خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع دس ہجری کے موقع پر میری مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے، اس مرض میں میرے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فرما رہے ہیں، میرے پاس مال بہت ہے اور میری وارث صرف ایک لڑکی ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کا صدقہ کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ: آدھے کا کردوں؟ فرمایا: سعد! ایک تہائی کا کر دو، اور یہ بھی بہت ہے۔ تو اگر اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ (بخاری شریف: حدیث نمبر 3936) اس حدیث شریف کی وضاحت فرما دیں، اور کیا اس حدیث شریف کے مطابق اپنی اولاد کے لئے مرنے کے بعد بھی کچھ مال چھوڑنا والد کے لئے ضروری ہے؟
جواب:
اگر ہم یہ بات دیکھ لیں کہ میری امت کے لئے سب سے بڑا فتنہ مال ہو گا۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے،، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کے لئے مال کماتے ہیں، اگر ضرورتیں پوری نہ ہوں تو پھر حلال اور حرام کی تمیز نہیں کرتے اور بعض دفعہ ایمان پر بھی بات آ جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿واَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ﴾ (الشعراء: 214) ترجمہ: "اور سب سے قریبی لوگوں کو ڈراؤ"۔ تو سب سے پہلے قریبی لوگوں کا حق ہوتا ہے، ان کے ایمان کی حفاظت، ان کی جانوں کی حفاظت، اور ان کے اعمال کی حفاظت کی ذمہ داری ہوتی ہے، ایسی صورت میں اگر وہ ان کو غریب چھوڑ دے تو اس قسم کے مسئلے میں risks ہیں، لہذا ان کے لئے اگر مال موجود ہے تو اس کو تلف نہ کیا جائے، یہ مطلب ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے لئے خاص طور پر اہتمام کیا جائے، اگر وسائل نہیں ہیں تو پھر اپنے اوپر tension نہیں لینی چاہیے، اللہ تعالیٰ ان کا بھی مالک ہے۔ لیکن آپ کے پاس اگر ہے تو اس کو تلف نہ کریں کہ بس ٹھیک ہے جی وہ اپنا خود کمائیں، میں کیوں ان کے لئے کروں، یہ والی بات درست نہیں ہے۔ تو اس حدیث شریف کا مطلب ہے یہ کہ مال اگر ہو تو پھر اس کو تلف نہ کیا جائے، کیونکہ باقی لوگوں کے حق سے زیادہ تمہارے اوپر اپنے لوگوں کا حق ہے۔ باقی ایک تہائی خیرات ویسے بھی وصیت کی جا سکتی ہے۔ تو یہ optional ہے، لازم نہیں ہے، لیکن subject to condition (حالات کے مطابق) اس کو لینا چاہیے۔ اتنا کم از کم ان کے لئے چھوڑنا چاہیے کہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں، کیونکہ بعض لوگ فقیر مزاج ہوتے ہیں، خود ان کو مسئلہ نہیں ہوتا ، جیسے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تعلق کی توفیق دی اور اس کے پاس کچھ نہ ہو پھر بھی گزارا کر سکتا ہے، یعنی اللہ پہ بھروسہ ہے، لیکن اگر وہ عیال دار ہو، اب عیال داری کی وجہ سے اس کے اوپر لازم ہے کہ اپنے بیوی بچوں کے لئے نفقہ کمائے، ان لوگوں کا تو حق ہے۔
جب ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فوت ہو گئے (جنہوں نے اللہ کے لئے بادشاہت کو چھوڑ دیا تھا) تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا، تو ان سے پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا: اللہ نے بہت زیادہ اکرام کیا، لیکن میرا پڑوسی مجھ سے بھی آگے چلا گیا۔ اس نے کہا: وہ پڑوسی کیا کرتا تھا؟ انہوں نے کہا: وہ بہت عیال دار تھا، تو وہ مجھے دیکھ کے کہتا: کاش میں بھی فارغ ہوتا تو میں بھی ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ جیسی عبادت کرتا لیکن میں مجبور ہوں۔تو وہ مجھ سے آگے چلا گیا، اس وجہ سے کہ اس نے یہ نیت کی تھی۔کیونکہ بہت عیال دار ہونے کی وجہ سے ان کے رزق کی تلاش میں رہتا تھا جس کی وجہ سے اس کو نفلی عبادت کا وقت نہیں ملتا تھا۔
اللہ تعالیٰ تو سب کے ہیں، انسان کے اوپر جو حالات ہیں وہ اس کو جانتے ہیں، تو اہل حقوق کا خیال رکھنا ہوتا ہے، ان کے لئے کمانے کی سوچ بھی ایک بہت مستحسن سوچ ہے، البتہ اتنا بھی نہ ہو کہ عیاشی کی فکر کی جائے، نہ اپنی عیاشی کی فکر کی جائے نہ ان کی عیاشی کی، بلکہ ضرورتوں کی فکر کی جائے، اور ضرورت اپنی بھی پوری کرنی چاہیے اہل حقوق کی بھی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ