قرآن کے ذریعے رفعت اور پستی: مسلمان اور کافر

سوال نمبر 269

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو رفعت عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے۔ شکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2115) اس حدیث شریف میں آپ ﷺ نے دو گروہوں کا ذکر فرمایا ہے جس میں ایک کو اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے رفعت نصیب فرمائیں گے اور ایک کو اس قرآن کے ذریعے سے پستی کا شکار کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں گروہوں سے کافر اور مسلمان مراد ہیں یا مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن کی وجہ سے پستی کی طرف جائیں گے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی ہے۔ لہذا جو اس کو اللہ کا کلام سمجھتا ہے اور اس کی تعظیم کرتا ہے اور اس کو پڑھتا ہے اور اس کو سیکھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اس کے ذریعے سے قرآن اس کو رفعت دلاتا ہے یعنی وہ اونچے مقامات حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے حافظ سے کہا جائے گا کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور اوپر چڑھتے جاؤ جتنا آپ اوپر چڑھے، اس دوران جتنا آپ نے پڑھا تو وہ سب آپ کا مقام ہے۔ اس طرح علماء کے بھی فضائل ہوں گے۔ یعنی جو بھی قرآن پاک کو اپنے دل میں عزت دے گا اور اس کے ذریعے اس کو سمجھے گا اور اس پر عمل کرے گا اور اس کو پھیلائے گا تو اس کے ذریعے سے اس کو رفعت ملے گی۔

مولانا زر ولی خان صاحب نے وفات سے ایک ہفتہ پہلے خواب دیکھا تھا کہ پہلے ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں صلوۃ فجر آئی لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ حسین اور بہت زیادہ توانا نوجوان آیا اور اس نے کہا کہ میں قرآن ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ تیری مدد ہو اور سوالوں کے جوابات بھی میری طرف سے اس نے ہی دے دیئے۔ قرآن کی خدمت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جزا عطا فرما دی اور رفعت مل گئی۔ یہ قرآن کے ساتھ لگاؤ کی بات ہو گئی۔

اور جو قرآن کی مخالفت کرتے ہیں، کافر تو مانتے ہی نہیں لیکن مسلمان مانتے تو ہیں لیکن عملاً مخالفت کر سکتے ہیں جو قرآن کہتا ہے اس طرح نہیں کرتے بلکہ اپنے نفس کے مطابق کرتے ہیں۔ جو جتنا ایسا کرے گا اتنا ہی اپنے مقام سے گرے گا اور اس کو ذلت ہو گی، پھٹکار پڑے گی۔ قرآن نے اس کو نہیں گرایا بلکہ اس کے عمل نے اس کو گرایا ہے لیکن قرآن کی مخالفت کی وجہ سے ایسا ہوا، کیونکہ وہ عمل قرآن کی مخالفت کو مستلزم تھا۔ اس لئے فرمایا کہ قرآن بعض لوگوں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے۔ چونکہ قرآن کو اللہ پاک نے ایک شان دی ہے، اس کا کلام ہے۔ تو جو اس کی قدر کرتا ہے اور جو اس کی مانتا ہے اور جو اس کے اوپر چلتا ہے جو اس کو پھیلاتا ہے جو اس کو سمجھاتا ہے "خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَعَلَّمَہٗ" (البخاری، حدیث نمبر: 993) تو اس کا مقام بنتا جاتا ہے، بڑھتا جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو خطرے کی بات ہے۔ لیکن اگر عمل اچھا ہے اور پھر عمل کے ساتھ نیت بھی اچھی ہو تو نور علی نور ہے۔

لیکن جو لوگ قرآن کی بات کرتے ہیں پھر اس کے لئے کوئی تاویلیں ڈھونڈتے ہیں، اس سے فرار کرتے ہیں، اپنے نفس کی بات ماننے کے لئے۔ جیسے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! سب سے برے لوگ کون سے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اچھی باتیں پوچھا کرتے ہیں، سب سے برے لوگ علمائے سوء ہیں جو دنیا کو لینے کے لئے اپنی آخرت کو بیچیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن پاک کی غلط تشریحیں کرتے ہیں، غلط تفسیریں کرتے ہیں۔ فیضی بدبخت جو اتنا ذہین تھا کہ اس نے غیر منقوط قرآن لکھا تھا جس میں کوئی نقطہ نہیں آتا۔ پ، ب، ج، ث اس طرح کے نقطے والے الفاظ نہیں تھے اور اس کے ذریعے سے تفسیر کی۔ لیکن اس کو استعمال کس چیز کے لئے؟ وہ قرآن رکھوا دیا کسی جھاڑی وغیرہ میں پھر بادشاہ کو کہتا ہے: جی سیر کرتے ہیں اور چلتے چلتے ادھر لے گیا اور کہا: یہاں یہ کتاب رکھی ہوئی ہے، یہ تو آپ کے اوپر نازل ہو گئی ہے۔ ایسی کتاب کوئی لکھ سکتا ہے بغیر نقطے کے؟

صرف چند ٹکوں کے لئے اپنی اتنی بڑی خدمت کو بیچ دیا۔ تو قرآن کے اوپر اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنا اور خدا نخواستہ اگر ایسا ہو کہ ان دنیاوی مفادات کے لئے غلط بھی کہنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے تو یہ تباہی ہے یا نہیں؟ یہ تباہی ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ایسی تباہیوں سے بچائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ