سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 502

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا ذکر 100 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“، 100 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 100 مرتبہ ”حَقْ“ اور 100 مرتبہ ”اَللہ“ ہے۔ اس کا ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“، 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 200 مرتبہ ”حَقْ“ اور 100 مرتبہ ”اَللہ“ کا ذکر مزید ایک مہینہ تک کریں۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم

I sometimes have a lack of motivation. I feel awful alone. I have a terrible lack of توکل. Hazrat I don't know how to solve this?

جواب:

Actually this is a matter of acting upon the procedure that is told to you from time to time. مقام توکل is actually I think 8th مقام, so it will come ان شاء اللہ, but you should try your best to complete your ذکر in time and then after that, your سلوک will be started. So ان شاء اللہ you will reach these مقامات and then ان شاء اللہ it will be okay. But at this time, you can do that which is اختیاری and what is اختیاری? It means that which is in your control, which you can do. So, whatever you can do, you should do by your determination, which is called ہمت. So, you may face problem in this but you should cover this by this determination ان شاء اللہ and the time will come when it will become easy for you.

سوال نمبر3:

السلام علیکم حضرت جی۔ ربیع الاول کے بعد بھی آپ کی برکت سے درود شریف پڑھنے کی سعادت جاری ہے۔ ایک تعداد مقرر کی ہے جو مہینہ پورا ہونے پر آپ کی برکت سے پوری ہو جاتی ہے۔ حضرت جی زبان سے تو درود شریف پڑھتا ہوں مگر دل و دماغ دنیاوی لغویات کی طرف ہی لگے رہتے ہیں۔ بہت کوشش پر تھوڑی دیر کے لئے متوجہ ہو کر پڑھتا ہوں لیکن پھر اِدھر اُدھر کے خیالات آ جاتے ہیں۔ حضرت جی درود شریف متوجہ ہو کر کس طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ درود شریف پڑھتے ہوئے دھیان کیا ہونا چاہیے، سوچ کس طرح ہونی چاہیے اور یہ دھیان و سوچ بر قرار کس طرح رکھے جائیں؟ اللہ پاک آپ کی برکت سے حضور ﷺ کی ذات کی حقیقی محبت نصیب فرمائے اور ان کی سنتوں پر دل و جان سے مکمل چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

جواب:

بعض دفعہ بات بڑی آسان ہوتی ہے لیکن سمجھ مشکل سے آتی ہے۔ پہلے آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ جو آپ کے اختیار میں ہے وہ کریں اور جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے وہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے لئے پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ سے اس کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ مثلاً آپ کے دل میں خود بخود وسوسے آتے ہوں جن پہ آپ کا کوئی قابو نہ ہو، آپ انہیں روکنا بھی چاہیں تو نہ روک سکیں تو ان وساوس کی پروا کرنا چھوڑ دیں، ان کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیں۔ اس کا یہی علاج ہے۔ دراصل شیطان ہمارے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور ہمارا نفس انہیں قبول کر لیتا ہے۔ اگر ہم نفس کو قابو رکھیں ان خیالات و وساوس پر توجہ ہی نہ دیں تو پھر آہستہ آہستہ یہ خیالات و وساوس کم ہونے لگتے ہیں۔

ایک بزرگ کا واقعہ ہے۔ ان کی بھانجی ذہنی مریض تھی۔ کبھی کبھی گھر سے نکل جاتی تھی۔ چونکہ اس کا ذہن قابو میں نہیں تھا اس لئے کبھی کبھی ایسی بے وقوفانہ قسم کی باتیں کرتی تھی جو کوئی عورت اس طرح کھلے انداز میں نہیں کر سکتی۔ بزرگ اس حالت کی وجہ سے بڑے پریشان تھے۔ انہوں نے اپنے متعلقین میں سے ایک ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے اس بزرگ کو تسلی دی اور کہا کہ حضرت اس وقت جیسا حال اس بچی کا ہے سب کا حال ایسا ہوتا ہے، ہم نارمل لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے، لیکن ہم چونکہ صحت مند ہیں اس لئے ہم قابو کر لیتے ہیں اور وہ بات زبان سے نہیں نکالتے۔ چونکہ اس بچی کا ذہن قابو میں نہیں ہے اس لئے یہ اپنے وساوس روک نہیں پاتی اور انہیں اپنی زبان پہ لے آتی ہے، جنہیں سن کر ہم لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہے حالانکہ ہمارے دلوں میں بھی یہ وسوسے آتے ہیں لیکن ہم بولتے نہیں ہیں ان کے بارے میں بات نہیں کرتے۔

آپ بھی اپنے دل و دماغ میں آنے والے خیالات کے بارے میں ایسا ہی سوچیں کہ انہوں نے تو جب آنا ہے تب آنا ہی ہے، ان کا حل یہی ہے کہ آپ ان کی پروا نہ کریں۔ آپ اپنے درود شریف کی طرف دھیان رکھیں۔ دھیان سے مراد یہ ہے کہ آپ درود شریف پڑھنے کی نیت سے درود شریف پڑھیں اورساتھ یہ تصور کر لیں کہ یہ درود شریف آپ ﷺ کے پاس پہنچایا جا رہا ہے۔ بس اتنی بات کافی ہے کیونکہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ امتیوں کا درود آپ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ درود شریف پڑھتے ہوئے یہ نیت اور دھیان رکھیں کہ میں درود شریف پڑھ رہا ہوں اور یہ درود شریف آپ ﷺ تک پہنچایا جا رہا ہے۔ یہی باتیں یقینی ہیں اور اس کے مقابلے میں جو وسوسے آپ کے دل و دماغ میں آتے ہیں وہ کچی باتیں ہیں، ان کی پروا نہ کیا کریں۔ یہی اس کا علاج ہے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم حضرت۔ اس مہینے کی کارگزاری پیش خدمت ہے۔

جہری اذکار:

کلمہ نفی اثبات 200 مرتبہ، ”اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”ھُو“ 600 مرتبہ، ”حَقْ“ 200 مرتبہ، ”حَقْ اَللّٰہ“ 200 مرتبہ، اسم ذات خاموش 5 منٹ، مراقبۂ فنائیت 15منٹ اور اسم ذات 48000 مرتبہ روزانہ جاری و ساری ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ۔ اسی کو جاری رکھیں میں فون پر آپ سے بات کر لوں گا۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم

Sorry, this month, a lot of my prayers were left and I was not able to meditate nicely for 3 days at that time. I went to لکھنو during a function and it was difficult doing them. I did it by action just. I did one prayer by using a towel to cover my head. I don't know whether it was clean or not. Most of the room used to be full of grandfathers and uncles who drink alcohol and gamble and my aunt too.

سوال نمبر6:

السلام علیکم،

I am فلاں. I started doing ذکر

اللہ اللہ three hundred times.

My mother said that doing concentration will increase meditation, but after doing it I started having a lot of dreams. Although when good dreams come, I like them, but I had a nightmare. Should I continue doing it? May اللہ تعالیٰ give you a long happy and healthy life!

Answer:

ماشاء اللہ in ذکر there is no problem. You can do ذکر but as far as علاجی ذکر is concerned, it should be taken from the شیخ. It should not be done by yourself or taken from someone else. Although it could be right, but at the wrong time the right thing also does not work. So therefore, I think you should do whatever has been told to you by me and nothing more. As far as ذکر is concerned, you can do that type of ذکر for example “لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ”‎ from فجر to noon time and from noon to sunset. You can do صلوۃ علی النبی درود شریف and after that استغفار. This can be done in any way because it is مسنون ذکر and you can do it without permission and even because permission has been granted by itself. But as far as the علاجی ذکر is concerned, it should be taken from the شیخ only.

سوال نمبر7:

محترم شاہ صاحب السلام علیکم! بعد سلام مسنون احقر آپ کا تجویز کردہ وظیفہ برائے اصلاح و تزکیۂ نفس قسط نمبر 5، 200، 400، 400، 100 اور ساتھ ہی روزانہ کی بنیاد پر مسنون وظیفہ 100 + 100+ 100، پورا کر رہا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ چند خدشات کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں، سوال پیش خدمت ہیں براہِ کرم رہنمائی فرما دیجیے۔

1: مذکورہ بالا دونوں وظائف یعنی علاجی ذکر اور مسنون ذکر زندگی بھر کے لئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو دورانِ وظیفہ کوئی emergency آئے اور وہ شخص وظیفہ اپنی جگہ پر روک کر emergency attend کرے تو بعد میں یہ شخص وظیفہ از سرنو شروع کرے گا یا جہاں پر روکا تھا وہیں سے شروع کرے گا؟

2: بعض اوقات بقدرِ ضرورت دونوں اذکار بغیر وضو کے کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟

3: مذکورہ بالا اذکار صرف بیٹھ کر کیے جائیں یا کھڑے ہو کر یا گھومتے پھرتے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ خاص کر مسنون ذکر اذکار کے وقت کا تعین ضروری سمجھا جائے گا یا دن رات میں کسی وقت بھی کیے جا سکتے ہیں؟

4: کیا دورانِ ذکر کسی ضروری بات کا جواب دیا جا سکتا ہے مثلاً اذان کا جواب دینا یا دنیاوی بات جو ضروری ہو؟ و السلام۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑے Reasonable questions ہیں اور اس طرح کے سوالات کے لئے یہ forum بہت اچھا ہے کیونکہ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نمبر وار سب سوالوں کے جوابات دیتے ہیں:

ذکر تو آپ یوں کریں کہ 200، 400، 600 اور 100 کر لیں۔ یعنی 600 دفعہ ”حق“ کا ذکر کریں اور باقی ذکر ویسے ہی کرتے رہیں۔ مسنون ذکر بھی اتنا ہی کر لیا کریں جتنا چل رہا ہے۔

1: اگر دوران وظیفہ کوئی emergency آئے تو وظیفہ چھوڑ کر اس emergency کو کر لیں۔ اگر صرف تھوڑی دیر کے لئے تسلسل ٹوٹا ہو تو آ کر اُدھر ہی سے شروع کر لیں اور اگر زیادہ دیر ہو گئی ہے مثلا 2 3 گھنٹے گزر گئے ہیں تو پھر ابتدا سے شروع کیا جائے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ علاجی ذکر کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں ہر ذکر دوسرے ذکر کے لئے بنیاد اور step ہے۔ جیسے ورزش میں ہوتا ہے۔ اگر ورزش میں تھوڑا وقفہ آ جائے تو آپ اُدھر ہی سے شروع کر لیتے ہیں لیکن اگر زیادہ وقفہ آئے تو پھر آپ کو نئے سرے سے پوری ترتیب کے ساتھ ورزش شروع کرنا پڑتی ہے۔ علاجی ذکر میں بھی یہی صورت اختیار کریں کہ اگر زیادہ دیر گزر جائے تو پورا ذکر نئے سرے سے کریں، اگر زیادہ دیر نہ گزری ہو بس تھوڑی دیر کے لئے انقطاع ہوا ہو، جیسے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ اپنی جگہ سے اُٹھے اور دروازہ کھول کے واپس آ گئے یا کسی بچے کے گرنے کی آواز آئی آپ نے ذکر روک کر اسے اٹھایا پھر واپس آ گئے، ایسی صورت میں وہیں سے ذکر شروع کر لیا کریں جہاں سے چھوڑا تھا۔

2: بعض اوقات بقدرِ ضرورت دونوں اذکار (علاجی و مسنون) بغیر وضو کے کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ جی ہاں بالکل! بغیر وضو کے بھی یہ دونوں اذکار کیے جا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ بغیر وضو کے زبانی قرآن پاک بھی پڑھا جا سکتا ہے، جب قرآن پاک بغیر وضو کے زبانی پڑھنا جائز ہے تو ذکر کرنا تو بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔

مجھے ایک فاضل دیوبند عالم نے فرمایا تھا: ”شبیر یاد رکھو درود شریف بغیر وضو کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ شیطان پہلے وضو نہیں رہنے دیتا، پھر کہتا ہے بغیر وضو کے درود شریف نہیں پڑھ سکتے، اس طرح شیطان درود شریف سے روک دیتا ہے“۔

اس وجہ سے اگر ضرورت پڑ جائے اور وضو کا موقع نہ ہو تو بغیر وضو کے بھی درود شریف پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح علاجی و ثوابی اذکار بھی کر سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے کہ وضو کے اپنے فائدے مسلم ہیں، وضو کی وجہ سے جو نورانیت اور صفائی ہوتی ہے وہ بغیر وضو کے نہیں مل سکتی۔ وضو مومن کا اسلحہ ہے، اس کے ذریعے شیطان اور باقی شیطانی چیزوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ جب آپ اپنی اصلاح کی نیت سے بیٹھیں گے تو شیطان اپنا کام کرے گا اور آپ کی راہ میں روڑے اٹکائے گا۔ شیطان کے ان مسائل کے مقابلہ کے لئے وضو بہت مفید ذریعہ ہے۔

فتویٰ اور فقہی مسئلہ کے لحاظ سے بغیر وضو کے زبانی قرآن پاک پڑھنا، درود شریف پڑھنا اور علاجی و ثوابی اذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بالکل جائز ہے، لیکن اثر کے لحاظ سے ضرور فرق آئے گا جو ذکر وضو کر کے کیا جائے گا اس کا اثر اور ہو گا اور بغیر وضو کے جو ذکر کیا ہو گا اس کا اثر اور ہو گا۔ حتیٰ کہ آپ نماز میں جو تلاوت کرتے ہیں اس کی بات اور ہوتی ہے ویسے جو تلاوت کرتے ہیں اس کی بات اور ہوتی ہے، وضو کے ساتھ جو تلاوت کرتے ہیں اس کی بات اور ہوتی ہے بغیر وضو کے تلاوت کی بات الگ ہوتی ہے۔ لہٰذا اتنی بات مسلم ہے کہ اثر کے لحاظ سے فرق پڑے گا۔ چونکہ علاجی ذکر کا انحصار اثر پر ہے اس لئے آپ علاجی ذکر کرتے ہوئے وہ تمام اسباب مہیا کریں جو اس وقت آسانی سے آپ کے لئے ممکن ہوں، تاکہ اس کی افادیت میں کوئی فرق نہ آئے۔ مثلاً اگر آپ ہر دن علاجی ذکر وضو کے ساتھ کر رہے ہیں، ایک دن آپ نے بغیر وضو کے کر لیا تو اس کی وجہ سے تھوڑی بہت کمی تو لازماً ہو گی، گویا کہ ترقی کی رفتار سست ہو گئی۔ اس وجہ سے بہتر یہی ہے کہ با وضو ذکر کر لیا کریں۔ لیکن اگر سفر میں ہیں اور خطرہ ہے کہ اگر وضو کا انتظار کروں گا تو گاڑی نکل جائے گی، ایسے حالات میں آپ بغیر وضو کے بھی کر لیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

3: مذکورہ بالا اذکار صرف بیٹھ کر کیے جائیں یا کھڑے ہو کر یا گھومتے پھرتے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ خاص کر مسنون ذکر اذکار کے وقت کا تعین ضروری سمجھا جائے گا یا دن رات میں کسی وقت بھی کیے جا سکتے ہیں؟ ثوابی اذکار آپ بیشک کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے، گھومتے پھرتے کر لیں، جتنا ثواب ملنا ہو گا مل جائے گا۔ توجہ اور یکسوئی کے حساب سے ثواب میں فرق ضرور آتا ہے، اگر اس کو زیادہ توجہ کے ساتھ کریں گے تو اس کا ثواب زیادہ ہو گا آپ کے دل میں اس کے لئے جتنی وقعت زیادہ ہو گی اس کا ثواب اتنا زیادہ ہو گا، اس کے باوجود ذکرِ ثوابی کسی بھی حالت میں کر سکتے ہیں لیکن علاجی ذکر ہر حالت میں قبلہ رخ بیٹھ کے ہی کرنا ہے، اور اس سے پہلے تمام ڈسٹریکشنز اور ڈسٹربنس کی چیزیں اپنے پاس سے ہٹا لینی ہیں، اس ذکر کے لئے کوئی ایسا وقت مقرر کریں جس میں آپ کو اور کوئی کام نہ ہو، کوئی آپ کو تنگ نہ کرسکتا ہو۔ تاکہ بغیر کسی تنگی کے آپ اس کو جاری رکھ سکیں اور اس کا جتنا اثر ہونا چاہیے وہ اثر آپ کو حاصل ہو جائے۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اس کے لئے وقت مقرر کیا جائے اور پھر اسی مقرر وقت پہ علاجی ذکر کیا جائے۔ اس کے 2 فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ ناغہ سے بچا جاتا ہے۔

اگر ایک وقت مقرر نہ ہو بلکہ روزانہ الگ الگ وقت پہ کام کیا جائے تو انسان اس معاملہ میں ڈھیلا پڑ جاتا ہے، اور پہلی فرصت میں نہیں کرتا، ٹال مٹول کرتا ہے کہ اچھا کچھ دیر بعد کر لوں گا، اور اس طرح آخر کار وہ معمول رہ جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ یہ مسئلہ ذرا زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مرد جماعت کی نماز کے پابند ہوتے ہیں، ان کی نماز تو اپنے وقت پہ ہو جاتی ہے لیکن خواتین کے لئے چونکہ جماعت کی نماز نہیں ہے، اس لئے یہ اپنے دوسرے کاموں کی وجہ سے نماز موخر کرتی رہتی ہیں کرتی رہیں یہاں تک کہ مکروہ وقت داخل ہو جاتا ہے اور یہ اچھے خاصے دین دار گھرانوں کی بات بتا رہا ہوں۔ اگر وہ اپنے آپ کو وقت کا پابند کر لیں تو یہ مسئلہ نہیں ہو گا، ورنہ یہ مسئلہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ نماز قضا بھی ہو جائے گی۔

4: کیا دورانِ ذکر کسی ضروری بات کا جواب دیا جا سکتا ہے مثلاً اذان کا جواب دینا یا دنیاوی بات جو ضروری ہو؟ بالکل دیا جا سکتا ہے! اذان کا جواب دینا تو مسنون ہے۔ علاجی ذکر کے لئے ایسا وقت منتخب نہیں کرنا چاہیے جس میں اذان آتی ہو۔ اس سے پہلے والا وقت منتخب کر لیں کہ ذکر کے ختم ہونے تک اذان ہونے کا امکان نہ ہو یا پھر اذان کے بعد نماز پڑھ کے ذکر کر لیا کریں۔ یا پھر اذان اور نماز کے دوران جو وقفہ ہے اگر آپ کو یقین ہو کہ اس میں میرا ذکر پورا ہو جائے گا تو اس وقت میں بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے ایسا وقت مقرر کریں جس میں اذان نہ ہو۔ تاکہ آپ آرام سے اپنا ذکر بغیر کسی رکاوٹ کے پورا کر سکیں۔ پھر بھی اگر کبھی کوئی صورت ایسی بن جائے کہ ذکر کے دوران اذان شروع ہو جائے تو ذکر کو روک کر اذان کا جواب دینا زیادہ اہم ہے، پھر پہلے اذان کا جواب دے دیا کریں اور اپنا ذکر بعد میں پورا کر لیا کریں۔

میں اکثر واک وغیرہ کے لئے جاتا ہوں، راستے میں کئی لوگ واک کرتے ہوئے وظیفہ کر رہے ہوتے ہیں، تسبیحات پڑھ رہے ہوتے ہیں، جب انہیں سلام کیا جائے تو وہ جواب نہیں دیتے، ان کا خیال ہے کہ ان کا وظیفہ ٹوٹ جائے گا حالانکہ سلام کا جواب دینا اس وظیفہ سے اعلیٰ چیز ہے، اس اعلیٰ کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ادنیٰ کو لے لیا جاتا ہے۔ یہ نا سمجھی کی بات ہے۔ ایسے موقع پر سلام کا جواب دینا چاہیے۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔ حضرت صاحب آپ نے جو معمول دیا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے فجر کی نماز قضا ہوئی ہے باقی چاروں نمازوں میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ جہاں میں کام کرتا ہوں وہ میڈیکل سٹور ہے جہاں میری رہائش ہے، وہاں میں وقت پر اٹھ نہیں پاتا، فجر کی نماز اکثر رہ جاتی ہے۔ ذکر یہ چل رہا ہے: ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“ 200 مرتبہ اور 400 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا ھُو“۔

جواب:

آپ ایسا کر لیں کہ مجھے آڈیو میسج بھیج دیں، کیونکہ آپ کا خط مجھے سمجھ نہیں آ رہا، آپ نے کاغذ پر اپنی بات لکھ کر اس کی تصویر بھیجی ہے جسے میں ٹھیک سے دیکھ اور پڑھ نہیں پا رہا۔ اس لئے یا تو آپ صاف واضح لکھ کر بھیجیں یا پھر آڈیو بھیج دیں۔

مفتی سے مسئلہ پوچھنا ہو یا شیخ کو اپنے احوال بتانے ہوں تو اس کے لئے خط کا ٹھیک ہونا ضروری ہے۔

حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب نے ہمیں ایک واقعہ سنایا تھا۔ کہتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی زکی صاحب نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کو خط لکھا تو حضرت نے ان کو جواب میں لکھا: بیٹا اپنا خط بہتر کر لو خوش خط کر لو، دیکھو میں ابھی سے آپ کو صوفی بنا رہا ہوں۔

اس کا مطلب ہے کہ صحیح صوفی اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ میں کسی کو تکلیف تو نہیں دے رہا۔ خط میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ میں کسی کو تکلیف تو نہیں دے رہا، میرا خط پڑھنا آسان ہے یا مشکل ہے۔ اس لئے اپنا خط بہتر کر لیں یا پھر اردو کا کی بورڈ استعمال کرنا سیکھ لیں، اس میں آپ کو خوش خطی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ بے شک وقت زیادہ لگ جائے گا لیکن جو آپ لکھیں گے کم از کم وہ سمجھ میں تو آئے گا۔ آپ اس کی پریکٹس کر لیں۔ میرے خیال میں ایک ہفتہ پریکٹس کرنے سے آپ کا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، آپ کا مسئلہ حل ہو گا تو ساتھ ہمارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم۔ حضرت جی۔ آپ نے 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 10 منٹ دل کا مراقبہ دیا تھا، 2 مہینے پورے ہو گئے لیکن دل سے اللہ اللہ سنائی نہیں دیتا۔ مراقبے کے دوران بار بار خیال اور سوچیں آتی رہتی ہیں۔

جواب:

مراقبے کے دوران خیالات سے پریشان نہ ہوا کریں، ان کی طرف توجہ نہ دیں۔ ذکر کی ترتیب 200 مرتبہ 400 مرتبہ 600 مرتبہ حق کر لیں۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اللہ کتنی مرتبہ کرتے ہیں۔ یہ بتا دیں پھر آپ کو اگلا سبق مل جائے گا۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم۔ آپ نے جو ذکر بتایا تھا ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ إلَّا ھُوْ“ 600 مرتبہ، ”حق“ 400 مرتبہ، ”اللہ“ 100 مرتبہ۔ اس کا 1 مہینہ ہو گیا ہے، آگے مزید ذکر دے دیں۔ شکریہ!

جواب:

اب آپ 200، 400، 600 اور 100 کر لیا کریں۔ مزید 1 مہینہ تک یہی کریں، پھر اطلاع کریں۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم!

I have been reciting اللہ اللہ three thousand times followed by

”یَا اَللّٰہُ، یَا سُبْحَانُ، یَا عَظِیْمُ، یَا رَحْمٰنُ، یَا رَحِیْمُ، یَا وَھَّابُ، یَا وَدُوْدُ، یَا کَرِیْمُ“

100 times for the past month.

جواب:

so please include یا شافی as well.

سوال نمبر12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

I hope حضرت is well and the family. I wanted to ask حضرت what are the signs of نفسِ مطمئنہ and what is meant by حقیقتِ ایمان? when will سیر الی اللہ be regarded as complete جزاک اللہ خیر?

جواب:

Main three questions in one question. As far as نفس مطمئنہ is concerned, actually you have to act upon the instructions of شریعہ in any condition, whether you like or you do not like. By hook or by crook, you have to do it. But when you attain, when you get نفس مطمئنہ. Then after that, it becomes easy for you to act upon the instructions of شریعہ and your عقائد becomes ماشاء اللہ okay. So, this is needed and for that reason you have to complete ten مقامات of سلوک essentially. So as far as the theoretical point is concerned, I have explained it is this. But as far as the practical aspect is concerned, I think it should be left to شیخ at whatever time he considers it either complete or not. Just like a patient, if you go to a doctor, maybe he considers himself okay, but the doctor will know that he is not okay. Maybe the signs of illness are gone, but actually the disease is not finished, for example, Tuberculosis. So in Tuberculosis, when you start medicine after three or four months, all the signs are finished and the person does not feel anything of that disease but still his disease is there, because if he does not use these medicines, maybe all the conditions return. So at that time, it’s very important to be in contact with the doctor otherwise maybe he will leave the medicine and after that it may return. So, then it will be very difficult for him to control it again. Therefore, one should depend upon the instructions of the شیخ and he should not see this. Although I explained these things as far as the theory is concerned. As far as the practical nature is concerned, it varies from person to person. It’s not same for all so therefore these practical aspects should be under consideration if a person is in need for that so that the سیر الی اللہ is complete with which نفس مطمئنہ will be obtained because سیر الی اللہ is to remove all the رذائل, or suppress the رذائل, so when these are suppressed then نفس مطمئنہ will be achieved. As far as the حقیقت ایمان yes, it means if for example, when you say there is آخرۃ,

﴿وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرہ: 4)

so if you see آخرت is there but you are not preparing for it, so you have ایمان but you have not gotten حقیقت ایمان because حقیقت ایمان will put that effect upon you which should be there just like مقام تسلیم about which مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ said that when a person gets مقامِ تسلیم then he becomes a real مسلم, and achieve حقیقت اسلام, because he accepts all the things of اسلام by his heart. There is no resistance in his heart for that and this effect of ایمان should have, if you achieve. So then you will get the reality of ایمان.

ان شاء اللہ۔

سوال نمبر13:

مراقبہ کو پورا 1 ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ الحمد للہ پیشانی پر بھی بالکل ویسے ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے جسم کا ہر حصہ ذکر کرتا ہے۔

جواب:

آپ کو جو بتایا تھا وہ آپ نے نہیں لکھا کہ کیا بتایا تھا، کونسا مراقبہ بتایا تھا، وہ بتا دیں پھر آئندہ کا سبق مل جائے گا۔

ایک دفعہ میں ڈاکٹر ریحان کے پاس گیا، انہوں نے مجھے کچھ دوائیاں لکھ کے دے دیں۔ میں واپس گاؤں چلا گیا۔ اگلی بار دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا تو میرے پاس وہ prescription نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: وہ آپ کی جو دوائی لکھی تھی اس کا نسخہ کدھر ہے۔ میں نے کہا وہ تو میرے پاس اب نہیں ہے، آپ نے ہی لکھ کے دی تھی، آپ کو یاد ہوگا۔

وہ کہنے لگے: میرے پاس ہزاروں مریض آتے ہیں میں کس کس کے بارے میں یاد رکھوں گا کہ کس کس کے لئے کیا کیا دوا لکھی تھی۔

ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ مجھے یاد نہیں ہوتا کہ کس کس کو کیا کیا اذکار اور کونسے مراقبات بتائے تھے۔ اس لئے مہربانی کر کے اپنے احوال مکمل لکھا کریں، جو ذکر دیا ہو وہ بتا دیا کریں، اس میں جو مسائل پیش آ رہے ہوں وہ بھی بتا دیا کریں، اس کے جو اثرات آپ کو محسوس ہو رہے ہوں وہ بتا دیا کریں انہی کو احوال کہتے ہیں اور یہی شیخ کو بتانے ہوتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ان چیزوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بوڑھا آدمی آیا اور حضرت سے کہنے لگا کہ تعویذ دے دیجئے۔ حضرت نے فرمایا: باہر جا کر سوال کرنا سیکھیں پھر آ کر سوال کریں تب جواب دوں گا۔ وہ بڑا حیران ہو گیا کہ یہ کیا بات ہے، مجھ سے کیا غلطی ہوئی۔ بہرحال سمجھدار آدمی تھا، باہر آ کر لوگوں سے کہا کہ مجھے حضرت کہہ رہے ہیں پہلے سوال ٹھیک کر لو اس کے بعد جواب دوں گا۔ انہوں نے پوچھا آپ نے کیا سوال کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے کہا تھا تعویذ دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کون سا تعویذ اور کس مسئلہ کے لئے تعویذ۔

تب اسے سمجھ آئی کہ غلطی کیا تھی۔ بھئی آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو کس مسئلہ کے لئے تعویذ چاہیے۔ آپ دکان دار کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ مجھے چیز دے دو جب تک آپ بتائیں گے نہیں کہ کون سی چیز چاہیے، تب تک دکاندار آپ کو کیسے وہ چیز دے پائے گا جو آپ کو چاہیے؟ اس لئے احوال مکمل اور واضح کرکے لکھا کریں۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم۔ حضرت میرا درج ذیل ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ 200، 400، 600 اور 11500 مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر۔ عبادات میں پہلے والا انہماک نہیں، توجہ کی کمی ہے۔ دیگر احوال یہ ہیں کہ میں بہت فضول خرچ ہو گیا ہوں بلا ضرورت چیزیں خریدتا رہتا ہوں پہلے خریدی گئی اشیاء کو بدلنے کا بھی سوچتا رہتا ہوں وقتاً فوقتاً اپنے رذائل سامنے آتے رہتے ہیں لیکن جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو سب بھول جاتا ہوں اور ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہو جاتا ہے۔ براہِ مہربانی مزید ہدایت فرمائیں۔

ہدایت نمبر 1:

ابھی آپ ”اللہ اللہ“ کا ذکر 12000 مرتبہ کریں۔

ہدایت نمبر 2:

اختیاری اور غیر اختیاری میں فرق سیکھ لیں۔ جو چیز آپ کے لئے اختیاری ہے اس میں ہمت سے کام لیں اور جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے اس کی پروا نہ کریں۔ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا مشہور فارمولا ہے اس پر عمل کریں۔ اب آپ فضول خرچ ہو گئے ہیں تو آپ اپنے آپ سے خود پوچھیں کہ یہ اختیاری ہے یا غیر اختیاری، آپ کو جواب مل جائے گا۔ اگر اختیاری ہے تو اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آپ اس کو روک بھی سکتے ہیں اور اگر غیر اختیاری ہے تو پھر پروا نہ کریں۔

آپ کہتے ہیں کہ جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو اپنے رذائل بھول جاتا ہوں۔ تو مجھے نہیں معلوم کہ کوئی شخص اپنی بیماری بھول جاتا ہو۔ کیا کبھی کوئی ڈاکٹر کو اپنا حال بتاتے ہوئے اپنی بیماری بھولتا ہے؟ مثلاً کوئی آدمی TB میں مبتلا ہو یا Hepatitis میں مبتلا ہو اور ڈاکٹر کے پاس آ کر بھول جاتا ہو کہ میں بھول گیا ہوں کہ مجھے کون سی بیماری ہے۔ ہم نے تو آج تک ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو اپنی بیماری بھول جاتا ہو۔

آپ میں صرف توجہ کی کمی ہے، اختیاری توجہ کی بات کر رہا ہوں غیر اختیاری کی نہیں۔ آپ میں اختیاری توجہ کی کمی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جب آپ کو یاد آ جائے آپ اسی وقت اپنے پاس نوٹ کر لیا کریں۔ آج کل تو موبائل پر ریمائنڈر، نوٹس اور ڈائری وغیرہ یہ ساری سہولتیں موجود ہیں۔ ان سے کام لیں، جب بھی کوئی بات یاد آئے اپنے پاس نوٹ کر لیا کریں بعد میں لکھ کے بھیج دیا کریں۔

میرے پاس بعض حضرات آتے تھے، وہ اپنے حالات پہلے سے لکھ کر لے آتے تھے، پھر اسی سے دیکھ کر پوچھتے تھے۔ بعض دفعہ آدمی عین وقت پر بتانا بھول جاتا ہے، بات نہیں بھولتا صرف بتانا بھول جاتا ہے۔ اس کے حل کے لئے لکھ لینا ایک بہت اچھی عادت ہے، آپ بھی ایسا ہی کر لیا کریں بعد میں اکٹھا پوچھ لیا کریں۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم حضرت جی! میرا ذکر 1000 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“، 1000 مرتبہ ”حق“، اور 1000 مرتبہ ”اللہ“ ہے، اس کے بعد 5 منٹ ہر لطیفہ پر اللہ اللہ سننا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ کر رہے ہیں اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا کہ اس کی شان ہے اس کے مطابق آپ ﷺ کے دل پر وہاں سے شیخ کے قلب پر وہاں سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔

حضرت جی۔ الحمد للہ حالت ایسی ہے کہ جو کچھ بھی ہو جائے پہلی نظر اللہ تعالیٰ کی ذات پر جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوا ہے اور جیسے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو وہی میرے لئے ٹھیک ہے۔ کوئی فکر یا کچھ ہونے یا نہ ہونے کا خوف نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی طرف دھیان رہتا ہے۔ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے راضی ہو جائے اور مجھے اپنا بنا لے اور خود میرا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسی تڑپ ہے کہ ڈر رہتا ہے کہیں ملنگوں کی طرح جھومنا شروع نہ کر دوں۔ عشقِ الہی کے متعلق کچھ بھی سن لوں تو اپنے آپ کو بہت مشکل سے قابو کرتا ہوں۔ حضرت جی اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کی سرپرستی اور سلسلے کی برکت ہمیشہ سلامت رہے۔

جواب:

آپ اس کو جاری رکھیں۔ اب لطیفۂ روح پر اللہ پاک کی صفاتِ ثبوتیہ یعنی آٹھ صفات کے فیض کے بارے میں تصور کریں کہ اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔

سوال نمبر16:

حضرت جن مقامات سلوک کا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے کیا باقی سلاسل میں یہ مقامات ہیں؟

جواب:

ماشاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ جی ہاں بالکل باقی سلاسل میں بھی یہ مقامات ہیں بلکہ باقی سلاسل میں ابتدا ہی سے مقامات ہوتے ہیں، ابتداء میں جذب والی بات نہیں ہوتی۔ پہلے ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اب باقی سلاسل میں بھی کچھ نہ کچھ جذب والی ترتیب آ گئی ہے۔ سلوک کے مقامات کی تعداد میں کچھ اختلاف ہے بعض حضرات نے اس کو 10 سے زیادہ بھی بتایا ہے، جبکہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق مقامات سلوک دس ہیں۔ میں نے ان میں خوب غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان 10 مقامات میں باقی سارے مقامات بھی آ ہی جاتے ہیں۔ کشمیر کے بزرگ حضرت خواجہ ہمدانی رحمۃ اللہ کے ہاں 25 مقامات ہیں، کسی کے ہاں اس سے بھی زیادہ ہیں، لیکن ہمارے خیال میں حضرت مجدد صاحب والے دس مقامات کے ذیل میں باقی بھی آ جاتے ہیں۔

سوال نمبر17:

ایک آدمی اگر مدرسے میں 8 سال لگاتا ہے یا تبلیغ میں 4 مہینے یا سال لگاتا ہے تو کم از کم اس کو نفسِ مطمئنہ اس حد تک تو حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ شریعت کے احکامات پہ آسانی کے ساتھ عمل کر سکتا ہے، بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں رہتی ہے۔ کیا اس کے لئے بھی سلوک طے کرنا ضروری ہے یا جتنا اس نے کر لیا اتنے سے بھی کام چل جائے گا؟

جواب:

اس کے جواب میں میں آپ سے سوال کرتا ہوں۔ یہ بتائیں کہ کیا تبلیغی جماعت میں چلنے سے معاملات درست ہو جاتے ہیں؟ نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ تبلیغی جماعت میں جانے سے مکمل اصلاح نہیں ہوئی۔ میں نے خود تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے سنا ہے، کوئی کچی بات نہیں کر رہا ہوں، خود تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے سنا ہے کہ تبلیغی جماعت میں اب تک عبادات ہی درست ہو پاتی ہیں، معاملات پہ ابھی ہم نہیں پہنچے۔

اس کے علاوہ تبلیغی جماعت میں تو علم بھی پورا نہیں دیا جاتا۔ علم کے لئے انہیں علماء کے پاس جانا ضروری ہے، گویا وہ تبلیغ میں جا کر دین کی طلب اور تڑپ حاصل کرتے ہیں تاکہ علماء کے پاس جا کر دین سیکھیں، اور یہ تبلیغی جماعت کی بڑی اچھی کامیابی ہے۔ آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ جذب حاصل کر لیتے ہیں لیکن نفس مطمئنہ ابھی حاصل نہیں ہوا اسے حاصل کرنے کے لئے مجاہدہ، محنت اور سلوک طے کرنے کی ضرورت ہے جو علمی طور پر علماء سے اور تربیتاً مشائخ سے حاصل ہوتا ہے۔

سوال نمبر18:

حضرت جی میرا درج ذیل ذکر چل رہا ہے: 200 بار ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“، 400 بار ”لَا اِلٰہَ إلَّا ھُو“، 600 بار ”حق“ اور 500 بار اللہ۔ اس کے ساتھ 15 منٹ اللہ کا ذکر قلبی بھی جاری ہے۔ یہ سارے ذکر میں تہجد اور فجر کی نماز کے درمیانی وقت میں کرتا ہوں۔ قلبی ذکر میں کئی بار غنودگی کا اثر آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے توجہ ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ دل ذکر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک چیز جو میں شدت سے محسوس کرتا ہوں وہ یہ کہ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مجھے اپنے شعبے کے اندر کام کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔

میرا تعلق laser optics کے شعبے سے ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ جو چیز مجھے اندر سے push کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میرے کام کے حوالے سے مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مجھے حکم آ رہا ہے کہ اس شعبے کے اندر بہت زیادہ کام کیا جائے۔ laser کے معاملے میں ہماری lab پاکستان میں واحد lab ہے جس میں کام ہو رہا ہے۔ پچھلے 30 سال میں اس شعبے میں جو کام نہیں ہوئے تھے وہ پچھلے 2 سالوں میں ہوئے ہیں جب سے میں ان معاملات میں آپ کے ساتھ جڑا ہوں۔ میری روح اور اندر کی کیفیت یہ ہے کہ اب میں وہ کام اپنے لئے نہیں کرنا چاہ رہا، صرف نوکری نہیں کرنا چاہتا بلکہ میں رات دن پڑھتا بھی ہوں۔

جواب:

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ علیہ کو اللہ جل شانہ نے بہت وسیع ظرف عطا فرمایا تھا، جو ان کی تعلیمات سے ظاہر ہے۔ ہمارے ایک پیر بھائی تھے ڈاکٹر سرفراز صاحب، جب ان کی میڈیکل کالج میں سلیکشن ہو گئی تو چند دن بعد وہ حضرت کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت میں کالج چھوڑ رہا ہوں کیونکہ یہاں مخلوط تعلیم ہے ہر وقت خواتین ساتھ ہوتی ہیں، میں اس ماحول میں نہیں رہ سکتا اس لئے میں چھوڑ رہا ہوں۔ حضرت نے ان سے فرمایا: وہ نہیں چھوڑ رہے ہیں اور آپ چھوڑ رہے ہیں؟ دم دبا کے بھاگ رہے ہیں کیا وجہ ہے؟

اس طرح بات کر کے حضرت نے پہلے تو ان کو اس پہ تیار کیا کہ بھاگنا نہیں ہے۔

اس نے کہا: حضرت میرا ارادہ یہ ہے کہ میں کسی مدرسے میں داخلہ لے لوں اور عالمِ دین بن جاؤں۔

حضرت نے فرمایا: الحمد للہ علماء تو ہیں لیکن خدام نہیں ہیں، آپ ان کے خادم بننے کی نیت کر لیں۔ اس شعبہ میں اللہ والوں کی کمی ہے اس کمی کو پورا کریں۔ اسے چھوڑ کے نہ جائیں۔

حضرت مجھے جانتے تھے کہ میں کون سے شعبے میں ہوں، اس حوالے سے حضرت کی خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ جب میں حضرت کے پاس جاتا اور لوگ چلے جاتے، تنہائی میسر ہوتی تو حضرت مجھ سے اس بارے میں خصوصی گفتگو فرماتے تھے۔ حضرت کی ترجیح اور زور اس بات پر ہوتا تھا کہ لِلّٰہیَّت آ جائے پھر آپ جس شعبے میں بھی ہوں گے اس شعبے کے لئے خیر کا باعث بنیں گے۔ سارے ہی شعبے اہم ہیں، جیسے جسم کا ہر ہر عضو اہم ہے اس طرح معاشرے کا ہر ہر عضو، ہر ہر شعبہ اہم ہے۔ البتہ اتنی بات ہے کہ کوئی اپنے نفس کے لئے کر رہا ہے اور کوئی اپنے اللہ کے لئے کر رہا ہے۔ لہٰذا آپ جو بھی کر رہے ہیں جہاں بھی کر رہے ہیں اپنی نیت کو خالص اللہ کے لئے خاص کر دیں۔

ذکر کی یہ ترتیب کر لیں کہ اللہ کا ذکر ہزار مرتبہ کیا کریں باقی ویسے ہی جاری رکھیں اور پندرہ منٹ کا مراقبہ بھی ویسے ہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ 15 منٹ کے لئے کرتا ہوں، الحمد للہ محسوس ہو رہا ہے۔

جواب:

آپ لطیفۂ سر پر مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ شروع کر لیں۔

نمبر 2:

40 دن کا ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے الحمد اللہ۔

جواب:

اب ان کو اگلے ایک ماہ کے لئے تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور اس کے ساتھ 10 منٹ قلب کا ذکر دے دیں۔

نمبر 3:

10 منٹ کے لئے ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“ کا ذکر 1 ماہ کر لیا ہے۔

جواب:

اب یہی ذکر اگلے ایک ماہ تک 15 منٹ روزانہ کیا کریں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب 10 منٹ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر پہ 15 منٹ ذکر کریں۔

نمبر 5:

لطیفۂ قلب 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ کر لیں۔

نمبر 6:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 15 منٹ۔

جواب:

پہلے 3 لطائف 10، 10 منٹ اور چوتھے پہ 15 منٹ کر لیں۔

نمبر 7:

لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو 10 منٹ رکھیں اور 15 منٹ لطیفۂ روح کا رکھیں۔

نمبر 8:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان سب لطائف پہ 10 10 منٹ کر لیں اور اس کے ساتھ 15 منٹ کے لئے مراقبۂ احدیت کیا کریں۔

نمبر 9:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ۔

جواب:

پہلے 3 لطائف کا ذکر 10 منٹ کر لیں اور چوتھے لطیفہ کا 15 منٹ کیا کریں۔

نمبر 10:

لطیفۂ قلب 10 منٹ لطیفۂ روح 15 منٹ۔ لطیفۂ روح پر ذکر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب پر 10 منٹ اور لطیفۂ روح پر 20 منٹ ذکر کریں۔

نمبر 11:

تمام لطائف پر ذکر 10 منٹ اور مراقبۂ احدیت 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو مراقبۂ احدیت چھڑوا کے تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ 15 منٹ کے لئے دے دیں۔

نمبر 12:

5 منٹ کا ذکر۔

جواب:

ان کا ذکر بڑھا کر 10 منٹ کر دیں۔

13 نمبر:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان پہلے دو لطائف پر 10 10 منٹ اور تیسرے لطیفے پر 15 منٹ کا ذکر دے دیں۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی بچوں کی بیعت کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ کیونکہ بچے معمولات کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بیعت کی وجہ سے شیطانی نظام ان کے خلاف active ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں گناہوں کی طرف رغبت زیادہ ہو گی۔ حضرت جی اس معاملے میں رہنمائی فرما دیں۔ اگر میرا analysis غلط ہو تو معذرت چاہتا ہوں؟

جواب:

میں آپ کے analysis کو challenge تو نہیں کرتا ہاں اپنا analysis بتا سکتا ہوں۔

پہلے میں بچوں کو بیعت نہیں کرتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے بڑے بزرگ بچوں کو بیعت نہیں کرتے تھے۔ خود مجھے بھی بچپن میں میرے والد صاحب کے شیخ نے بیعت نہیں کیا تھا، کہا کہ یہ چھوٹا ہے وظیفہ دے دیتا ہوں لیکن بیعت نہیں کرتا۔ پھر میرے ساتھ ایک دو واقعات ہوئے۔

میں مسجد نبوی سے باہر آ رہا تھا، ایک صاحب کا فون آیا کہ میرا بیٹا آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہے اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے مسجد نبوی میں واپس چلے جائیں تو وہ فون پر بیعت ہو جائے گا۔ میں ان کا دل رکھنے کے لئے چلا گیا اور اس بچے کو بیعت کر لیا۔ الحمد للہ اس بچے پر بیعت کے ایسے احوال طاری ہو گئے کہ میں خود حیران رہ گیا کہ یا اللہ یہ تو عجیب بات ہے۔

اس کے بعد ایک بچی خود اپنی مرضی سے بیعت ہو گئی تھی، اپنی والدہ کو بتائے بغیر۔ بعد میں اس نے بتایا کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔

ان واقعات کی وجہ سے میرا تجربہ تو یہی ہے کہ بچوں کو بیعت کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔

سوال نمبر20:

حضرت اقدس مرشدی و مولائی مربی و محبوبی ادام اللہ فیوضکم۔ میرے اندر غصہ جلدی آتا ہے لیکن خود کو پہنچنے والی تکلیف پر غصہ نہیں آتا بلکہ کوئی خلاف اصول بات دیکھوں یا کسی کمزور شخص پر ظلم ہوتے دیکھوں تو فوراً غصہ آ جاتا ہے، خواہ سامنے والا مجھ سے عمر میں بڑا ہی کیوں نہ ہو؟

جواب:

غصے کی بات پر غصہ آنا کوئی برائی نہیں ہے۔ البتہ اس غصے کے تقاضے پر عمل کرنے میں ذرا تفصیل ہے۔ وہ یہ ہے کہ غصہ اس وقت کرے جب اس سے کوئی فائدہ ہو۔ اگر نقصان ہو تو پھر غصہ نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی کام بھی بے فائدہ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو جو کڑھن اور تکلیف ہو رہی ہے اس پر آپ کو اجر ملے گا۔ اس کے ساتھ آپ یہ بھی تصور کر لیں کہ اس بندے نے یہ کام تو غلط کیا ہے عین ممکن ہے کہ کسی اور وجہ سے یہ اللہ پاک کے ہاں مقبول ہو۔ اس لئے اس شخص پہ نہیں بلکہ اس چیز پہ غصہ آنا چاہیے جو غلط ہے۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کا مسئلہ حل ہونا شروع ہو جائے گا۔

سوال نمبر21:

الحمد للہ فرض نمازوں، سنت اور تہجد و اوابین کی پابندی، قرآن پاک 1 پارہ تلاوت جاری ہے۔

ذکر: 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا الله“، 400 مرتبہ ”إلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ إلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حق“ اور 3000 مرتبہ ”اللہ“۔

جواب:

ٹھیک ہے۔ فی الحال یہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر22:

ذکر میں Internal vibration اور حضرت دادا جان مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ پر جیسے آپ نے تلقین فرمایا تھا اس کی برکت سے الحمد للہ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اکثر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا مگر ذکر کے بعد 2 رکعت شکرانہ پڑھ لیتا ہوں۔ اس میں دل ہل جاتا ہے کہ میں گناہ گار ہوں مگر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ذکر کی توفیق دی ہے۔ آج کل ذکرِ حق میں پورا Rib cage کا area غیر اختیاری طور پر چلنے لگتا ہے۔ روزانہ 5 ہزار مرتبہ درود شریف کی توفیق ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی آپ کا نعتیہ کلام سنتا ہوں جس سے استحضار اور شوق بڑھ جاتا ہے۔ کئی مرتبہ جب استغفار کی تسبیح کرتا ہوں تو کچھ دیر بعد زبان پر درود شریف جاری ہو جاتا ہے۔ حضرت آپ کی برکت سے سلوکِ سلیمانی اور تربیت السالک کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ آپ کو احوال عرض کرنے کے بعد خود کو ہلکا محسوس کرتا ہوں۔

جواب:

سبحان اللہ ذکر کا یہ بہت اچھا اور آسان طریقہ ہے۔ اسی طریقے سے ذکر کرنے میں فائدہ زیادہ ہے۔ تمام احوال مبارک ہیں، اللہ ترقی نصیب فرمائے۔ آمین۔

سوال نمبر23:

(یہ message ایک دوست کا ہے جو India میں University student ہے، جس کا ذکر کیا تھا۔ ان کے کچھ احوال یہ ہیں۔)

السلام علیکم شیخ،

From the past two to three days, I have noticed that as soon as I complete the تسبیح of حق two hundred times, I feel pleasure below the naval, near the groin area and the limbs. It slowly goes away as I complete the next 200 تسبیح of اللہ.

جواب:

So, ان شاء اللہ العزیز these are کیفیات and these are not essential, these are محمود, but one should not consider this as the result but these are the things which come across the way. So, one should not wait for it or one should not demand for it but if it comes, say الحمد للہ and go ahead.

سوال نمبر24:

السلام علیکم میں نے کچھ دن پہلے ہی یہ گروپ جوائن کیا ہے؟

جواب:

کون سا گروپ جوائن کیا ہے، یہ گروپ تو نہیں ہے، بہرحال آپ نے جو بھی جوائن کیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے فائدہ پہنچائے۔

آپ سکونِ قلب کے لئے ذکر چاہتی ہیں تو میں آپ کو ایک بات بتا دوں۔ دیکھو چیزیں اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ جب تک ایک انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ نہیں ہوتا تب تک اسے سکون نہیں مل سکتا۔ ذکر سے بھی اسی لئے اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ وہ اصل کی طرف لوٹا رہا ہوتا ہے۔ آپ ذکر کو اپنی اصلاح کی نیت سے کریں۔ اس لئے کہ اصل سکون آپ کو اصلاح کے بعد ہی مل سکتا ہے جسے نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں۔ جب تک آپ کا نفس غیر مطمئنہ ہے تب تک آپ کو سکون کیسے ملے گا؟ نفسِ مطمئنہ اور قلب مطمئنہ دونوں چیزیں حاصل کرنی چاہییں۔ اگر نفس مطمئن نہ ہو تو قلب مطمئن نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا آپ اپنی اصلاح کے لئے یہ ذکر شروع کر لیں۔ اگر آپ نے اصلاح کے لئے شروع کرنا ہے تو میں ابھی تھوڑی دیر بعد ذکر send کر دوں گا۔ آپ اس کو 40 دن کے لئے کریں۔ پھر 40 دن کے بعد مجھے اپنی کیفیت اور حال بتا دیں، ان شاء اللہ پھر سلسلہ آگے چلے گا، لیکن سب سے پہلے اپنی نیت یہ رکھیں کہ ذکر اپنی اصلاح کے لئے کرنا ہے۔

سوال نمبر25:

السلام علیکم۔ حضرت ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔ مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ میں آپ نے اللہ پاک کی 8 صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم اپنی صفات کے آئینے میں اللہ پاک کی صفات کا ادراک کرتے ہیں اس کے فیض کا تصور کرتے ہیں بیشک ہمارا دیکھنا، سننا، کلام کرنا بھی ہے اور اللہ پاک کا بھی ہے، لیکن اللہ پاک کی صفات لا متناہی ہیں اللہ پاک کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا ہماری طرح نہیں ہے، بلکہ کامل اور بغیر کسی واسطے کے ہے۔ حضرت جی یہ ساری بات تو سمجھ آ گئی لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ”قَیُّوْم، قَادِر اور كُنْ فَيَكُونُ“ یہ تینوں صفات انسان کے لئے کیسے اور کب استعمال ہو سکتی ہیں۔ انسان قائم تو ویسے بھی نہیں ہے، قادر بھی انسان کے لئے نہیں بولا جاتا اور کُن فیَکُونُ کی صفت کا انسان میں ہونا بالکل ہی نا ممکن ہے۔ پھر یہ صفاتِ ثبوتیہ کیسے ہوئیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

جی بالکل! آپ نے ٹھیک سمجھا کہ آپ نے اپنی صفات کے آئینے میں اللہ کی صفات کو سمجھنا ہے۔ اب دیکھیں آپ کو جو یہ پتا چلا کہ انسان یہ یہ کام نہیں کر سکتا، یہ بات آپ نے اپنی صفات کے آئینے سے ہی سمجھی ہے۔ آپ کچھ کام کر سکتی ہیں اور کچھ کام نہیں کر سکتیں جبکہ اللہ پاک سب کام سکتا ہے، یہ بات آپ نے اپنی صفات کے ذریعے ہی سمجھی ہے۔ اللہ پاک صحیح اور کامل معنوں میں حَیّ ہے، ہم بھی حَیّ ہیں لیکن صرف وقتی طور پر ہیں، جب تک اللہ چاہے تب تک ہیں۔ اسی طرح قَیُّوْم اصل میں اور کامل طور پر اللہ پاک کی ذات ہی ہے، ہم لوگ بھی چیزوں کو سنبھالتے ہیں مگر صرف عارضی اور محدود طور پر، جب تک اللہ چاہے صرف تب تک سنبھال سکتے ہیں۔

جہاں تک ”كُن فَيَكُونُ“ والی بات ہے تو واقعی یہ انسان کی صفت نہیں ہو سکتی۔ لیکن بات یہ ہے کہ آپ نے اس بات کو پہچانا کس طرح کہ انسان یہ نہیں کر سکتا اور اللہ کر سکتا ہے، یہ آپ نے اپنی صفات کے آئینے میں آ کر پہچان لیا۔

سوال نمبر26:

حضرت جی۔ میرا تزکیۂ نفس اصلاحِ ظاہر و باطن کے لحاظ سے تھا۔ آج سے آپ کے ساتھ تعلق کا آغاز کر رہا ہوں۔ دن کی مصروفیات اس طرح ہیں کہ میں فی الحال ایک سکول ٹیچر ہوں اور صبح سے ڈیڑھ بجے تک سکول میں ہوتا ہوں، پھر ڈھائی بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک ٹیوشنز پڑھاتا ہوں۔ اس کے بعد کے اوقات میں متبادل روزگار کے لئے ہنر سیکھ رہا ہوں کیونکہ پرائیویٹ سکول اور ٹیوشن سے خاندان کے اخراجات اٹھانا مشکل ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ ایک اچھا روزگار کا ذریعہ حاصل کر کے سکول اور ٹیوشن کو چھوڑا جائے۔ دنیاوی معاملات میں حد سے زیادہ ملوث ہونے سے بچا جائے تاکہ دینی معاملات اچھی طرح ادا ہوں۔ دین کا علم اور قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہی معاشی مصروفیات میں کمی کرے تو اپنی توجہ دینی علوم کی تحصیل پر کرنا چاہتا ہوں۔ تزکیۂ نفس سب سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ سے کچھ عرصہ پہلے اس بارے میں گزشتہ عادات و شبہات پر عرض کیا تھا اور شیخ کامل کی تلاش پر بات ہوئی تھی جو میری اصلاح شریعت کی حدود و قیود میں کرے جس کا نتیجہ یہ ہو جائے کہ میرے دین کے فرائض و واجبات اور سنتوں پر عمل ہو، معاملات اور عبادات میں شریعت کے مطابق عمل کر سکوں، آج کے دور کے شرعی تقاضے پورے کر سکوں ایک Balanced personality بن جاؤں، دنیا پرستی اور رہبانیت جیسی انتہاؤں کو چھونے سے بچ جاؤں۔ آپ کی طرف سے تعلیم کا انتظار ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے۔ ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ہم صرف فرضِ عین درجے کے علم کے مکلف ہیں، باقی علم فرضِ کفایہ ہے۔ جس کے لئے باقی علم کے حصول کے اسباب بن جائیں تو ماشاء اللہ اس کا مقام بہت اونچا ہو جائے گا لیکن وہ سب کے اوپر فرض نہیں ہے۔

آپ فرضِ عین علم حاصل کر سکتے ہیں اور وہ بہت آسان ہے۔ اگر ایک انسان تقریباً 2 گھنٹے رزانہ دے تو 2 ڈھائی مہینے میں پورا ہو سکتا ہے۔

تربیت تو ہر حال میں ضروری ہے، جب تک نفس مطمئنہ نہیں حاصل ہو گا تب تک نفس تنگ کرتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور آخرت کے لئے کام کر لے۔

اس کے لئے سب سے پہلے تو یہ کریں کہ 40 دن تک روزانہ بلا ناغہ 300 دفعہ تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ ”سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ الَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر“ اور 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ پڑھیں۔ اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہ“، 33 دفعہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“ اور 34 دفعہ ”اَللّٰہُ اَکْبَر“ کا ورد کیا کریں۔ 40 دن کے بعد اطلاع دیں پھر ان شاء اللہ اگلا سبق بتاؤں گا۔ یہ آپ کر لیں تو ان شاء اللہ العزیز پھر آپ مجھے بتائیں گے تو میں اگلا سبق ان شاء اللہ بتاؤں گا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن