توکل کا صحیح مفہوم اور اس کی عملی کوشش

سوال نمبر 271

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ جلد 5 میں توکل کے باب میں جس طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے اور ہر نبی نے اپنی قوم کو یہ بات فرمائی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قوم اور آپ ﷺ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے تھے وہ بھی توکل کے صحيح مفہوم کو جانتے تھے کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ (ابراھیم: 4) توکل کا مفہوم اس دور میں کفار بھی صحيح طور پر سمجھ رہے تھے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن پاک میں اس توکل کی دعوت طرف دی تھی۔ آج کل ہمارے ہاں توکل کا جو مفہوم عام ہے اس سے انسان بے عملی کی طرف جاتا ہے، تو کیا توکل عملی طور پر حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی کوشش ضروری ہے کہ اس کا صحيح مطلب سمجھا دیا جائے، پھر اس کے حصول کی طرف دعوت دی جائے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب کفار کو یہ مفہوم صحيح طور پر واضح تھا تو ہم مسلمان الحمد للہ ان سے کافی بہتر ہیں پھر توکل کا صحيح مفہوم معلوم نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

جواب:

اس سوال پر میرا سوال ہے کہ کفار کو اگر توکل کا صحیح مفہوم معلوم تھا تو کیوں نہیں کیا؟ اس کا مطلب ہے کہ لغوی معنی کا پتا تھا لیکن ان کے عقائد جو شیطان اور نفس کی وجہ سے بنے ہوئے تھے اس میں یہ مفہوم جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ نہیں مانتے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ وہ شرک کرتے تھے، تو شرک کیا توکل کے مطابق ہے؟ ہم کہتے ہیں اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے لیکن وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ بتوں پہ کرتے تھے اور ہر چیز کے لئے اپنا بت اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا تھا۔ تو توکل کا صحیح مفہوم عملی طور پر ان کو حاصل نہیں تھا۔ البتہ توکل کا لغوی مفہوم ان کو حاصل تھا کیونکہ عرب تھے۔ اب بھی عربوں کو توکل کا لغوى معنی معلوم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کو ان کے عقائد برگشتہ کر رہے تھے شیطان کے ذریعے سے۔ اور ہمیں نفس کی خواہشات برگشتہ کرتی ہیں اور شیطان بھی ہمارے ساتھ ہے جس کی وجہ سے توکل کا صحیح مفہوم نہیں آتا۔ لغوى معنی تکیہ کرنا، بھروسہ کرنا، یہ ہم سب کو پتا ہے لیکن ہمارا مشاہدہ جو کچھ کہتا ہے اور اللہ پاک کا جو وعدہ ہے وہ بعد میں آنے والا ہے اور اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القيامَة: 20-21)ہرگز نہیں بلکہ تم فوری چیز کو لیتے ہو بعد والی چیز کو چھوڑتے ہو“ اللہ تعالیٰ کے وعدے کا بعد میں ظہور ہو اور فوری طور پر جو چیز موجود ہے اس کی وجہ سے کبھی کبھی لالچ میں، کبھی ڈر کی وجہ سے انسان غیر اللہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور وہ توکل کا توڑ ہے۔ اصل میں ہمارا نفس باقاعدہ دل پر بھی اثر کرتا ہے اور عقل پر بھی اثر کرتا ہے۔ جو فوری عقل ہے، ایک ہوتی ہے deep عقل، deep thinking کا موقع ملے گا تو کریں گے۔ مثال کے طور پر مشاہدہ میں ہے کہ آگ میں ہاتھ ڈالو گے تو جل جاؤ گے، تو یہ آگ پہلے ہے، جلدی ہے، قریب ہے، لہذا ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے لیکن کوئی شخص کسی غير محرم کو دیکھتا ہے اور اس کے نفس کی خواہش اس کی طرف مائل کرتی ہے اور وہ غلط کام کی طرف جاتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ آگ میں ہاتھ ڈالنے والا۔ لیکن آگ بعد میں ہے خواہش پہلے ہے، لہذا خواہش آگ اور آپ کے درمیان آ جاتی ہے۔ لہذا پہلے والی چیز اثر کر جاتی ہے، وہ عقل پہ پردہ ڈال دیتی ہے۔ وہ اس وقت باقی سارى چیزوں کو جانتا ہے لیکن منع نہیں ہوتا یہاں تک کہ دنیاوی قانون بھی جب ان چیزوں کے خلاف ہو تو بعض لوگوں کی جان چلی جاتی ہے۔ جیسے چوری میں، ڈاکے میں لیکن وہ چیز جو سامنے ہوتی ہے اس کے لئے انسان رسک لے لیتا ہے کیونکہ عقل پہ پردہ پڑ جاتا ہے۔

توکل میں ہمیں multi-dimensional کام کرنا ہوتا ہے۔ توکل کو حاصل کرنا یعنی مقام توکل بعد میں آتا ہے، پہلے مقام ریاضت ہے، مقام قناعت ہے، مقام تقویٰ ہے، مقام صبر ہے، مقام زہد، پھر مقام توکل آتا ہے، ان چیزوں سے گزر کر آپ مقام توکل تک پہنچتے ہیں۔ اسی وجہ سے توکل کوئی عربی دانی کا کمال نہیں ہے کہ میں عربی جان لوں گا تو بس میں مجھے توکل حاصل ہو جائے گا۔ آج کل بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ بس میں نے کسی چیز کو جان لیا تو وہ حاصل ہو گئی، بھئی ایسی بات نہیں ہے۔ جیسے قبر میں انسان سے سوال و جواب theoretical نہیں ہو گا بلکہ practical ہو گا، انسان کا عمل جواب دے گا، انسان کا ذہن جواب نہیں دے گا اس کا عمل اس کے ذہن کو cover کر لے گا۔ تو اسی طریقے سے یہاں پر بھی انسان کی عقل کو ہماری خواہش cover کر لیتی ہے، یہ عملی چیز ہے، theoretical چیز نہیں ہے۔ توکل کا لفظ سب کو معلوم ہے لیکن توکل ان کو حاصل ہے جنہوں نے اس کی محنت کی ہے۔ آج کل جو تصوف کے خلاف ہیں ان کا یہی المیہ ہے، اسی میں پڑے ہوئے ہیں بیچارے۔ وہ کہتے ہیں بس ٹھیک ہے جس وقت اللہ پاک نے حکم دیا مجھے پتا چل گیا، بس ٹھیک ہے جی وہ ہے۔ جبکہ نفس ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9-10) اللہ پاک نے فرمایا کہ کامیابی کا راز نفس کو قابو کرنے میں ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا: عقل مند وہ ہے جس نے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا۔ تو جس کی عقل آزاد ہے وہی عقل مند ہے اور جس کی عقل نفس نے مفلوج کر دی ہے تو وہ کیسے عقل مند ہے؟ میرے خیال میں اس میں کافی ساری باتیں آ جاتی ہیں جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ