اسلام لانے کے بعد اخلاق میں تبدیلی اور محنت کی ضرورت

سوال نمبر 266

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

جیسا کہ کل آپ نے اخلاق کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ انسانی محرکات کا اعتدال ہے۔ آپ ﷺ جس زمانے میں مبعوث ہوئے تھے تو اس وقت بھی لوگوں کے اندر یہ محرکات موجود تھے اور ظاہر ہے کہ جب وحی کی رہنمائی نہیں تھی اس وقت تک ان کے محرکات بے اعتدالی میں تھے اور آپ ﷺ نے پھر ان پر محنت کی، ان کے محرکات کو وحی کے ذریعے اعتدال پہ لے آئے۔ اس دور ميں جب کوئی مسلمان ہو جاتا تو کیا مسلمان ہونے کے ساتھ ہی اعتدال پر آ جاتا یا اسلام لانے کے بعد ان کو اخلاق کے حصول کے لئے کچھ اور محنت کی بھی ضرورت ہوتی تھی؟ اگر ان کو مزید محنت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی تو کیا آج کل اگر ایک کافر مسلمان ہو تو اس کو بھی اسلام لانے کے ساتھ ہی اخلاق حاصل ہو جاتے ہیں یا اس کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہو گی؟ نیز اس وقت ہم مسلمان جو ہیں کیا ہمیں اخلاق کے حصول کے لئے کچھ اور محنت کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو وہ کس قسم کی محنت ہے؟

جواب:

سوال کافی پیچیدہ ہے لیکن ان شاء اللہ اس پہ راستہ موجود ہے۔ جیسے کہ سوال میں ہے کہ محرکات اصل ہیں، جیسے غضب، شہوت، علم، عقل، یہ انسان کو حسبِ حال برائی یا اچھائی پر ابھارتے ہیں۔ ان کو اعتدال پر لانا ہی تربیت ہے۔

صحابہ کرام جس وقت آپ ﷺ پر ایمان لاتے تھے تو آپ ﷺ کے ساتھ ان کو اتنی محبت ہوتی تھی کہ اس محبت کی وجہ سے وہ ہر مشکل سے مشکل کام کو کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے اور اپنی جان و مال، تن من دھن، سب اللہ پہ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے اور جہاں تک سیکھنے کی بات ہے تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ ہو رہا تھا یعنی driving force تو اسی وقت حاصل ہو جاتی لہذا سَیر اِلَی اللہ مکمل ہو جاتی لیکن سیکھنا وقت کے ساتھ ساتھ تھا۔ مثال کے طور پر آپ نے کوئی چیز نہیں دیکھی تو جب دیکھیں گے تب پتا چلے گا، آپ نے کوئی چیز سنی نہیں جب سنیں گے تب پتا چلے گا، لیکن سننے اور دیکھنے کے بعد ماننا ہے جیسے ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ (البقرۃ: 285) اور ایک ہے ﴿سَمِعْنا وَعَصَيْنا (البقرۃ: 93) صحابہ کا طریقہ ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ والا تھا، وہ سن لیتے تھے اور عمل کر لیتے تھے۔ تو ان کی تربیت حالات کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ مثلاً احد میں پچاس تیر انداز تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق کچھ فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ صحیح نہیں تھا تو حالات نے ان کو صحیح بتا دیا کہ اب صحیح کیا ہے؟ یعنی وہ ان کی teaching ہو گئی، ان کی تربیت ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ان کی تربیت ہوتی تھی کیونکہ ان چیزوں کا ان کو علم نہیں ہوتا تھا کیونکہ دین آ رہا تھا، دین مکمل نہیں ہوا تھا۔ جبکہ ہمارے ہاں دین مکمل ہے، ہم اس category میں نہیں ہیں۔ ہماری محنت driving force کے درست کرنے کی ہے۔ سَیر اِلَی اللہ یہی ہے کہ ہم driving force کو درست کر لیں یعنی ان محرکات کو درست کر لیں اس کے بعد دین تو چونکہ پورا کا پورا ہے لہذا اس پر عمل کرنا پڑے گا یعنی اس میں آپ کو وقت نہیں دیا جائے گا۔ ہاں driving force کے achieve کرنے میں وقت ملتا ہے۔ سَیر اِلَی اللہ کے لئے وقت دیا جائے گا اور سَیر اِلَی اللہ مکمل ہو نے کے بعد پورے دین پر عمل کرنا پڑے گا تو گویا کہ ہمارے لئے ایسا نہیں ہے۔

جہاں تک نو مسلم کی بات ہے تو اگر ان کو driving force اسی وقت پوری مل گئی تو ان کا معاملہ بھی صحابہ کی طرح ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ سیکھ لیں گے۔ مثلاً نماز انہوں نے نہیں سیکھی تو نماز سیکھیں گے پھر پڑھیں گے۔ زکوۃ کے بارے میں پتا نہیں چلا، جب پتا چلے گا تو وہ دیں گے۔ لیکن دین تو اپنے طور پہ مکمل موجود ہے، صرف سیکھنے کی بات ہے۔ لیکن driving force اگر پوری نہیں ہے تو پھر driving force کے لئے ان کو محنت کرنی پڑے گی۔ ان کو سَیر اِلَی اللہ تک پہنچنے کے لئے بھی کسی تربیت کی ضرورت ہو گی۔ ہم لوگ بالکل اس طرح نہیں ہیں جس طریقے سے وہ ہیں اور ان کا معاملہ ہماری طرح نہیں ہے۔ لیکن ترتیب بالآخر انہیں کی چلے گی لہذا جن کا سَیر اِلَی اللہ مکمل ہو جاتا ہے تو پھر وہ صحابہ کے طریقے پر آ جاتا ہے یعنی صحابہ جس طریقے سے حاصل کرتے تھے اس طرح یہ بھی حاصل کرتا ہے اگرچہ ان کے برابر تو نہیں ہو سکتا لیکن بہرحال ترتیب انہیں کی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کو طریقۂ صحابہ کہتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحابہ کے پیچھے چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" (ترمذی، حدیث نمبر 2641) جس پر میں چلوں اور جس پر میرے صحابہ چلیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ