شریعت کے ظاہری اعمال اور اخلاقی درستی

سوال نمبر 267

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اخلاق کی تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ہم جن چیزوں کو اخلاق سمجھ رہے ہیں وہ در اصل اخلاق کے ثمرات ہیں اور اخلاق انسان کی شہوت، غضب، علم اور عقل کے اعتدال پر آنے کا نام ہے جس کے بعد صبر، شکر، تواضع، تقویٰ وغیرہ اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث ميں ظاہری اعمال کی جو خاصیتیں بیان فرمائیں تو وہ بھی ان باطنی اعمال کا حصول نظر آرہا ہے جیسے نماز کی خاصیت بے حیائی اور برے کاموں کا منع کرنا ہے، روزہ کی خاصیت تقویٰ کا حصول ہے، زکوٰۃ سے بخل کے مرض کا علاج ہے۔ گویا کہ ان باطنی اعمال کا حصول ان چار محرکات کا اعتدال ظاہر کر رہا ہے اور نماز، روزہ، زکوٰۃ جیسے ظاہری اعمال کی بجا آوری ان باطنی اعمال کے حصول کو مستلزم ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی مسلمان شریعت کے ظاہری اعمال کی مکمل پابندی کر رہا ہے اس کے اخلاق درست ہيں اور اس کو اپنے اخلاق کی درستگی کے لئے علیحدہ سے محنت کی ضرورت نہيں ہے وہ شریعت کے ظاہری احکامات کی پابندی کرے تو یہی اس کے اخلاق کو اعتدال پر رکھے گی؟

جواب:

سوال ایک انتہائی صحیح بنیاد پر شروع کیا گیا لیکن بالکل غلط بنیاد پہ ختم کیا گیا۔ صحیح بنیاد تو یہی ہے کہ اخلاق چار چیزوں کے اعتدال کا نام ہے اور جب یہ چار چیزیں اعتدال پہ آ جاتی ہیں تو ان کو ضرورت کے مطابق جو بھی appliance ہیں یعنی جو اس کی ضرورت کی چیزیں ہیں وہ اس کے سامنے آئیں گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ مجموعی طور پر ہم کہتے ہیں کہ ان چار چیزوں کو اعتدال میں لانا اخلاق کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لیکن اس میں جو ثمرہ ہے وہ اس کا خلق ہے کیونکہ اور لوگوں میں تو وہ چیز ظاہر ہو گی۔ مثلاً صبر ظاہر ہو گا، شکر ظاہر ہو گا، اس سے ہم نتیجے نکالیں گے کہ شہوت، غضب، علم، عقل یہ balanced ہے یہ ترتیب اس طرح بنے گی۔ اور ظاہری اعمال، باطنی اعمال کی حفاظت کے لئے ہیں۔ جیسے چھلکا گری کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن جو ظاہر ہے وہ عوام کو نظر آتا ہے، جو ظاہر نہیں ہے وہ عوام کو نظر نہیں آتا، یہاں سے اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ جو ظاہر نظر آتا ہے اس کی انسان گواہی دے سکتا ہے اور جو ظاہر نظر نہیں آ رہا اس کے بارے میں اچھا گمان کر سکتا ہے اِلّا یہ کہ اس کے بارے میں یقینی علم ہو جائے۔ مثلاً ایک شخص بہت اچھی طرح نماز پڑھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ لوگ اس کو نمازی سمجھیں یعنی ریا کر رہا ہے لیکن آپ اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن کو کیسے صحیح سمجھ سکتے ہیں؟ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ البتہ اس کے اوپر اچھائی کا گمان کر سکتے ہیں کہ اس کو اخلاص بھی حاصل ہو گا کیونکہ ہمیں پتا نہیں ہے۔ جیسے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ آپ نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا کہ وہ کلمہ ڈر کے پڑھ رہا ہے؟

تو حسن ظن کا تو حکم ہے جیسے "ظُنُّوا الْمُؤْمِنِینَ خَيْرًا" لیکن وہ اس طرح ہے بھی یا نہیں؟ یہ صرف اللہ کو پتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ بات بالکل درست ہوتی جیسا کہ سوال میں پوچھا گیا ہے تو ظاہری طور پر ان اعمال کو ہم صحیح کر کے پوری تربیت کروا دیتے لیکن مشائخ کا یہ کام ہوتا ہے کہ جب ان کے پاس لوگ جاتے ہیں تو ان پہ ان کی باطنی چیزیں کسی نہ کسی طریقے سے منکشف ہو رہی ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا کچھ نظام ہے۔ وہ ان باطنی چیزوں کو درست کرنے کے لئے کچھ طریقے بتا دیتے ہیں جو ظاہری اعمال کے علاوہ ہوتے ہیں۔ مثلاً اختیاری مجاہدہ، نماز بھی مجاہدہ ہے لیکن اس کے علاوہ بھی مجاہدہ کرایا جاتا ہے جو اصل میں اس چیز کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو تو پھر اس کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ چنانچہ جو نظامِ تربیت ہے یعنی عقل، نفس اور قلب۔ ان تینوں کو درست کرنے کا جو نظام ہے وہ ان چار چیزوں کو اعتدال پہ لاتا ہے۔ لہذا اگر آپ صرف اس کے ثمرات کو درست کر لیں تو مجھے نہیں معلوم کہ کیسے آپ اس کی اندرونی حالت کو بھی درست کر سکتے ہیں۔ مثلاً نماز اچھی طرح پڑھ کر آپ اخلاص پیدا نہیں کر سکتے ہیں لیکن اخلاص کے ساتھ آپ اچھی طرح نماز پڑھ سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کا طریقہ معلوم ہو اور اخلاص پہلے سے حاصل ہو۔ لیکن اچھی طرح نماز پڑھ کر آپ اخلاص حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں نیت مختلف ہو سکتی ہے "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّات" (البخاری، حدیث نمبر: 1) ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے“ ایک شخص صبر کرتا ہے لیکن دنیا کے لئے کرتا ہے تو اس کو وہ چیز حاصل ہو گی جس کے لئے وہ صبر کر رہا ہے اور اگر کسی روحانی عمل کے لئے صبر کر رہا ہے تو اسے وہ چیز مل جائے گی اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کو وہ چیز نہیں ملے گی۔ اسی طرح شکر ہے اور اس طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ سب چیزیں ہمیں حاصل کرنی ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کا نظام تعلیم و تربیت ہے۔ تعلیم شریعت کا علم ہے جس کو حاصل کرنا ہے اور تربیت علم، عقل اور قلب ان تینوں کی درستگی کا نام ہے جس کے ذریعے سے یہ درست ہو سکتے ہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ