نسیان (بھولنے) کے فوائد و نقصانات اور اس کا حل

سوال نمبر 285

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

کل ایک حدیث شریف کی تشریح میں آپ نے جو فرمایا تھا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان بھولنے کی وجہ سے ماضى سے سبق نہیں لیتا اور مستقبل کی فکر نہیں کرتا، انسان کے اس نسیان کا کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے جیسے ماضی کی تلخ یادوں کو اگر انسان نہ بھولتا تو زندگی اجیرن ہو جاتی اور اگر خوشگوار یادوں کو ہمیشہ یاد رکھتا اور اس کے گن گاتا تو ترقی نہ کر سکتا، لیکن ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی ہیں اور نقصانات سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار پچھلی قوموں کے حالات بیان فرمائے ہیں تاکہ ان کو یاد کر کے ہم اپنا راستہ سیدھا کر لیں یہ سب کچھ ہونے کے باوجود چونکہ نسیان انسان کی جبلی خاصیت ہے اس لیے یہ انسان کے ساتھ منسلک ہو گئی تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے جس کو اختیار کر کے ایک مسلمان انفرادی طور پر اور پوری امت مسلمہ بحیثیت مجموعی نسیان کے نقصانات سے بچ سکتی ہے، اور اس کے فوائد حاصل کر سکتی ہے۔

جواب:

قرآن پاک میں ارشاد مبارک ہے: ﴿وَ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات: 55) "پس یاد دہانی کیجیے یاد دہانی مومنوں کو نفع دیتی ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بار بار ایسی چیزوں کی یاد دہانی ہونی چاہیے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ مثلاً مدرسوں میں بھی جلسے ہوتے ہیں اور طلباء کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ تم طالب علم ہو تمہیں یہ کرنا ہے، تمہیں یہ کرنا ہے یوں ان کو سمجھایا جاتا ہے۔ سیاسی لوگ بھی یاد دہانی کرتے رہتے ہیں جلسے کرتے رہتے ہیں، تبلیغ والوں کا تو کام سارا اسی پر ہے، وہ تو چلتے ہی اسی پر ہیں کہ بار بار تذكير یعنی یاد دہانی کرائی جائے۔ بلکہ اکثر متواضع علماء حضرات جب بیان شروع کرتے ہیں تو یہ الفاظ بھی کہتے ہیں کہ میں آپ کے سامنے اپنا سبق دہرا رہا ہوں تاکہ مجھے اپنا سبق یاد رہے۔

میرا مقصد یہ ہے کہ یاد دہانی اس کا علاج ہے لہذا ایسی چیزیں جن کے متعلق انسان کو اندیشہ ہو کہ اگر یہ میں بھول گیا تو مجھے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے تو اس کو یاد کرنے کا کوئی نہ کوئی نظام اپنانا چاہیے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، محمود و ایاز کا جو واقعہ مثنوی شریف میں کافی عرصے سے چل رہا ہے اس میں ہے کہ ایاز نے رات کو خاص چیز دیکھنے کے لیے انتظام کیا ہوتا، جب تالے لگ جاتے تھے پھر وہ دیکھتے تھے، دوسرے مصاحب ان کے ساتھ حسد کرتے تھے کہ بادشاہ ان کو اتنا کیوں چاہتا ہے، چنانچہ انہوں نے ان کی شکایت کی کہ ان کے پاس کوئی خزانہ چھپا ہوا ہے جس کی وہ روزانہ زیارت کرتا ہے اور دروازے بند کر لیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بادشاہ جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہے، لیکن ان کو سمجھانے کے لیے کہا کہ تم اچانک ان پر raid کرو اور سارے دروازے توڑ دو اور دیکھو کہ وہ کیا کر رہا ہے، چنانچہ رات کے اندھیرے میں وہ گیے اور ایسا ہی کیا، اور خزانہ تلاش کرنا شروع کیا، کوئی خزانہ نہ ملا، باللآخر ان کو پرانے چیتھڑے، جوتے، اور پرانے پوستین ملے، یہی وہ چیز تھی جن کو ایاز دیکھ رہا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ کیا چیز ہے؟ بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے تھے؟ یہ کوئی طریقہ ہے؟ یہ کوئی دیکھنے کی چیز ہے؟ ایاز نے کہا: بادشاہ سلامت آپ کی شفقت سے میں اس مقام پر پہنچا ہوں تو مجھے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے میں کیسا تھا۔ اس لیے میں اس کو بار بار دیکھتا ہوں تاکہ میرے اندر غرور اور تکبر نہ آئے۔ چنانچہ اس نے اس طریقے سے اپنا علاج کیا، لیکن قرآن پاک کا اگر ہم مطالعہ کریں تو گزشتہ قوموں کے واقعات بکثرت آتے ہیں اسی مقصد کے لیے۔ لہذا اگر قرآن کو کوئی غور سے پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو تدبر فی القرآن کی دولت نصیب فرمائی ہو تو قرآن میں گزشتہ قوموں کے واقعات بہت کثرت سے ہیں۔ اچھے لوگوں کے واقعات بھی ہیں اور برے لوگوں کے بھی ہیں، اسی طرح کامیاب لوگوں کے واقعات اور نصیحتیں بھی ہیں۔ کبھی لقمان حکیم علیہ السلام کی زبان سے، کبھی کسی اور کی زبانی، اور مختلف طریقوں سے انسانوں کو سمجھایا گیا ہے۔

جیسا کہ سورہ یسین شریف میں ایک شخص کا ذکر ہے جو مسلمان ہو گیا تھا اور موسی علیہ السلام کے ساتھ ہو گیا تھا تو اس کو لوگوں نے ظلم کر کے شہید کر دیا، اللہ پاک نے اس کو بڑے اونچے مقامات نصیب فرما دیے۔ وہ کہتا ہے کہ کاش میری قوم کو آج پتا چلتا کہ اللہ پاک نے میرا کتنا اکرام کیا: ﴿قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَ جَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِينَ (یس: 26-27)

اس قسم کے نظارے بہت ہیں۔ بلکہ قرآن پاک بلاغت کی انتہا پر ہے۔ اس میں ماضی کے واقعات کی بھی ایسی منظر کشی کی گئی ہے کہ جیسے وہ واقعات سامنے رونما ہو رہے ہوں اور مستقبل کے واقعات کى بھی ایسی منظر کشی کی گئی ہے جیسے کہ ابھی ہو رہے ہوں۔ یعنی سارا منطر بالکل سامنے لایا جاتا ہے جس کو ہم visualization کہتے ہیں جس میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہو رہا تھا اور یہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ دونوں باتیں مستقبل کی اور ماضی کی قرآن پاک میں بار بار یاد دہانی کے طور پر دہرائی جاتی ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہے اور ہم یعنی لوگ کن کن چیزوں سے نقصان اٹھا چکے ہیں اور کن کن چیزوں سے فائدہ ہوا ہے۔ یہ واقعات بکثرت قرآن پاک میں اس مقصد کے لیے موجود ہیں۔ لہذا ہمیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسی باتیں کرنی چاہٸیں ان کو یاد دہانی کرانی چاہیے، پہلے سے ان کو بتانا چاہیے کہ اس چیز کا انجام یہ ہے، اس چیز کا انجام یہ ہے، اور ان کو واقعات سنا کر یہ بتایا جائے یہ اس طرح تھا، یہ اس طرح تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ یوں ہوا، یوں ہوا۔ اور یہ ہو گا اور یہ ہو گا۔ بعض مائیں اپنے بچوں کی بڑی اچھی طریقے سے تربیت کرتی ہیں، ایک ماں اپنے دونوں بچے کی تربیت اس طرح کر رہی تھی کہ تم ذکر کرو اس سے تمہارے لیے جنت میں درخت اگیں گے، اور جو پھل آپ کو پسند ہو گا اس کے درخت لگیں گے، تو ایک بچہ کہتا کہ میں یہ درخت لگاؤں گا پھر وہ چند دفعہ سبحان اللہ کہتا اور پھر کہتا فلاں تین درخت لگ گیے، پھر کبھی کہتا کہ فلاں کے لیے اتنے درخت لگ گیے یعنی وہ کسی کے لیے ایصال ثواب کرتا، ان میں سے ایک بچی کو کیلے پسند نہیں تھے وہ کیلے کے درخت نہیں لگاتی تھی، اس سے کہا جاتا کچھ کیلے کے درخت بھی لگاؤ، تو وہ کہتی کہ نہیں! مجھے کیلے پسند نہیں ہیں۔ جو پھل ان کو پسند ہوتے اسی کے درخت لگاتے، اگرچہ بظاہر یہ ایک کھیل سا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ کیونکہ انسان جو بھی ذکر کرتا ہے تو اس پر یہ انعام تو ملے گا۔ یہ کتنا اچھا کھیل ہے اگر بچوں کو اس قسم کے کھیل بتائے جائیں تو وہ مشغول بھی رہیں گے اور ثواب بھی ہو گا اور ثواب بھی والدین کو ہی ہو گا جو تربیت کر رہے ہوں گے۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو خیر کا راستہ دکھائے اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ