خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
جیسا کہ کل آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ آپ ﷺ نے حضرت شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے میں جو طریقہ استعمال فرمایا وہ ہر وقت استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ جب کوئی خارجی قوت موجود ہو اس سے نکلنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ابو طالب صاحب جن سے آپ ﷺ کو کافی محبت تھی ان کی وفات کے وقت آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میرے کان میں کلمہ کہہ دیں تاکہ قیامت کے دن میں شفاعت کر سکوں، لیکن ارد گرد کفار مکہ موجود تھے جن کی وجہ سے وہ کلمہ نہ کہہ سکے۔ ہماری کم فہمی کے مطابق اس قسم کی توجہ کے استعمال کا یہی تو موقع تھا، لیکن آپ ﷺ نے وہ طریقہ استعمال نہیں فرمایا جو کہ شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے استعمال فرمایا تھا اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
چونکہ شیطان ہر انسان کے ساتھ لگا ہے تو جب وہ کسی کو اس حد تک پھنسا دیتا ہے کہ وہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا تو عین ممکن ہے کہ اس کو اس قسم کی چیز کی ضرورت ہو۔ لیکن ابو طالب صاحب کے متعلق کافی اختلاف ہے جو اپنی جگہ ہے۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق انہوں نے کافروں کی بات کو اپنے ارادے پر فوقیت دی تھی۔ حالانکہ وہ اپنے ارادے کو اور آپ ﷺ کی بات کو فوقیت دے سکتے تھے کیونکہ کفار ان پر کوئی زبردستی تو نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنا ارادہ استعمال نہیں کیا تو یہ کہنا بجا ہے۔ میں اس معاملے کی زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا لیکن یہ ﴿إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص:56) میں آتا ہے۔ کہ "بے شک تو ہدایت نہیں دے سکتا جن کو تو چاہتا ہے" بلکہ اللہ پاک ہدایت دیتا ہے۔ یہ معاملہ اس زمرے میں آتا ہے کہ آپ ﷺ بہت چاہتے تھے، دعائیں بھی کرتے تھے، لیکن اصل فیصلہ اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ غالب ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔ گویا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ تھا تو اللہ جل شانہ نے ان کے لئے یہ نظام آپ ﷺ تک نہیں پہنچایا۔ اور اس میں ہمارے لئے ایک عملی نمونہ بھی ہے کہ ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهٗ إِلَّا بِإِذْنِهٖ﴾ (البقرۃ: 255) "کون ہے جو اللہ پاک کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے" یعنی لوگوں نے جو اپنی طرف سے اپنے آپ کو تسلیاں دے رکھی ہیں ان کے لئے ایک نصیحت بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔ جیسے نوح علیہ السلام کے متعلق قرآن پاک میں ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ آئیں ہمارے ساتھ کشتی میں بیٹھیں کیونکہ آج کے دن کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں بچ سکتا تو اس نے کہا کہ میں پہاڑ کے اوپر چڑھ جاؤں گا۔ چنانچہ اس وقت نوح علیہ السلام نے بھی دعا کی تھی اور اس دعا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب بھی آیا کہ جس چیز کا تجھے علم نہیں ہے وہ نہ کر اور فرمایا: ﴿اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ﴾ (ہود: 46) کہ وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے تو اس کو اہل ہی سے کاٹ دیا۔ تو فوراً نوح علیہ السلام نے اللہ پاک سے استغفار کیا۔ اور ان کا بیٹا ڈوب گیا۔ لہذا ابوطالب کا معاملہ بھی تقریباً اسی قسم تھا کیونکہ آپ ﷺ نے دعا بھی کی تھی، انتہائی کوشش بھی کی۔ لیکن انسان دعا کرتا ہے تو کبھی قبول ہو جاتی ہے اور کبھی قبول نہیں بھی ہوتی، دونوں صورتیں ممکن ہیں کیونکہ اللہ پاک مختار ہے۔ اسی طرح آپ اس پر توجہ کریں کہ اگر اللہ پاک نہ چاہے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ لہذا اگرچہ قلبی توجہ ہو، دعا بھی ہو، لیکن اگر اللہ نہ چاہے تو نہیں ہو گا۔ لہذا یہ اللہ پاک کا فیصلہ تھا، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ﷺ نے ابو طالب کے لئے وہ طریقہ اختیار نہیں کیا جو شیبہ کے لئے کیا تھا۔ کیونکہ دعا بھی کی ہے اور دعوت بھی دی ہے اور پورے دل سے دعوت دی ہے۔ بلکہ اس حد تک دل سے دعوت دی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ صرف میرے کان میں کہہ دیں اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ موت کے وقت ان کے ہونٹ ہل رہے تھے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی موت کے بعد ان کا جنازہ نہیں پڑھا تھا، بلکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ اپنے والد کو دفنا دیں۔ ابو طالب صاحب کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ان میں سے جو سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت النبی میں نقل کی ہیں ان کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا تاکہ ساری باتیں سامنے آ جائیں:
"ابو طالب صاحب کی وفات کے وقت آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ابو جہل، عبد اللہ بن ابی امیہ پہلے سے موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: مرتے مرتے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کہہ دیجئے، میں خدا کے ہاں آپ کے ایمان کی شہادت دوں گا۔ ابو جہل اور ابن ابی امیہ نے کہا کہ ابو طالب کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ بالآخر ابو طالب نے کہا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ کی طرف خطاب کر کے کہا میں وہ کلمہ کہہ دیتا لیکن قریش کہیں گے کہ موت سے ڈر گیا۔ آپ ﷺنے فرمایا: میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا جب تک کہ خدا مجھ کو اس سے منع نہ کر دے۔ (متفقٌ علیہ) ابن اسحق کی روایت ہے کہ مرتے وقت ابو طالب کے ہونٹ ہل رہے تھے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس وقت تک کافر تھے، کان لگا کر سنا تو آپ ﷺ سے کہا کہ تم نے جس کلمہ کے لئے کہا تھا ابو طالب وہی کہہ رہے تھے۔ اس بنا پر ابو طالب کے اسلام کے متعلق اختلاف ہے۔ لیکن چونکہ بخاری کی روایت عموماً صحیح مانی جاتی ہے اس لئے محدثین زیادہ تر ان کے کفر ہی کے قائل ہیں۔ لیکن محدثانہ حیثیت سے بخاری کی روایت چنداں قابل حجت نہیں ہے کہ اخیر راوی مسیب ہیں جو فتح مکہ میں اسلام لائے اور ابو طالب کی وفات کے وقت موجود نہ تھے، اس بنا پر علامہ عینی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ روایت مرسل ہے۔ ابن اسحاق نے سلسلہ روایت میں عباس بن عبد اللہ بن معبد اور عبد اللہ بن عباس کا ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں ثقہ ہیں لیکن بیچ کا ایک راوی یہاں بھی رہ گیا ہے اس بنا پر دونوں روایتوں کے درجۂ استناد میں چنداں فرق نہیں۔ ابو طالب نے آپ ﷺ کے لئے جو جاں نثاری کی اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ وہ اپنے جگر گوشوں تک کو آپ پر نثار کرتے، آپ کی محبت میں تمام عرب کو اپنا دشمن بنا لیا، آپ کی خاطر محصور ہوئے، فاقے اٹھائے، شہر سے نکال دیئے گئے، تین تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ کیا یہ محبت، کیا یہ جوش، کیا یہ جاں نثاری سب ضائع جائیں گی؟ یہ بات پہلے کی گئی لیکن اس کے بعد جو note آیا ہوا ہے میں وہ بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ یہ تحقیقی بات ہے اس میں انسان کو اپنی طرف سے بات محتاط انداز میں کرنی چاہیے۔ نوٹ! مصنف کے اس نظریے سے مجھے اتفاق نہیں ہے اس لئے کہ بخاری کی روایت کے آخری راوی حضرت مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو صحابی ہیں۔ ظاہر ہے کہ صحابی کی روایت کسی صحابی سے ہو گی، اس لئے مراسیلِ صحابہ حجت ہیں اور ابن اسحٰق کی روایت منقطع ہے اور چھوٹا ہوا راوی صحابی نہیں ہے۔ خود ابن اسحق بھی استناد کا اعلٰی درجہ نہیں رکھتے، اس لئے دونوں روایتوں کو ایک سا قرار دیا جا سکتا۔ علاوہ بریں حضرت مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی تائید میں خود حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت ہے جو اسی مسیب والی روایت سے اوپر صحیح بخاری میں موجود ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے چچا ابو طالب کو آپ سے کیا فائدہ پہنچا؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لئے آپ کے دشمنوں سے برخاست رہے تھے، فرمایا وہ دوزخ کی آگ میں صرف ٹخنے تک ہیں، مگر اس کا اثر بھی دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم میں تھا کہ ان کا خاتمہ توحید کے اقرار پر نہیں ہوا۔ اس مضمون کی روایت حضرت ابو سعید خدری سے بھی ہے جو صحیح بخاری کے باب قصہ ابی طالب میں اس موقف پر موجود ہے، "وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ"۔"
ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے، اللہ بے نیاز ہیں، ہم اللہ سے بے نیاز نہیں ہیں، ہم ہر وقت محتاج ہیں۔ لہذا سب سے پہلے نیک کام کے لئے ایمان کی ضرورت ہے۔ اور ضروری نہیں ہے نیک کام کرنے والا ہر ایک اللہ والا بھی ہو۔ کیونکہ ایمان، ارادے اور نیت پر dependent ہوتا ہے۔ جیسے "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ"۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ اللہ والے ڈرتے رہتے ہیں، حتٰی کہ وہ نیک کام کرتے بھی رہتے ہیں اور ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ آدمی محنت بھی کرتا ہے، سب کچھ کرتا ہے لیکن کوئی اور مسئلہ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے وہ عمل مقبول نہیں ہوتا۔ جیسے کسی کا رزق حرام ہو یا اس طرح کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی۔ اس لئے ہم لوگوں کو ڈرتے رہنا چاہیے، البتہ کام کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی ڈرتے ڈرتے کام کرتے رہنا چاہیے اور کام کرتے کرتے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح سوچ، صحیح فکر اور صحیح عمل قبولیت کے ساتھ نصیب فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ