تقویٰ: دل میں یا نفس میں؟ حدیث و قرآن کی تطبیق

سوال نمبر 283

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمَِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا" اور دل کی طرف اشارہ کیا جبکہ قرآن میں سورہ شمس میں آتا ہے کہ "ہم نے نفس کو فجور و تقوی الہام کیا" حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی کا محل دل ہے جبکہ قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی نفس میں ہے، ان دونوں میں تطبیق کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب:

در اصل تقوی ایک ایسی کیفیت ہے جو اگر دل میں پائی جائے تو انسان کا دل ہر وقت برائی سے بچنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ تو آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا "اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا" تقوی یہاں ہے۔ جہاں تک سورہ شمس کی بات ہے تو اس میں الفاظ اس طرح ہیں: ﴿فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا﴾ (الشمس: 8) انسان کے اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں، یا وہ اللہ پاک کی فرمانبرداری کے ہوتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے نافرمانی کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے احکام تقوی کے زمرے میں آتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی باتیں فجور ہیں۔ پس یہ دونوں قسم کی صلاحیتیں نفس کو القاء ہو گئی ہیں، لہذا نفس فرمانبرداری بھی کر سکتا ہے اور نافرمانی کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے، فرمانبرداری کی صورت میں یہ نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے اور نافرمانی کی صورت میں نفس امارہ ہوتا ہے۔ اور انسان جو نافرمانی کرتا ہے اس کا ایک سیاہ داغ دل پہ لگ جاتا ہے اور اگر توبہ کر لے تو وہ داغ صاف ہو جاتا ہے ورنہ باقی رہ جاتا ہے، اسی طرح اور داغ بھی لگ سکتے ہیں، یوں داغ لگتے لگتے دل بالکل ہی سیاہ ہو جاتا ہے، پھر یہ دل نصیحت کو قبول کرنے والا نہیں رہتا۔ دوسری طرف انسان کے اچھے عمل کا اثر بھی دل پر پڑتا ہے ا ور مزید اس کے لیے اچھے اعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان جس وقت کوئی اچھا عمل کرتا ہے تو اس کا فوری اثر اور اجر یہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے دوسری نیکی آسان ہو جاتی ہے۔ اور جب برا عمل کرتا ہے تو اس کا فوری نقصان یہ ہوتا ہے کہ دوسرا برا عمل آسان ہو جاتا۔ یعنی دل کی حالت بدل جاتی ہے تو دل کو ایسی حالت میں بدلنا کہ اس میں خیر کی قوت آ جائے یہ تقوی ہے۔ اور شر دوسری چیز ہے۔ لہذا دل میں stay تقوی کرتا ہے یعنی نیک عمل سے پیدا ہونے والی کیفیت دل موجود رہتی ہے جبکہ انسان کا عمل مسلسل چل رہا ہوتا ہے۔ مثلاً میں جو بات کر رہا ہوں یہ stay نہیں کر سکتی بلکہ ساتھ ساتھ گزرتی جا رہی ہے، یعنی جو میری بات ابھی ہو رہی وہ حال ہے لیکن ساتھ ساتھ ہی ماضی بن رہی ہے۔ یعنی وہ stay نہیں کر سکتی۔ جبکہ کیفیت دل میں stay کر سکتی ہے چنانچہ stay کرنے والی اور برقرار رہنے والی تقوی کی کیفیت دل میں ہوتی ہے اور عمل کرنے والی کیفیت نفس میں ہوتی ہے۔ گویا اپنے نفس کو اگر ہم control کر لیں تو یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے۔ اور نفس کا control دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک control یہ ہے کہ انسان کو شریعت نے جو حکم دیا ہے نفس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو بجا لائیں۔ یہ شرعی مجاہدہ ہے گویا انسان کا دل شرعی مجاہدہ کر کے اللہ پاک کا حکم مان لیتا ہے اور یہ مجاہدہ مسلسل کرنا پڑے گا۔ اور ایک اختیاری مجاہدہ ہوتا ہے جس میں نفس کے خلاف جب کیا جاتا ہے تو نفس اس کا عادی ہو جاتا ہے یعنی نفس اس مشقت کا عادی ہو جاتا ہے چنانچہ اس مشقت کے عادی ہونے کے بعد وہ شرعی مجاہدہ پھر مجاہدہ نہیں رہتا، بلکہ اطمینان کے ساتھ انسان اعمال کرتا رہتا ہے، اسی سے نفس مطمئنہ کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نفس کا علاج مجاہدہ ہے اور دل کا علاج ذکر اللہ سے ہوتا ہے، کیونکہ دل میں کیفیت stay کرتی ہے لہذا دل سے گندگی نکالنے کا عمل تو ذکر کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن اس میں مزید نہ گندگی آئے یہ نفس کی اصلاح سے ہو گا۔ لہذا نفس کی اصلاح کر کے ہی آپ ذکر کی اس صلاحیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگر نفس کی اصلاح نہیں ہو گی تو آپ ذکر سے اس کو صاف کرتے رہیں گے لیکن اس میں مزید گندگی آتی رہے گی۔ جیسے کسی حوض میں گندے پانی کی کئی نالیاں آ رہی ہوں آپ اس حوض کو اس وقت تک پاک نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ ان نالیوں میں آنے والی گندگی بند نہیں کریں گے یا اس کو صاف نہیں کریں گے۔ ورنہ آپ اس کو مسلسل صاف کرتے رہیں گے اور مسلسل مزید گندگی آتی جائے گی۔ اسی طرح جب تک آپ نفس کی اصلاح نہیں کریں گے دل میں تقوی کی وہ کیفیت برقرار نہیں رہ سکتی۔ جب ساتھ نفس کی اصلاح بھی کر لیں گے تو اس کے بعد آپ کے دل کی حالت برقرار رہ سکتی ہے۔ تو اس لیے فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 9-10) "یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور یقیناً تباہ و برباد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو اس طرح کھلا چھوڑ دیا" یعنی نفس اپنی مرضی سے جو چاہا کرتا رہا۔ جبکہ دل کے بارے میں فرمایا کہ جب دل ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہو جاتا ہے کیونکہ دل میں قوت عازمہ ہے اس سے وہ کیفیت generate ہوتی ہے یعنی دل کی کیفیت کا تمام چیزوں پہ اثر پڑتا ہے، لہذا دل نفس سے ٹھیک ہوتا ہے اور نفس سے سارے اعمال پھر ٹھیک ہوتے رہتے ہیں۔ یہ آپس میں ان کی interaction سے ساری چیزیں ہوتی ہیں۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو ان تمام چیزوں کی سمجھنے کی اور ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ