مشورہ اور اخلاق کے درمیان تعلق

سوال نمبر 268

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت النبی ﷺ کے اخلاق کے باب میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں جو صفات بیان فرمائی ہيں ان میں سورہ شوریٰ کی ان آيات کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جن میں اخلاقی اوصاف کا بیان ہے۔ ان اوصاف میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ وہ اپنے کام مشوروں سے کرتے ہيں۔ مشورہ اور اخلاق ميں تعلق کس طرح ہے اس کی وضاحت فرمائی جائے۔

جواب:

اخلاق خلق کی جمع ہے اور خلق چار چیزوں کے اعتدال سے بنتا ہے، شہوات، غضب، عقل اور علم۔ اس میں ایک علم کی بات ہے اور ایک عقل کی بات ہے۔ مشورہ کس لئے کیا جاتا ہے؟ بہتر بات سمجھنے کے لئے لیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں، یعنی آپس میں جب انسان نیک نیتی کے ساتھ مشورہ کرتے ہیں، ایک ہی بات کو discuss کرتے ہیں، انسان کی limited memory ہے تو بعض باتیں کسی کی memory کے قریب پڑی ہوتی ہیں اور کسی سے دور پڑی ہوتی ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی قریب کی memory ذرا جلدی ختم ہوتی ہے اور بعض کی ذرا دیر سے ختم ہوتی ہے، لوگوں کے مختلف عوارض ہیں۔ اب ایک چیز کا علم نہ ہونا فیصلہ کرنے میں نقصان دے سکتا ہے، اگر وہ بات معلوم ہوتی تو لوگ ایسا نہ کرتے۔ یہ بات جاننے کے لئے کہ جتنی اس کے بارے میں information چاہيے وہ ہمیں ملی ہے یا نہیں؟ اس لئے مشورہ کیا جاتا ہے۔ ورنہ اگر ساری باتیں کسی کو معلوم ہوں تو بالکل ٹھیک ہے لیکن کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ مجھے ساری باتیں معلوم ہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خندق والی لڑائی کے اس انداز کا پتا تھا جو ان کے علاقے میں لڑی جاتی تھیں اور عربوں کو پتا ہی نہیں تھا۔ عربوں کے لئے پہلی بار تھی۔ آپ ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پہ جب صحابہ سے کہا کہ آپ اپنے بال منڈوائیں تو صحابہ جذباتی طور پہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے جس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوئی۔ آپ ﷺ نے اپنے گھر جا کر ازواجِ مطہرات سے بات کی تو ان میں سے ہماری ایک ماں نے کہا کہ آپ ان کے درمیان بیٹھ کر خود بال منڈوانا شروع کر دیں اس کو دیکھ کر یہ خود بھی ایسا ہی کریں گے۔ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا اور آپ کو دیکھ کر سب نے ایسا ہی کیا۔ بعض باتیں نزاکت سے تعلق رکھتی ہیں وہ عورتوں کو معلوم ہوتی ہیں اور بعض باتیں information سے تعلق رکھتی ہیں وہ جو جاننے والے ہیں ان کو معلوم ہوتی ہیں۔ بعض لوگ quick response والے ہوتے ہیں بعض لوگ slower response والے ہوتے ہیں لیکن جب ان کو سمجھ آ جاتی ہے تو بہت زبردست بات کر لیتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو جمع کر کے کسی بات پر آنا اور پھر اس کا نچوڑ حاصل کرنا اور مشورے کا امیر اگر مخلص ہے کہ وہ حق تلاش کر رہا ہے تو اس کو جہاں سے بھی حق ملے گا اس کو لے لے گا تو اس میں کتنے فائدے ہیں؟ اخلاق کے آخری دو حصے علم اور عقل، ان کی satisfaction ہوئی یا نہیں ہوئی؟ یہ اخلاق میں آتا ہے۔ اسی طریقے سے مشورہ بھی عینِ اخلاق ہے "کَانَ خُلُقُہُ القُراٰن" (مسند احمد، حدیث نمبر: 25108) ”آپ ﷺ کا خلق قرآن تھا“ اور قرآن ہی میں مشورے کا حکم ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ اخلاق کا حصہ بن گیا۔ اس طرح ہم مشورے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ البتہ بعض دفعہ کسی کا personal معاملہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ اجتماعی ہوتا ہے۔ مثلاً میں نے مسجد بنانی ہے۔ کہاں بنانی ہے؟ کیسے بنانی ہے؟ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، یہ کسی ایک آدمی کی بات نہیں ہے، لہذا اس میں مشورہ افضل ہے۔ لیکن میں اس post کے لئے apply کروں یا نہ کروں؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، میرے حالات آپ کو معلوم نہیں ہیں، لہذا یہاں استخارہ افضل ہے۔ البتہ کسی جاننے والے سے استخارے کی بات کو سمجھنے کے لئے بھی مشورہ ہو سکتا ہے۔ گویا کہ یہ دو باتیں مشورہ اور استخارہ ہمارے فائدے کے لئے ہیں، اس میں اللہ پاک برکت ڈال دیتے ہیں۔ جو کام مشورے سے ہوتا ہے اس میں خیر ہوتی ہے اور جو کام استخارے سے ہوتا ہے اس میں پشیمانی نہیں ہوتی۔ بس یہی اس کا لب لباب ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس کی برکات نصیب فرمائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن