کافروں پر نبی کریم ﷺ کی شفقت اور اس سے حاصل ہونے والا درس

سوال نمبر 288

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام سے پہلے آپ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے، لیکن ایک دفعہ قحط پڑ گیا تھا تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ پوری قوم قحط کی وجہ سے پریشان ہے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے دعا فرما دی تو اللہ تعالیٰ نے قحط دور فرما دیا۔ اس واقعے سے آپ ﷺ کی کافروں پر شفقت کی وضاحت فرمائیں، اور اس سے ہمیں کافروں کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کرنے میں کس قسم کا سبق مل رہا ہے؟

جواب:

سوال میں صرف ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، دوسری بات کی طرف شاید ذہن نہیں گیا، اس لیے دونوں کے متعلق بات ہونی چاہیے۔

ایک تو یہ ہے کہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، آپ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھے، اور آپ ﷺ کو غلط سمجھ رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ دعا کے لیے کیوں آئے؟

دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو یہ اس بات کا بالکل بَیِّن ثبوت ہے کہ جو مخالفت کرتے ہیں وہ اندر سے جانتے ہیں کہ حق پر یہی ہیں۔ میں آپ کو موجودہ دور کی بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ جو محلے اور خاندان والے دین کی بنیاد پر جن باتوں میں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو آپ کے پاس دعا کے لیے آتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی دل میں اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ یہ راستہ حق ہے، لیکن نفس کی ماننا چھوڑ نہیں سکتے اس لیے آپ سے اختلاف کرتے ہیں۔

لیکن اگر کافر ہو تو ایمان دل میں نہیں ہوتا یا مسلمان ہو تو اگر اس کا ایمان کمزور ہو تو جیسے ہی خواہش پوری ہو جائے تو واپس پلٹ جاتے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "کچھ لوگ وہ ہیں کہ جب ان پر مصیبت آ جاتی ہے تو دل سے اللہ کو پکارتے ہیں، پھر جب ان کی مصیبت دور کی جاتی ہے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کو یاد کرتے ہیں۔"

اس وقت دیکھ لو، ابتدا میں جب corona آیا تو یورپ کے بعض ملکوں میں عیسائیوں نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ کہتے ہوئے باقاعدہ جلوس نکالے، گویا اندر ان کا ایک ہوتا ہے، لیکن صرف یہ وجہ ہے کہ ان کو نفس نے روکا ہوتا ہے۔ بنیادی مسئلہ نفس کا ہوتا ہے، نفس پر جب بوجھ آ جاتا ہے تو اس بوجھ اور مصیبت کو دور کرنے کے لئے وہ لوگ اس چیز کی طرف رخ کر لیتے ہیں جس کی وہ مخالفت کر رہے تھے، جیسا کہ کہاوت ہے " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا"۔

فرعون اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ وہ جس گھاٹ سے بھی پانی پیتے تھے تو وہ خون ہوتا تھا، تو بنی اسرائیل والوں کو باقاعدہ request کرتے تھے کہ آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں اور ہمارے ساتھ پانی پیئں لیکن اللہ تعالی کا نظام دیکھو کہ ایک ہی برتن میں بنی اسرائیل والوں کی طرف پانی ہوتا تھا اور فرعونیوں کی طرف خون۔ کئی بار موسی علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے ان سے مصیبتیں ہٹا دی گئیں لیکن پھر مکر جاتے تھے۔

تو یہ معاملہ اس بات کا indication ہوتا ہے کہ اصل میں ان کو پتا ہوتا ہے اور دل سے سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن اصل بات کی طرف نہیں آ رہے ہوتے۔

جہاں تک آپ ﷺ کا معاملہ ہے تو ایک ہوتی ہے امت اجابت، دوسری امت دعوت ہوتی ہے، تو جتنے بھی کافر ہیں یہ امت دعوت ہے، اور آپ ﷺ اپنی امت پہ بڑے مہربان تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کو ہدایت مل جائے، ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے جب ان کے اوپر کوئی تکلیف آ جاتی تو آپ ﷺ سے وہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی تھی، البتہ مخالفت اور حملے کے وقت اپنا دفاع بھی کرنا ہوتا ہے، تو اس کے لئے تلوار چلانی ہوتی تھی، ورنہ عام حالت میں ان کی مصیبت اور تکلیفوں پہ خوش نہیں ہوتے تھے۔ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ پاک اگر کوئی عذاب لے آتا تو افسوس ہوتا لیکن اس پہ کچھ نہیں کہتے تھے، کیونکہ اللہ پاک کے حکم سے آیا ہوتا تھا، لیکن ویسے جو آسمانی آفتیں یا اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں تو شفقت کی وجہ سے مہربانی فرماتے، اور جو کچھ ہوتا تو اس میں آپ ﷺ دعا کے ذریعے ان کی مدد فرماتے۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کو ہر وقت ان کی ہدایت کی فکر ہوتی تھی، تو اگر ان کے لئے ہدایت کی دعا کی جائے اور ان پر اثر ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے موسی علیہ السلام دعا کیا کرتے تھے۔

ہمارے لئے بھی یہ بات ہے کہ اگر ہم کافروں کے ساتھ کسی کام میں اکٹھے ہوں تو اس نیت سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا کہ یہ تو ان کا حق ہے۔ اور حق دینا پڑتا ہے، کافر کا حق بھی آپ غصب نہیں کر سکتے، چاہے آپ دل سے مانیں یا نہ مانیں، بہرحال حق تو ان کا ہے، جیسے آپ ﷺ کا یہودی کے ساتھ ذرہ والے معاملے سے معلوم ہوتا ہے۔

ان کے حقوق کے علاوہ اگر آپ مزید ان کو اس نیت سے خیر پہنچانا چاہیں کہ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے دے تو یہ دعوت کا حصہ بن جاتا ہے۔ تبلیغ والے جو یہ اکرام کرتے ہیں کوئی آتا ہے تو ان کو کچھ کھلاتے ہیں تو یہ دعوت ہی کی نیت سے کرتے ہیں البتہ ہم ان کو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک نمبر اکرام مسلم کا بھی ہے، اور اکرام مسلم کا مطلب سارے مسلمانوں کا اکرام کرنا ہے، جو آپ کی بات مانے یا نہ مانے سب کا اکرام کرنا ہے۔ تو یہ صرف تبلیغ والوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ اگر آپ کے پاس بھی تبلیغ کے لئے کوئی آئے تو آپ ان کا اکرام کریں، آپ سب کا اکرام کریں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ اکرام مسلم آپ کا نمبر ہے اور یہ آپ کو سکھایا جا رہا ہے۔ اور یہ اس لئے سکھایا جا رہا کہ اول تو ان کے حقوق کی بات ہے، اور جیسے میں نے عرض کیا کہ حقوق تو بہرحال دینے ہیں، وہ تو کافر کے بھی آپ دیں گے، اس کے لئے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمان ہے یا کافر ہے، چہ جائیکہ آپ یہ کہہ دیں کہ تبلیغی ہے یا تبلیغی نہیں ہے۔ بلکہ حقوق کے علاوہ آپ ان کے ساتھ شفقت اور نرمی کا جو معاملہ کرتے ہیں تو وہ اگر آپ دعوت کی نیت سے کرتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے، البتہ بحیثیت مسلمان اکرام اپنے طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمانوں کا اکرام کریں، اور اللہ جل شانہ سے ان کے لئے خیر مانگیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَا نَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠