اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکالے گا، پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا: دنیا کی چمک دمک۔ اس حدیث شریف میں اپنی امت کے لیے دنیا کی زیب و زینت ملنے پر آپ ﷺ خوف میں مبتلا ہو رہے تھے، جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ جب دنیاوی چیزوں میں کمی آتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
اصل میں بہت پہلے میں ایک بات عرض کر چکا ہوں اور کرتا رہا ہوں الحمد للہ کہ حقیقتاً صبر مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صبر نعمت نہ ہونے یا کم ہونے پر ہوتا ہے مثلاً کوئی صحت مند نہیں ہے تو بیمار ہے، کسی کے پاس مال نہیں تو غریب ہے، کوئی گرفتار ہے، کسی کو کوئی اور پریشانی ہے، ان تکالیف پر بندے کو صبر کرنا ہوتا ہے جو کہ مشکل کام ہے۔ اور شکر بظاہر آسان لگتا ہے کیونکہ وہ نعمت ملنے پر ہوتا ہے، مثلاً میری ترقی ہو گئی، میں بڑی post پہ چلا گیا تو مجھے ایک نعمت مل گئی تو اس پر میں صرف اللہ کا شکر ادا کر لوں اور اس نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال کر لوں، کیا یہ مشکل ہے؟ یا نعمت کے چھن جانے پر صبر کرنا مشکل ہے؟ ظاہر ہے صبر کرنا بظاہر مشکل لگتا ہے۔ لیکن حقیقتِ حال اس کے الٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ صبر کرنے والے لوگ آپ کو بہت مل جائیں گے، البتہ شکر کرنے والے لوگ بہت کم ملیں گے۔ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جن چیزوں کی وجہ سے انسان خوش ہوتا ہے مثلاً اللہ پاک نے کوئی نعمت دی ہے تو اسی نعمت کو ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے لیے استعمال کرتا ہے، مثلاً بیٹا پیدا ہوا ہے تو ڈھول تماشے کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا ہے، تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، شادی ہو رہی ہے اللہ نے خوشی کا موقع دیا ہے اسی کے خلاف نافرمانی شروع کر دی جاتی ہے۔ اس طرح اگر کسی کو پیسے مل جائیں تو گلچھرے اڑاتے ہیں، اسراف کرتے ہیں، اس پہ عیاشی کرتے ہیں۔ اب یہ ساری چیزیں سمجھ میں آنا بہت مشکل نظر آ رہی ہیں۔ لیکن چونکہ شیطان جب راندۂ درگاہ ہوا تو اس نے کہا تھا کہ اے اللہ! میں ان کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں سے آؤں گا، بائيں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا، ان کو تیرا نہیں بننے دوں گا، تیرے پاس نہیں پہنچنے دوں گا، تم ان میں بہت کم کو اپنے پاس پاؤ گے اور ان کو بہت کم شکر گزار پاؤ گے۔ یہاں شیطان نے شکر گزاری کی بات کی ہے یعنی شکر پہ اس کی خصوصی توجہ ہے کہ شکر کوئی نہ کرے، لہذا شیطان اس پر مستقل محنت کرتا ہے کہ شکر کوئی نہ کرے، بلکہ ناشکری کرے۔
چونکہ آپ ﷺ کو یہ بات معلوم تھی اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کا خوف کھاتا ہوں جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکال دے گا، یعنی تم پر نعمتیں تمام ہو جائیں گی، تمہیں بہت نعمتیں مل جائیں گی، خوشی مل جائے گی، آسانی مل جائے گی۔ تو تم ان نعمتوں کو ضائع کرو گے، ناشکری کرو گے، نافرمانی کرو گے۔ اس وقت ذرا پوش گھرانوں میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے، کتوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں، پوری زندگی کتوں کے ساتھ گزارتے ہیں، صبح فجر کی نماز نہیں پڑھیں گے کتوں کو walk کرائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ایسی ہی سزا دیتے ہیں کہ کتوں کے نیچے لگاتے ہیں جاؤ پھر لگ جاؤ نیچے، میرا نہیں بنتے ہو تو یہ بنو۔ چنانچہ اگر صحیح طریقے سے نعمتوں کا شکر نہیں ادا کرتے تو انہی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ عذاب بنا دیتے ہیں، اور وہی نعمتیں ان کو کاٹتی ہیں۔ یہاں اسلام آباد بالکل پاس ہی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں کے باسی بڑے خوش ہوں گے، تھوڑا سا اندر جا کے ان کا حال دیکھو کہ کیسے خوش ہیں، ہمیں تو پتا چلتا رہتا ہے، ہمیں لوگ اپنے حالات خود بتاتے ہیں کہ اندر کیا کیا احوال ہیں، گھر گھر آگ لگی ہوئی ہے، پریشانیاں ہیں، دنیا کی نعمتوں کی کمی نہیں ہے، وہ بہت ہیں، اس کے باوجود پریشان ہیں۔ air-condition میں بیٹھے پریشان ہیں، نوکر چاکر، خدم شدم سب موجود ہیں، لیکن سب پریشان۔ یہ ایک بہت عجیب نظام ہے جس میں انسان بظاہر خوش نظر آتا ہے، لیکن اندر ہی اندر پریشانیاں ان کو کھا رہی ہیں۔
stock exchange کے ایک director ہمارے ساتھ جماعت میں چل رہے تھے، میں نے ان سے by the way پوچھا کہ آپ کی job کا کون سا مشکل event ہوتا ہے؟ یعنی کون سی چیز آپ کو بڑی مشکل محسوس ہوتی ہے؟ کہنے لگے ہم اندر سے اگر کٹ بھی رہے ہوں، جل بھی رہے ہوں، لیکن چہرے پر مسکراہٹ ہونی چاہیے یہ ہمارا مشکل وقت ہے۔ یہی بات گھر گھر ہے، کوئی اولاد کی وجہ سے پریشان ہے، کوئی حالات کی وجہ سے پریشان ہے، کسی کو کیا پریشانی ہے، کسی کو کیا۔ عجیب و غریب صورتحال ہے، لیکن مال بہت ہے، چیزیں بہت ہیں۔ یہ جو free مال یعنی غلط طریقوں سے جو مال آتا ہے یہ تو بالکل انسان کو کاٹ کے رکھ دیتا ہے، یہ پورا ایک عذاب ہوتا ہے، لیکن لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ جو بالکل غریب اور کُٹیا میں رہنے والے ہیں، آپ ان سے ملیں گے تو کہیں گے: الحمد للہ! اللہ کا شکر ہے جی۔ اب اُن کی حالت دیکھو اور اِن کو دیکھو۔ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ چیز اللہ پاک نے دی ہوئی ہے، ان کو اللہ پاک اطمینان دے دیتے ہیں، دوسرے لوگوں کو مال دیتے ہیں اور اطمینان چھین لیتے ہیں۔گویا یہ ایسی صورت حال ہے جس کو Justify کرنا logically بڑا مشکل ہے، لیکن ایسا ہی ہے، چونکہ آپ ﷺ پر یہ چیزیں کھلی ہوئی تھیں لہذا آپ ﷺ اپنی امت کے بارے میں اس فکر میں تھے کہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہر خیر نصیب فرمائے اور ہر شر سے محفوظ فرما دے۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ