دعا میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر سوال کرنے کی ترغیب

سوال نمبر 270

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کی دعاؤں میں بعض اوقات ایسی دعائیں ملتی ہیں جن پر اگر ہم سوچیں تو اس دعا میں ہماری حیثیت سے بڑھ کر کسی چیز کا سوال ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کے مقام کے لحاظ سے وہ دعا مناسب ہوتی ہے لیکن اگر ہم مانگیں تو ہمارے لحاظ سے وہ بہت بڑی چیز کا مانگنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہمیں حکم ہوتا ہے کہ ہم اس دعا کو مانگیں جیسے مناجات مقبول میں جمعہ کے دن کی دعاؤں میں ایک دعا ہے "اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُكَ ثَوَابَ الشَاکِرِینَ وَ نُزُلَ المُقَرَّبِینَ وَ مُرَافَقَةَ النَّبِیِّینَ وَ یَقِینَ الصِّدِّیقِینَ وَ ذِلَّةَ المُتَّقِینَ حَتّٰی تَوَفَّانِی عَلٰی ذٰلِكَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِین" ”اے اللہ میں آپ سے شکر گزاروں جیسا اجر، مقربین کی سی مہمانداری، انبیاء علیہم السلام کی رفاقت، صدیقوں جیسا اعتقاد، اہلِ تقویٰ کی سی خاکساری، اہلِ یقین کا سا خشوع مانگتا ہوں یہاں تک کہ آپ مجھے اسی حال میں اٹھا لیں۔ اے سب رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے۔“

کیا اس دعا کے مانگنے کی ترغیب دینے سے آپ ﷺ بھی ہمیں یہ سکھانا چاہتے ہيں کہ جو چیز ہم اپنی حيثيت سے بڑھ کر بھی سمجھ رہے ہوں وہ بھی ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں؟

جواب:

سوال پیدا ہوا ہے ایک غلط فہمی سے اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ ہم بھی کوئی چیز ہیں۔ اللہ پاک کے فضل سے ہی ہم کچھ ہیں اور اللہ پاک کے فضل کے لئے کوئی limitation نہیں ہے۔ تو ہم جب بھی مانگیں گے تو اللہ کا فضل ہی مانگیں گے اور اللہ پاک اپنے فضل سے دے گا۔ ہم روز جتنا کھاتے ہیں پیتے ہیں اس پر بھی ہمارا حق نہیں ہے، اللہ نہ دینا چاہے تو ہمارا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ پاک سے مانگنے کا اور اللہ کی شان کے مطابق مانگنے کا حکم ہے، اپنی شان کے مطابق نہ مانگو، ہماری اپنی شان ہے ہی کیا! ہماری اپنی شان کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

نمبر ایک، اس دعا میں جو ہم مانگ رہے ہیں وہ اللہ کی شان کے مطابق مانگ رہے ہیں۔ نمبر دو، پھر اللہ پاک ہمیں دے گا جو بھی چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک نظام ہے، کچھ نظام ظاہر ہے کچھ نظام مخفی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نقطہ اٹھایا اور بڑا عجیب نقطہ اٹھایا وہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کے ساتھ جنت میں ہوں گی کیونکہ مومنہ خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ ہوں گی۔ اب ازواج مطہرات کا مقام بہت اونچا ہے لیکن ہیں اولیاء صحابیات، انبیاء نہیں ہیں کیونکہ عورتوں میں کوئی نبی نہیں آیا۔ اور دوسری طرف انبیاء اپنی اپنی جگہوں پہ ہوں گے۔ تو آپ ﷺ کا جو مقام ہو گا وہ بہت اونچا ہو گا اور اب ازواج مطہرات ان کے ساتھ ہوں گی۔ سوال اور نقطہ یہ اٹھایا کہ کیا وہ دیگر انبیاء سے اونچے مقام پر ہوں گی؟ اس پر حضرت نے تشریح فرمائی کہ ایک ہی چیز جو آپ ﷺ استعمال کریں گے تو اس میں آپ ﷺ کے مقام کے مطابق اس کا مزہ ہو گا اور ایک ہی چیز جو ہمیں نظر آ رہی ہے وہ آپ ﷺ کے اپنے مقام کے مطابق اونچی نظر آئے گی اور دوسرا اپنے مقام کے مطابق اس کو دیکھے گا تو اپنے مقام کے مطابق اس کو محسوس کرے گا گویا کہ ہماری حسیں، ہمارے اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ہو جائیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنے اپنے مقام کے مطابق ہماری حسیں بنائیں تو پھر جو ہم مانگ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے حساب سے فیصلہ بھی فرما دیں گے۔ اس میں مانگا ہے "اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ ثَوابَ الشَّاكِرِينَ"اے اللہ میں آپ سے شکر گزاروں جیسا اجر مانگتا ہوں“ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو بھی دیتا ہے اور ہمیں بھی دے گا۔ مقربین کی سی مہمانداری مانگتا ہوں، تو ٹھیک ہے مہمانداری ہو گی۔ سب کی مہمانداری اللہ ہی کریں گے۔ جیسے قرآن پاک میں آتا ہے ﴿نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدۃ: 32) آگے ہے وَ مُرَافَقَةَ النَّبِیِّینَ" اور انبیا کرام کی رفاقت بھی ہو گی۔ "وَ یَقِینَ الصِّدِّیقِینَ" اور صدیقین کا یقین۔ یہ مانگنا چاہیے کیونکہ ”صدیق“ تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ "وَ ذِلَّةَ المُتَّقِینَ" اور متقین کی عاجزی یعنی ان كى سی خاک سارى چاہیے۔ "حَتّٰی تَوَفَّانِی عَلٰی ذٰلِكَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ" یہ دعا آپ ﷺ نے جو سکھائی ہے ہم اسی طرح مانگیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کے مناسب معاملہ فرماتے ہیں۔ انبیاء کے ساتھ انبیاء جیسا معاملہ ہو گا، صدیقین کے ساتھ صدیقین جیسا معاملہ ہو گا اور شہداء کے ساتھ شہداء جیسا معاملہ ہو گا، صالحین کے ساتھ صالحین جیسا معاملہ ہو گا وہ پھر اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ لیکن ہم مانگيں ضرور، ہم اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق اللہ تعالیٰ سے مانگیں، ہمارے حال کے لحاظ سے جو مقام اللہ چاہے گا وہ ہمیں دے گا۔ سب پڑھیں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُكَ ثَوَابَ الشَاکِرِینَ وَ نُزُلَ المُقَرَّبِینَ وَ مُرَافَقَةَ النَّبِیِّینَ وَ یَقِینَ الصِّدِّیقِینَ وَ ذِلَّةَ المُتَّقِینَ حَتّٰی تَوَفَّانِی عَلٰی ذٰلِكَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ