں کے ساتھ محبت اور ان پر حق کا ایمان نصیب فرمائے اور آپ ﷺ کی اتباع نصیب فرمائے اور قرآن پاک پر عمل نصیب فرمائے جو کہ اللہ پاک چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی چاہت والی چیزوں کی طرف راغب فرما دے اور اس کے لئے قبول فرما لے۔

وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ