خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
غزوۂ حنین فتح مکہ کے بعد پیش آیا، اس غزوہ میں مکہ مکرمہ سے کچھ کفار اس نیت سے حنین چلے گئے کہ مسلمانوں کی شکست دیکھ کر خوش ہو جائیں۔ انہی لوگوں میں شیبہ بن عثمان بھی تھے جن کے والد اور چچا بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
حنین میں ایک وقت پر شیبہ نے موقع پا کر آپ ﷺ پر حملہ کرنا چاہا لیکن اچانک آپ ﷺ کی نظر ان پر پڑ گئی، فرمایا: شیبہ! ادھر آؤ، جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا فرمائی: یا اللہ ان سے شیطان کو دور کر دے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کو کفار کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا۔ جنگ کے بعد آپ ﷺ نے حضرت شیبہ کو فرمایا کہ تم مکہ سے یہ نیت کر کے نکلے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ تم سے نیک کام لینے کا تھا جو کہ ہو کر رہا۔
اس موقع پر آپ ﷺ نے جس طرح ایک کافر کو مسلمان کیا ایسے واقعات آپ ﷺ کی سیرت میں شاذ و نادر ملتے ہیں۔ اکثر آپ ﷺ کا طریقہ دعوت کا ہوتا تھا، لیکن اس موقع پر آپ ﷺ نے جو طریقہ استعمال فرمایا کیا اس کو ہم توجہ کہہ سکتے ہیں؟ اور کیا یہ طریقہ آج بھی کسی کافر کو مسلمان کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
یہ واقعی ایک پورا chapter ہے۔ دعا، دعوت اور توجہ بھی ایک tool ہے، جیسے میں زبان کو استعمال کرتا ہوں اس طرح میں توجہ والی طاقت کو بھی استعمال کر سکتا ہوں، اب یہ توجہ کہاں استعمال ہوتی ہے؟ اس میں تھوڑا سا غور کرنا پڑے گا۔ توجہ سے کوئی انکار نہیں کر رہا، لیکن استعمال کہاں ہوتی ہے؟
میں اکثر توجہ کی ایک explanation دیتا ہوں کہ جیسے کھڈے میں کوئی گاڑی پھنس جائے اور اپنے طور سے اس سے نکلنے کا امکان ہی نہ ہو، اس وقت اس کو external help کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اس گاڑی کو دھکا دے کر سڑک پر لے آئے، پھر اس کے بعد وہ انجن کے ذریعے خود چلنا شروع ہو جائے گی۔
لوگوں کا جو غلط concept ہے کہ میں توجہ سے ہی چلوں گا، مطلب یہ ہے کہ مجھ پر توجہ کی جائے گی، میں خود کچھ نہیں کر سکتا، یہ بے ہمتوں کا کام ہے۔ میں نے عرض کیا "بے ہمتوں کا کام ہے" ہمت کا لفظ یہاں پر استعمال ہوا، تو انسان کو اپنی ہمت استعمال کرنی ہوتی ہے، لیکن اگر وہ ہمت کرکے کام کو پورا نہ کر سکے تو پھر اس کو باہر سے کسی اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو توجہ کہتے ہیں۔ اس طرح یہاں بھی باہر سے کسی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اب یہ اللہ کو پتا ہوتا ہے، لیکن مشائخ کے اوپر اللہ تعالیٰ کھول دیتے ہیں کہ یہ کرنا تو چاہتا ہے لیکن باہر سے خارجی طور پر اس کو روکا جا رہا ہے، اور اس میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اس سے بچ سکے، تو اس وقت ان کی مدد کی جاتی ہے۔ تو شیبہ کے ساتھ یہ مدد کی گئی، اگر یہ general law ہوتا تو پھر ہر ایک کے ساتھ ایسا کرتے، لیکن ہر ایک کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ ہر ایک کے اوپر اس طرح توجہ نہیں ڈالنی چاہیے، بلکہ جہاں پر ضرورت ہو وہاں پر توجہ کا استعمال بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اور مشائخ بھی کرتے ہیں، لیکن لوگ کبھی کبھار اس کے عادی ہو جاتے ہیں، اس سے بے ہمتی پیدا ہوتی ہے۔ یعنی آپ بس دھکا دے دیں، دھکا بے شک آپ گاڑی کو دے دیں لیکن انجن کو تو بند نہ ہونے دیں، اگر آپ نے انجن بند کر دیا تو دھکے سے ہی چلتی رہے گی، پھر گاڑی کا کیا فائدہ؟ وہ گاڑی تو بوجھ بن جائے گی، آپ نے صرف گاڑی کے ساتھ اتنی external helpکرنی ہے جتنی external رکاوٹ ہے، اتنی help آپ کر لیں تو ٹھیک ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ تھا، اس طرح اور بھی واقعات شاذ و نادر ملتے ہیں۔ تو جہاں ضرورت ہو وہاں پر اس طرح کیا جا سکتا ہے۔
اب ایک طرف لوگوں کی نظر اس پر پڑ گئی، اور دوسری طرف جس میں توجہ کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ جب توجہ کرتا ہے تو اس کی نظر اپنے اوپر بھی پڑ سکتی ہے، اس وجہ سے مشائخ نے اس کا ایک نیا version نکالا ہے جو انتہائی مستند ہے، وہ قلبی دعا ہے۔ اب یہی قلبی دعا توجہ کا روپ دھار لیتی ہے، اور انسان جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو نظر اللہ پہ ہوتی ہے، نظر اس پر نہیں ہوتی، لہٰذا اس کو خود disturbance نہیں ہوتا کہ میں کر رہا ہوں، بلکہ اللہ پاک کر رہے ہیں، تو اس سے اس شخص کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے اور اپنی حفاظت بھی ہو جاتی ہے۔
آج کل توجہ کی بہتر صورت یہی ہے کہ قلبی دعا کے ذریعے سے سالک کی مدد کی جائے۔ اور یہ دعا آپ ہر وقت کر سکتے ہیں، تہجد میں دعائیں ہوتی ہیں، اس طرح اور دعائیں ہوتی ہیں۔ البتہ بعض دفعہ خاص طور پر دل ایک خاص نقطے پہ لگ جاتا ہے کہ اس کے لئے دعا کر لیتا ہے، وہ توجہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠