اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوضُوا فِي حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾ (النساء: 140) ”اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اب اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے“
اس آیت میں ایسی مجالس میں بیٹھنے سے منع فرمایا گیا جس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق اڑایا جاتا ہے اور اگر کوئی اس مجلس میں بیٹھے اس کو انہی میں شمار کیا گیا ہے۔ آج کل جیسے حالات ہیں کہ بعض اوقات انسان ایسی مجلس میں پھنس جاتا ہے جس میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں سے جا نہیں سکتا جیسے کوئی سفر میں ہو اور گاڑی میں بیٹھا ہو اور اس قسم کی باتیں شروع ہو جائیں تو اس وقت وہ کہیں جا نہیں سکتا اور نہ ان کو منع کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے تاکہ قرآن پاک کی اس وعید سے بچ جائے۔
جواب:
ماشاء اللہ! بات تو بالکل واضح ہے۔ حدیث شریف میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں کہ اگر کوئی کسی برائی کو دیکھو تو اگر ہاتھ سے روک سکتے ہو تو ہاتھ سے روکو، اگر زبان سے روکنے پر قادر ہو تو زبان سے روک دو، ورنہ پھر اپنے دل میں اس کو برا سمجھو اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ کوئی گاڑی میں بیٹھا ہو اور ایسی باتیں سن کر اٹھ کر کہیں جا نہیں سکتا۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن وہ ان کو یہ کہہ تو سکتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کی باتیں ہیں، میں ان کا قائل نہیں ہوں، میں ایسی باتوں سے اللہ تعالیٰ کی امان چاہتا ہوں، یہ کہہ کر چپ ہو جائے، اس کے بعد مزید چاہے کچھ نہ کہے۔ کیونکہ ان کو منع کرنا علیحدہ بات ہے اور اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کرنا علیحدہ بات ہے، کوئی ہمیں زبردستی تو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتا کہ نہیں! تم ہمارے ساتھ ہو۔ گویا کہ وہ ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائے، لہذا اس وقت اس کا بیٹھنا نہ بیٹھنا برابر ہو گا، کیونکہ اس نے اپنی بات کہہ دی۔ اور اگر وہ ایسے غلط لطیفے سنائیں جن کی وجہ سے ایمان جانے کا اندیشہ ہو تو اس پہ ہنسے بھی نہیں، اور اگر پھر بھی مشکل ہو تو ear plugs انسان اپنے پاس رکھے، اور ویسے بھی یہ سفر میں فائدہ مند ہوتے ہیں، انسان کو نیند آ سکتی ہے، لہذا ان سے کہہ دے کہ میں سونا چاہتا ہوں، اور ear plugs کانوں کے میں ڈال کر آنکھیں بند کر لے۔ یوں وہ ان کو ٹال دے۔ بہرحال موقع بموقع حالات مختلف ہوتے ہیں اس کے مطابق strategy بدلنی پڑتی ہے، لیکن یہ ایک محفوظ طریقہ ہے جس سے انسان ان سے بچ سکتا ہے، اور جب گاڑی وغیرہ میں نہ ہوں تو انسان اپنی جگہ بدل لے اور وہ جگہ چھوڑ دے اگر ممکن ہو۔ اور اگر نا ممکن ہو تو پھر اسی پہ عمل کرے جیسے میں نے عرض کیا ہے۔ کیونکہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔ بالخصوص اپنے دفتر میں bosses وغیرہ کے ساتھ اگر اس قسم کے لوگ ہوں تو دفتر کے کسی کام کا بہانہ بنا کر وہاں سے چلے جائیں۔ اگر کوئی meeting ہو رہی ہو تو اس میں انسان خود بھی اپنی بات کر سکتا ہے چنانچہ اپنی باری آنے پر کہہ دے کہ ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے، اس معاملے میں میری کوئی رائے نہیں ہے، میں اس مسئلے میں آپ لوگوں کے ساتھ شامل نہیں ہوں۔ اس طرح ان کو بھی کچھ تنبیہ ہو جائے گی، ورنہ وہ بھی اس بات کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے director cost economics کی calculations کر رہے تھے، جس میں سود بھی ہوتا ہے۔ میں بھی پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں back bencher تھا، مجھ سے انہوں نے پوچھا: شبیر! کیا یہ جائز ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہنے لگے کہ ہمیں تو کرنا پڑتا ہے، میں نے کہا Sir پھر پوچھا کیوں ہے؟ یعنی خواہ مخواہ مجھے شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لہذا انسان کو حق بات کرنی ہوتی ہے، لیکن ذرا اس انداز میں کہ وہ اس بات کو آپ کے خلاف استعمال بھی نہ کر سکے اور آپ کی بات بھی پہنچ جائے۔ یہی طریقہ ہے۔ اسی طرح جب کسی مجلس میں غیبت وغیرہ شروع ہو جائے تو مختلف بزرگوں کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بات بدل دیتے تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پوری بات سن کر فرماتے: وہ ایسا نہیں ہے، یوں اس بات کو ختم کر دیتے۔ لہذا بزرگوں کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں جس سے وہ اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بچائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ