خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں دس سال تک آپ ﷺ کی خدمت میں رہا لیکن اس عرصے میں آپ ﷺ نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ فلاں کام کیوں نہیں کیا یا فلاں کام کیوں کیا اور کبھی مجھ پر غصہ نہیں کیا۔ ایک حدیث شریف کے مطابق آپ ﷺ کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ رہا ہے وہ ایک مثالی نمونہ ہے۔ لیکن آج کل اگر کوئی حاکم یا سربراہ اپنے کسی ماتحت کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے اور اُس کی غلطیوں پر اُس کو نہیں ٹوکتا تو بعض اوقات اس سے کافی نقصان ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ ﷺ کی سنت پر کیسے عمل کیا جائے؟
جواب:
واقعی یہ اہم سوال ہے۔ یہاں دو باتیں ہیں ایک یہ کہ انسان اپنی ذات کے لئے کیا کر سکتا ہے؟ دوسری یہ بات ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ چنانچہ اگر کوئی ذاتی معاملہ ہے مثلاً میرا کوئی ذاتی کام، کوئی نہیں کرتا اور میں اس کے ساتھ نرمی کرتا ہوں تو اس کی مجھے اجازت ہے، کیونکہ اس کا نقصان میں خود ہی بھگت رہا ہوں لیکن اگر وہ چیز میرے پاس امانت ہے، جیسے کوئی چیز میرے سپرد کی گئی کہ اس کو کوئی چھیڑے نہیں، یعنی یہ میری duty ہو۔ اب اگر کوئی اس کو چھیڑے اور میں اس کے ساتھ نرمی کروں تو کیا یہ امانت داری ہے؟ یہ امانت داری نہیں ہے بلکہ خیانت ہے۔ جیسے security guard یا اس طرح کی ذمہ داریاں۔ چنانچہ امانت کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور اس میں خیانت حرام ہے۔ میں سمجھانے کے لئے اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ جب سنت اور فرض میں تقابل آ جائے تو فرض کو لیا جائے گا۔ یہ میں نے صرف extreme کے طور پر مثال دی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے کاموں میں خیانت آپ ﷺ کی سنت نہیں ہے یہ میں نے صرف سمجھانے کے لئے مثال دی ہے۔ کیونکہ آپ اپنے لئے چھوڑ سکتے ہیں، وہ سنت ہے۔
آپ ﷺ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، تقسیم کے بعد ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور ایک چادر پیش کی کہ یہ رہ گئی ہے تو آپ ﷺ کے چہرے مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: اب میں اس چادر کا کیا کروں؟ مال تو تقسیم ہو چکا ہے، اب میں اس کو کیسے تقسیم کروں؟ اگر ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہوں تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی اور اگر ایسے نہ کروں تو تقسیم نہیں ہو سکے گی۔ تو یہ امانت داری ہے۔ چنانچہ آپ دوسروں کے مال کا نقصان نہیں کر سکتے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ سنت نہیں ہے، آپ ﷺ دوسروں کے مال میں خیانت کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ ہاں اپنی ذاتی خدمت میں آپ ﷺ نرمی فرماتے تھے۔ تو آپ بھی اپنی ذات میں اس پر عمل کریں، لیکن یہ کوئی لازم نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کسی کی duty ہے اور وہ اپنی duty پوری نہیں کر رہا چاہے وہ آپ کا ذاتی کام کیوں نہ ہو تو اس کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس کو dutiful بنائیں، ورنہ اس کی اپنی زندگی خراب ہو جائے گی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات کی نوعیت الگ ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر ایسی بات نہیں تھی۔ پھر آپ ﷺ کی شخصیت میں جو attraction تھی وہ ہماری شخصیت میں ہے؟ جس اس کی وجہ سے لوگ خود ہی ٹھیک ہو جائیں۔ ہمارے اندر وہ شخصیت نہیں ہے اس لئے ہم آپ ﷺ کی طرح قطعاً نہیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کدھر گئے وہ لوگ جو اس آیت کا مصداق ہیں: ﴿وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ﴾ (الحشر: 9) کہ وہ دوسروں پہ ایثار کرتے ہیں حالانکہ خود ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ گویا وہ مانگ رہا تھا۔ ایک صاحب جو عالم تھے اور قرآن کو جانتے تھے کہنے لگے وہ ان کے ساتھ چلے گئے جو اس آیت کا مصداق ہیں: ﴿لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ (البقرۃ: 273) کہ جو لپٹ لپٹ کے نہیں مانگتے ہیں، جب وہ لوگ ختم ہو گئے تو یہ بھی ختم ہو گئے۔ لہذا ایسے لوگوں کو ایسا ہی جواب دینا چاہیے۔ جو لوگ شریعت کا استحصال کرتے ہیں اور شریعت کی بات کو اپنی ذات کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے اور ان کو سمجھانا چاہیے کہ تم کدھر کھڑے ہو؟ البتہ دل میں نرمی ضرور ہونی چاہیے۔ دل سے مراد یہ ہے کہ ان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو، بلکہ ان کا فائدہ مقصود ہو۔ مثلاً کوئی شخص غلط کام کر رہا ہے تو مجھے غصہ یقیناً آئے گا لیکن یہ غصہ اس کے لئے نقصان کا باعث نہ ہو بلکہ اپنی ذمہ داری کے لحاظ سے ہو کہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی صورت کے اندر میں وہ کام کروں جس سے وہ ٹھیک ہو جائے تاکہ میں اس کو نقصان سے بچاؤں۔ یہ واقعی بہت complicated قسم کا معاملہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی شخصیت ایسی تھی کہ آپ ﷺ کچھ بھی نہیں کہتے تھے پھر بھی لوگ آپ ﷺ کے ساتھ انتہائی مخلص تھے۔ انسانوں کا معاملہ تو تھا ہی حتٰی کہ آپ ﷺ قربانی کے اونٹوں کو ذبح فرما رہے تھے تو وہ اونٹ خود اپنا گلا پیش کر رہے تھے۔ لہذا آپ ﷺ کے ساتھ اس مسئلے میں کون برابری کا دعوٰی کر سکتا ہے؟ وہاں معاملہ ہی اور ہے۔ البتہ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ہم کسی کو نقصان نہ پہنچائیں، ان کے ساتھ نرمی یہی ہے۔ کیونکہ اگر میں ان کو نقصان پہنچاؤں گا تو یہ ان کے ساتھ سختی ہو گی۔ گویا نرمی کا عنصر ہم آپ ﷺ کے عمل سے لے لیں اور تربیت اپنی جگہ پر ضروری ہے۔ اور امانت داری کا حساب دینا پڑے گا۔ لہذا ان تمام باتوں کو جمع کر کے جو صورتحال بنتی ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ