یاجوج ماجوج کے فتنے اور امت کی ہلاکت کا سبب

سوال نمبر 282

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سو کر اٹھے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ آپ نے اسے تین بار دہرایا، پھر فرمایا اس شر سے عرب کے لیے تباہی ہے جو قریب آ گیا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے ہاتھوں کی دس انگلیوں کی گرہ لگائی، حضرت زینب بنت جحش رضى اللہ تعالیٰ عنھا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کر دئیے جائيں گے؟ حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں جب برائی زیادہ ہو جائے گی۔ اس حدیث شریف کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

اس حدیث میں دو باتیں ہیں، ایک تو خبر ہے جس کے بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اول یہ کہ یاجوج ماجوج نکلیں گے اور ان کی وجہ سے تباہی پھیلے گی۔ یہ خبر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک سوال کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ کیا ہم ہلاک کر دیئے جائیں گے؟ حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پشتو کی ایک ضرب المثل ہے: "اوچو سره لواندهُ هم سوزی" یعنی خشک چیزوں کو جب آگ لگائی جاتی ہے تو ان کے اندر جو گیلی چیزیں ہوتی ہیں وہ بھی جل اٹھتی ہیں، ویسے گیلی چیزوں کو آگ نہیں لگتی، لیکن جب آگ بہت زیادہ ہو تو پہلے گیلی چیز خشک ہو جائے گی اور پھر جل جائے گی۔ اسی طرح گناہوں کا جب ماحول ہو جائے گا، ہر طرف گناہ ہی گناہ ہو جائیں گے تو زمین پر پھر عذاب آتا ہے، اور زمین پر رہنے والوں پر عذاب آتا ہے اور پھر ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اچھے لوگ قیامت کے دن جدا کر دیے جائیں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سَلامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ وَ امْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ﴾ (یس: 58-59) یہ دونوں چیزیں بالکل ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں، یعنی مسلمانوں پہ سلامتی کا فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا مجرمو! آج علیحدہ ہو جاؤ۔ یعنی وہاں یہ علیحدہ کر دیئے جائیں گے۔ لیکن یہاں عذاب میں سب مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں بڑے بڑے علماء بھی ہیں، نیک لوگ بھی ہیں، اولیاء بھی ہیں اور فساق و فجار بھی ہیں، اگر کراچی سے کوئی آئے اور کہے کہ وہاں بڑے بڑے علماء ہیں تو اس کی یہ بات صحیح ہے اور اگر وہ یہ کہے کہ وہاں تو بڑے بڑے چور ہیں، corrupt لوگ ہیں، فتنہ باز لوگ ہیں، شریر لوگ ہیں، فساق و فجار ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ دونوں قسم کی باتیں کراچی کے لیے ٹھیک ہیں۔ اب کراچی کی آبادی پر اگر فساق و فجار کی وجہ سے "نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ ذٰلِكَ" اللہ بچائے! سونامی آ جائے یا زلزلہ آجائے تو وہ سونامی یہ نہیں دیکھے گی کہ یہ ولی اللہ کا گھر ہے، اور نہ ہی اس وقت بچنے کا time ملتا ہے۔ چونکہ اللہ جل شانہ اس نظام کو چھپا کے رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کو اسباب میں چھپا کے رکھتا ہے لہذا قدرتی طور پر جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو جاتا ہے، بہر حال وہ اسباب کے ذریعے سے ہوتا ہے اور ان اسباب کے اصول کو برقرار رکھنے کے لیے تخصیص نہیں کی جاتی تاکہ لوگوں کے لیے امتحان باقی رہے۔ کبھی کبھار تخصیص ہو بھی جاتی ہے جیسے میں نے بالاکوٹ کا واقعہ عرض کیا تھا کہ وہاں ایک پل پلازہ بچ گیا تھا حالانکہ اردگرد کی مسجدیں بھی گری ہوئی تھیں، صرف ایک پلازہ اللہ نے بچایا تھا یہ دکھانے کے لیے کہ میں بچانا چاہوں تو اس طرح بچا بھی سکتا ہوں، لیکن عذاب کھلم کھلا تھا۔ چنانچہ جب عذاب آتا ہے تو وہ یہ چیزیں نہیں دیکھتا۔ اسی لیے کہتے ہیں دعوت کا عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے، یعنی نیکی کی دعوت، خیر کی دعوت اور برائی سے منع کرنا جسے امر بالمعروف نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ اس کی مثال آپ ﷺ نے یہ بھی دی ہے کہ جیسے ایک جہاز ہو جس میں نیچے کچھ لوگ رہتے ہوں، کچھ عرشے پہ رہتے ہوں اور پینے کا صاف پانی عرشے پر موجود ہو اور نیچے والے اوپر آکر پانی لیتے ہوں، پھر انہوں سے سوچا کہ کمال ہے پانی کا پورا ذخیرہ یعنی سمندر ہمارے پاس ہے ہم اس کے قریب بھی ہیں، لہذا اس میں ایک سوراخ کر لیتے ہیں وہیں سے پانی لے لیاکریں گے، اوپر جانے کی اور ان کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اب اگر اوپر والے ان نادانوں کو نہیں روکیں گے تو کیا صرف یہ نادان ڈوبیں گے؟ صرف یہ خود نہیں ڈوبیں گے بلکہ ساتھ اور لوگوں کو بھی ڈبو دیں گے۔ اس لیے ان کو روکنا بہت ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں عذاب سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ نہ صرف خود بچا جائے بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کی جائے۔ جیسے قرآن پاک کی یہ سورۃ ہے:

"أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ"

﴿وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر: 1-3) پہلے دو معاملے یعنی ایمان اور اعمال کا تعلق اپنے ساتھ ہے اور پھر ﴿وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾ اور ﴿وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ ہے جو دوسروں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ دونوں کام ہونے چاہیے امر بالمعروف بھی اور نھی عن المنکر بھی۔ ورنہ اگر کسی وقت بھی عذاب آ جائے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے۔ بلکہ جو اس کے سامنے آ جائے وہ اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ البتہ exceptional causes ہوتے ہیں لیکن وہ ہر جگہ نہیں ہوتے "نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند" یعنی سر منڈوانے والا ہر ایک آدمی قلندر نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر شخص کا معاملہ مختلف ہے۔ لہذا اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ہم برائی کو صرف یہ سمجھیں کہ بس یہ برے لوگ ہیں اور ہر ایک اپنی اپنی قبر میں جائے گا لہذا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ آج کل یہ فقرہ بہت مشہور ہے کہ ہر ایک اپنی اپنی قبر میں جائے گا۔ اپنی اپنی قبر میں یقیناً جائے گا لیکن اس کے کچھ اثرات آپ پر بھی پڑیں گے۔ لہذا ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں برائی کو نہ پھیلنے دیں اور اس کے لیے ہم باقاعدہ دونوں طریقے اختیار کریں، دعوت کا طریقہ بھی اور سیاست کا طریقہ بھی۔ یہ دونوں طریقے معاشرے کو درست کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ دعوت کا طریقہ بنیاد پہ کام کرنے کا ہے اور سیاست کا طریقہ top پہ کام کرنے کا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے top پہ کام کیا اور اللہ پاک کے فضل و کرم سے چوتھی پشت میں ما شاء اللہ ان کی حسبِ خواہش اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بنیاد پہ کام کیا اور کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے جن کی تعداد 90 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ان کی تحریک سے مسلمان کافر ہونے سے بچ گئے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے کافروں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق دے دی۔ لہذا یہ دونوں راستے بہت اہم ہیں۔ دیکھیے! ان دونوں میں صوفیاء کا contribution ہے، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی صوفی ہیں اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بھی صوفی ہیں تو یوں ایک صوفی کے ذریعے سے انڈیا میں اسلام کو داخل کر دیا گیا اور دوسرے صوفی کے ذریعے سے اسلام کو بچایا گیا۔ تو ہمارے سامنے دونوں چیزیں آ گئیں۔ آج کل بعض لوگ تصوف کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی چیز میں دخل نہ دیں، بس اللہ تعالیٰ ٰکے ساتھ اپنا تعلق رکھیں۔ تو کیا یہ حضرات صوفی نہیں تھے؟ یہ بہت بڑے صوفی تھے۔ مغربی پاکستان کے علاقہ میں حضرت کی بڑی گشتیں ہوئی ہیں اپنے شیخ حضرت عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ۔ حضرت کے کئی خلفاء حضرات اِدھر اُدھر مدفون ہیں۔ لہذا ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان صوفیاء نے کیا کیا؟ اور ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہیے۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ