غزوہ اُحد میں شہید صحابہ کی قبروں کی زیارت اور اس سے رہنمائی

سوال نمبر 292

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

غزوہ احد میں جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین شہید ہوئے تھے، آپ ﷺ ان کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے۔ آپ ﷺ کے اس عمل سے ہمیں زیارتِ قبور کے سلسلے میں کیا رہنمائی مل رہی ہے؟

جواب:

حدیث شریف بالکل واضح ہے اور اس طرح کی اور بھی احادیث مبارکہ ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں زیارتِ قبور شرعاً منع نہیں ہے۔ البتہ شرک کی اجازت کسی حال بھی میں بھی نہیں ہے، نہ زیارتِ قبور میں شرک کی اجازت ہے نہ ویسے گھر بیٹھے بیٹھے شرک کی اجازت ہے۔ کیا اگر کوئی زیارت قبور کے لئے قبرستان نہیں جائے گا تو شرک وہ نہیں کر سکتا؟ بہت سارے لوگ قبروں پہ نہیں جاتے لیکن شرک کرتے ہیں۔ مولانا عزیز الرحمن صاحب فرماتے تھے کہ میں جب شروع آیا تو کسی نے دعا کے لئے گھر بلایا جب ان کے ہاں گیا تو دو پلیٹیں حلوے کی تھیں، ایک چینی کا حلوہ تھا اور دوسرا گڑ کا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ دو کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ چینی والا حلوہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کا ہے اور دوسرا اللہ کے نام کا۔ حضرت نے فرمایا مجھے سخت غصہ آیا، میں نے کہا ایسا شرک تو مشرکینِ مکہ نے بھی نہیں کیا تھا،کم از کم وہ اللہ کے لئے تو اچھی چیزوں کا انتخاب کرتے تھے، یہ تم لوگوں نے کیا کیا؟ لہذا شرک کرنے والے گھر بیٹھے بیٹھے بھی کر لیتے ہیں، سب زیارت قبور کے ذریعے سے نہیں کرتے۔ لیکن قبروں کی زیارت میں شرک نہیں کرنا، بلکہ شریعت نے اس کے لئے کچھ احکامات مقرر کئے ہیں، کیونکہ شریعت ظاہر کو دیکھتی ہے لہذا کوئی ظاہری کام ایسا نہیں کرنا چاہیے جس پر شرک کی تہمت لگائی جا سکتی ہو، مثلاً قبرستان میں ہاتھ اٹھا کے دعا نہ کریں۔ اس لئے کہ دعا بغیر ہاتھ اٹھائے بھی کی جا سکتی ہے۔ جیسے گھر میں داخل ہوتے وقت جب یہ دعا پڑھتے ہیں: "بِسْمِ اللهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللهِ خَرَجْنَا" تو ہاتھ اٹھا کر نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح کھانا شروع کرنے سے پہلے یہ دعا کرتے ہیں "بِسْمِ اللہِ وَ عَلٰی بَرَکَۃِ اللہ" تو کیا ہاتھ اٹھا کے دعا کرتے ہیں؟ یا بیت الخلا جاتے ہیں، اور اس طرح کی بہت ساری دعائیں ہیں جو ہاتھ اٹھا کے نہیں کی جاتیں۔ لہذا اللہ پاک کو پکارنے کے لئے ہاتھ اٹھانا شرط نہیں ہے، وہ آدابِ دعا میں سے ہے۔ زبان ہلانا بھی شرط نہیں ہے، لہذا دعا ہر حالت بھی کی جا سکتی ہے۔

کبھی ہماری سائیکل چلانے کی عادت تھی، ڈیرہ اسماعیل خان سائیکل city تھا، میں سائیکل چلاتا تھا اور میرے کزن نے steering پکڑا ہوتا تھا یوں ہمارا باہم collaboration ہوتا تھا اور ہم بہت زبردست قسم کے accident کرتے تھے۔ اور accident اکثر سائیکل رکشے کے ساتھ ہوتا تھا چونکہ وہ یک دم مڑتا ہے تو یا وہ ہمارے اوپر آ جاتا یا ہم اس کے اوپر گر جاتے۔ جیسے ہی accident ہوتا تو ہماری زبان سے فوراً نکلتا "یا اللہ خیر" اور یہ بالکل instant ہوتا تھا کہ جیسے ہی accident ہوتا ساتھ ہی "یا اللہ خیر" زبان سے نکلتا۔ تو کمال کی بات یہ ہوتی تھی کہ accident بھی ہو جاتا لیکن ہمیں کچھ نقصان نہیں ہوتا تھا جب کہ سائیکل کو نقصان ہو جاتا، کبھی wheel ٹیڑھا ہو جاتا کبھی کوئی اور نقصان ہو جاتا، چونکہ وہ سائیکل city ہے اس لئے سائیکلوں کی دکانیں بھی بہت زیادہ ہیں تو کسی قریب ترین دکان پر لے جاتے تو کبھی ایک روپے میں ٹھیک ہو جاتی اور کبھی ڈیڑھ روپے میں ٹھیک ہو جاتی، اس کے بعد ہم گھر آ جاتے اور گھر والوں کو پتا بھی نہ چلتا کہ ہم نے accident کیا ہے۔ گویا یہ "یا اللہ خیر" کی برکت تھی اور جب نقصان ہونا تھا تب "یا اللہ خیر" زبان سے نہیں نکلا تو سائیکل کو کچھ بھی نہیں ہوا اور میرا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ تو کیا میں اس دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا تھا کہ یا اللہ خیر۔ بلکہ وہ ایک instant دعا ہوتی ہے منہ سے فوراً نکل جاتی ہے۔ لہذا قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کرنی چاہیے، اور بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے شرک کی بو آتی ہو، لیکن زیارت دو وجوہات سے کر سکتے ہیں۔ ایک عبرت حاصل کرنے لئے اور دوسرا برکت حاصل کرنے کے لئے۔ کیونکہ اہل اللہ کے مزارات پر رحمت بھی ہوتی ہے اور برکت بھی ہوتی ہے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے فائدہ ہوتا ہے تو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ فرمایا پھر کبھی بتاؤں گا ان شاء اللہ۔ بعد میں کسی وقت ایک جگہ گئے تو وہاں لوگوں نے حضرت کے لئے جلدی جلدی ہوا جھیلنے کا انتظام کر دیا تو جو قریب لوگ بیٹھے تھے ان تک بھی ہوا جا رہی تھی، حضرت نے پوچھا کیا آپ لوگوں تک ہوا آ رہی ہے؟ لوگوں نے کہا جی آتی ہے۔ حضرت نے کہا اس شخص کے سوال کا بس یہی جواب ہے۔ اسی طرح اللہ پاک کی رحمت جب قبر میں برس رہی ہے تو اگر آپ بھی وہاں موجود ہیں تو آپ بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں، اگر وہاں آپ اللہ تعالیٰ سے مانگیں تو اس کی قبولیت کی امید بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ لہذا جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو مانگنا اللہ سے ہوتا ہے لیکن ان کی برکت ساتھ ہو جاتی ہے، جیسے سلسلے کی برکت ہوتی ہے اس طرح اہل اللہ کی قبروں کی بھی برکت ہوتی ہے۔ لہذا ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مانگیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے لئے جائیں۔ آج کل کے extremist عبرت والی بات تو مانتے ہیں لیکن یہ دوسری بات نہیں مانتے۔ اور از راہِ محبت بھی انسان جا سکتا ہے، آخر انسان اپنے بیٹے کی قبر پہ جا سکتا ہے، اپنی ماں کی قبر پہ جا سکتا ہے۔ بلکہ قبروں کی زیارت اس نیت سے بھی کرنی چاہیے کہ یہ ان کا ہمارے اوپر حق ہے جیسے ماں کا حق ہوتا ہے یا بچوں کا حق ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کم از کم دو واقعات مجھے یاد ہیں۔ مولانا زر ولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ خود مجھے سنایا ہے اور یہ بہت بڑے مفتی گزرے ہیں درمیان میں کوئی اور راوی بھی نہیں ہے وہ بتا رہے تھے کہ جب میں جہانگیرہ آتا تھا تو اپنے استاذ مولانا لطیف اللہ پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی حاضر ہوتا تھا، ایک دفعہ میں آیا اور مصروفیت اتنی رہی کہ موقع ہی نہیں ملا اور مجھے کراچی واپس جانا پڑا جب میں کراچی میں پہنچ گیا تو رات کو میں نے خواب میں مولانا لطیف اللہ پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ا نہوں نے مجھے فرمایا کہ میری تو سڑک پر نظریں لگی تھیں کہ آپ آئیں گے لیکن آپ نہیں آئے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ نے ہی بتاتا ہے۔ تو ان کو بہت افسوس ہوا، فجر کی نماز پڑھائی تو ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو کوئی جہاز پشاور جا رہا ہو تو اس کا پتا کرو، کس time جا رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا حضرت رات ہی تو آپ آئے ہیں۔ فرمایا بس ایک کام رہ گیا اس کے لئے جانا ہے۔ جہاز کا pilot وہیں مقتدیوں میں موجود تھا، اس نے کہا حضرت میں جہاز کا pilot ہوں میں آپ کے لئے seat reserve کر لوں؟ فلاں time ہے۔ فرمایا بالکل کر لو۔ اس نے کہا: بس میں آپ کو ساتھ لے جاؤں گا۔ چونکہ اس کے لئے گاڑی آنی تھی تو وہ حضرت کو بھی ساتھ لے گئے۔ اور اس pilot کی وساطت سے جہاز میں بھی سارے انتظامات ہو چکے تھے۔ جب پشاور پہنچے تو pilot نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ حضرت نے فرمایا جہانگیرہ جانا ہے، آپ اپنے کاموں کو نمٹائیں میں اب خود ہی چلا جاؤں گا، وہ کہنے لگے در اصل مجھے تجسس ہے، میں دیکھنا چاہتوں کہ آپ آخر کیوں واپس آئے ہیں؟ میں آپ کو گاڑی پہ لے جاؤں گا، حضرت نے کہا ٹھیک ہے، پھر وہ گاڑی میں ساتھ آیا چنانچہ میں نے فاتحہ پڑھی اور اسی وقت اس سے کہا کہ واپس چلتے ہیں، جہانگیرہ میں اپنے گھر بھی نہیں گئے۔ بلکہ سیدھا واپس آگئے۔ اب اس کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ لیکن اس میں شَدِّ رِحَال کا مسئلہ آتا ہے۔ کیونکہ اس میں شَدِّ رِحَال تو ہو گیا اس لئے کہ جہاز پر گئے خصوصی نیت کے ساتھ گئے اور کوئی نیت بھی نہیں تھی۔ لیکن کچھ لوگ اس معاملے میں بہت سخت موقف اپناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاتے وقت مسجد نبوی کی نیت کرنی چاہیے، روزہ اقدس کی نیت نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اس کا جواب دیا ہے انہوں نے فرمایا یہ شَدِّ رِحَال مساجد کے لحاظ سے ہے یعنی اس میں مسجدوں کا بتایا گیا تھا کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کے لئے شَدِّ رِحَال جائز نہیں ہے، مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی۔ ان تینوں مسجدوں کے لئے شَدِّ رِحَال جائز ہے یعنی باقاعدہ نیت کر کے جا سکتے ہیں، باقی مساجد کے لئے نہیں جاسکتے، جیسے میں شاہی مسجد کی نیت کر کے جاؤں یا فیصل مسجد کی نیت کر کے جاؤں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ ویسے آپ اسلام آباد آئیں اور فیصل مسجد بھی جا سکتے ہیں، اسی طرح آپ لاہور جائیں تو شاہی مسجد بھی جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کہیں اور جائیں تو وہاں کی مساجد میں بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن کسی خاص مسجد کی نیت کر کے آپ نہیں جا سکتے سوائے ان تین مساجد کے۔ چنانچہ اگر آپ اس کو سب پر نافذ کرتے ہیں تو پھر تجارت کے لئے بھی نہیں جا سکو گے، علم حاصل کرنے کے لئے بھی نہیں جا سکو گے، کیونکہ شَدِّ رِحَال تو ان میں بھی ہوتا ہے۔ تو آپ یہ حکم باقی چیزوں پر کیوں نافذ کرتے ہو؟ مولانا تقی عثمانی صاحب کے اس جواب سے معاملہ بالکل clear ہو گیا کہ وہ مساجد کے point of view سے نہیں تھا۔ میرے ساتھ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا ہے کہ میری بیٹی جہانگیرہ میں دفن ہے، چار، ساڑھے چار سال کی عمر کی بچی تھی اور فوت ہو گئی تھی، بہت ہوشیار بچی تھی، بہت ذہین تھی اور پورے خاندان کے لئے ایک مرکزی حیثیت رکھتی تھی، نہ صرف ہمارے گھر کے لئے بلکہ ہمارے رشتہ داروں کے لئے اور پڑوسیوں کے لئے بھی۔ ہمارے گھر والوں کو اس کا بڑا دکھ تھا، جب فوت ہوئی تو میں یہاں نہیں تھا، جرمنی میں تھا۔ ایک دن ہم ناشتے پہ بیٹھے ہوئے تھے کہ میری والدہ نے کہا کمال ہے رات کو میں نے آسیہ کو خواب میں دیکھا وہ کہہ رہی تھی کہ چاچو آئے تھے لیکن میرے پاس نہیں آئے۔ یہ اس نے میرے بھائی طارق کے بارے میں کہا تھا۔ اس وقت طارق بھی ساتھ ہی بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا، تو اس نے کہا: ہاں میں کل گیا تھا اور گھر والوں کو بتایا نہیں تھا۔ والدہ کو بھی پتا نہیں تھا لیکن خواب میں پتا چل گیا۔ تو طارق نے کہا: میں گیا تھا لیکن مجھے موقع نہیں ملا، میں نہیں جا سکا، میں جایا کرتا ہوں۔ اب اس کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ ایسا ہوتا ہے، اللہ پاک کی یہ دنیا بڑی وسیع ہے، اس میں بہت کچھ ہو سکتا ہے یہ نا ممکنات میں سے نہیں ہے، البتہ اس میں شرک کے پہلو کو نہیں ڈالنا چاہیے۔ جیسے لوگ اپنی حاجتوں کے لئے جاتے ہیں کہ فلاں بابا میرے کام کر دے گا، حالانکہ کوئی بابا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہم تو زندوں کو حاجت روا نہیں مانتے، ہم تو کہتے ہیں اللہ ہی کرتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ کسی کو ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بھرے جلسے میں کسی نے پوچھا کہ کیا مردے سنتے ہیں؟ چونکہ حیاتی مماتی کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اور حضرت چونکہ ایک اجتماعی کام پہ لگے ہوئے تھے تو ان کو ایسے مسائل میں بہت ہی محتاط ہونا پڑتا تھا۔ انہوں نے فرمایا: میری بات تو زندہ بھی نہیں سنتے تم مردوں کی بات کرتے ہو، تم لوگ میری بات سنتے ہو؟ لہذا اس قسم کی extremism نہیں ہونی چاہیے، بلکہ قبور کی زیارت کی جا سکتی ہے، جیسے والدین کے لئے تو حکم ہے کہ ان کی قبروں پر جانا چاہیے، اسی طرح ویسے بھی دعا کے لئے قبرستان جانا چاہیے، فوت شدگان کے ایصال ثواب کے لئے جانا چاہیے۔ نیز اگر کسی اللہ والے کی قبر ہو تو ان کی برکت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم کسی طریقے سے کسی بھی سلسلے میں کسی قسم کے شرک کی بو نہیں آنی چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے شرک سے بچائے

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

غزوہ اُحد میں شہید صحابہ کی قبروں کی زیارت اور اس سے رہنمائی - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال