علماء حق اور علماء سوء کی پہچان اور قرآنی تشریح

سوال نمبر 281

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

آپ ﷺ نے فرمایا "اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ" ’’علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں‘‘ اور دوسری حدیث شریف میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے برے لوگ علماء سوء ہیں۔ ان دونوں احادیث شریفہ سے علماء کے دو گروہوں کا پتا چلتا ہے کہ ایک علماء حق اور دوسرا علماء سوء۔ جبکہ قرآن پاک میں علماء کی صرف ایک خصوصیت بیان فرمائی گئی ہے ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ (فاطر: 28) آپ ﷺ کے ارشادات اور قرآن پاک کی اس آیت سے بظاہر وہی حضرات علماء کہلانے کے مستحق ہیں جن میں خشیت ہے۔ ایک اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ دین کی سمجھ فقہ اور خشیت کا آپس میں کس قسم کا تعلق ہے؟

جواب:

"اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ" کا مطلب یہ ہے کہ علماء انبیاء کرام کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں اور انبیاء کرام کے علوم جو ان کو قرآن اور احادیث شریفہ سے ملتے ہیں انہیں دوسرے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور وہ کام جو انبیاء کے ذمے تھا وہ علماء کرام کرتے ہیں ان کے نائب اور وارث بن کر۔ دوسری حدیث شریف جس میں فرمایا گیا ہے کہ سب سے برے لوگ علماء سوء ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو الفاظ کی حد تک علم تو حاصل کر لیں لیکن اپنی تربیت نہ کروائيں جس کی وجہ سے ان کا نفس فعال ہو جاتا ہے اور اس نفس کے فعال ہونے کی وجہ سے نفس کی خواہشات کے لیے اللہ پاک کے صريح احکام جو ان کو معلوم ہوتے ہیں ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان کی جگہ دنیاوی چیزوں کو لے لیتے ہیں، اب چونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ غلط کیا ہے صحیح کیا ہے لہذا ان کے اوپر حجت بھی تمام ہو چکی ہوتی ہے لہذا جب وہ علم ہونے کے باوجود ایسا کرتے ہیں تو یہ انتہائی سخت درجے کی برائی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنا mission خراب کیا اور ان کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا وہ نہیں کیا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کی آڑ میں انہوں نے اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کیا، حالانکہ نفس کو control کرنے کے لیے تو علماء آتے ہیں۔ یعنی علماء کا کام یہی ہے کہ وہ اللہ پاک کے احکام لوگوں کو بتائیں اور نفس کی خواہشات سے لوگوں کو بچا کے رکھیں کم از کم علم کے حد تک۔ چنانچہ یہ وہ طرزِ عمل ہے جس کی وجہ سے ان کو علماء سوء کہا گیا ہے۔ اور پھر ساتھ بھی اس کی وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ آخرت کو دنیا کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں۔ گویا کہ وہ آخرت جو کہ اعلی ہے اس کو ایک ادنی چیز کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں۔

تیسری حدیث شریف جس میں آیا ہے کہ اللہ جل شانہ جن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہے تو ان کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔ دین کی سمجھ سے مراد یہ ہے کہ جو کام جس طرح کرنا ہے وہ اس پر کھل جائے، اور تردد نہ رہے۔ اور وہ صحیح بات تک پہنچ جائے۔ لہذا یہ سمجھ اور فقاہت واقعی بہت بڑی دولت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثلاً اگر ہمارے پاس خزانہ ہو لیکن چابی نہ ہو تو وہ خزانہ ہمارے لیے نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے ہے جن کے پاس چابی ہے۔ لہذا فقاہت اور سمجھ در اصل قرآن اور سنت جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے اس سے حاصل کرنے کی چابی ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم حاصل نہیں کر سکتے۔ مثلاً قرآن میرے پاس موجود ہے لیکن میں اس سے اخذ نہ کر سکوں تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی خزانہ ہو، اور بند پڑا ہوا ہو، کیونکہ میں اس کو کھول نہیں سکتا، چنانچہ دین کی سمجھ بہت بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے۔ ایک بھلائی تو اللہ نے یہ کی ہے کہ قرآن اور سنت ہمیں عطا فرمایا ہے۔ اور دوسری بھلائی اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28) ’’بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے عالم ہی ڈرتے ہیں‘‘ یہ علماء کی خاصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں، اس کی مثال ایسے ہے جیسے litmus paper ہوتا ہے، litmus paper کا کام یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں کہ یہ تیزاب ہے یا alkali ہے یا کوئی اور چیز ہے تو اس میں litmus paper ڈال لیتے ہیں، اگر وہ سرخ ہو گیا تو تیزاب ہو گا اور اگر وہ نیلا ہو جائے تو alkali ہو گا اور اگر درمیان درمیان میں ہو گا تو پھر درمیان درمیان میں ہو گا، لہذا یوں سمجھ لیں کہ خشیت الہی litmus test ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان عالم ہے اور جانتا ہے، مثلاً کوئی جانتا ہو یہ زہر ہے وہ اسے نہیں کھاتا۔ اس طرح جو کسی برائی کو جانتا ہو تو جان بوجھ کر کوئی برائی نہیں کر سکتا۔ لہذا جو برائی کا ارتکاب کر رہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جانتا نہیں ہے یعنی حقیقت میں نہیں جانتا، الفاظ کے طور پہ شايد جانتا ہو۔ اس کے اوپر اس کی حقیقت نہیں کھلے گی۔ لہذا علماء وہی ہیں جن کے اندر علم سے خشيت آ چکی ہو۔ اور فقاہت اللہ جل شانہ کی مرضی کے مطابق قرآن اور سنت سے احکامات اخذ کرنے کا نام ہے، اور خشیت یہ ہوتی ہے کہ انسان اللہ پاک سے ڈرے اور اللہ پاک کی نافرمانی نہ کرے۔ لہذا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو وہ پھر ٹھیک ٹھیک بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اگر ٹھیک ٹھیک بات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی اس میں ہو تو فقاہت بھی اس کو مل گئی۔ جن کو فقاہت بھی ملے اور خشيت بھی ہو تو وہ علماء حق بن جاتے ہیں۔ اور ان علماء سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اور دین کے فروغ کے لیے اور ترویج کے لیے لوگوں میں ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، ان حضرات کی تعلیمات ہم تک پہنچ رہی ہیں اور ان کے ماننے والے ان سے استفادہ کر رہے ہیں، کیونکہ ان حضرات میں خشیت بہت زیادہ تھی۔ امام ابو حنيفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تو بڑے واقعات ہیں مثلاً یہ کہ وہ قرض دار کی دیوار کے سائے میں بھی کھڑے نہیں ہوتے تھے، یہ تقوی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ مسئلہ بتایا کہ اگر کپڑوں پر زیادہ گندگی نہ لگی ہو تو وہ معاف ہے، اس کا دھونا لازم نہیں ہے۔ لیکن خود اپنے کپڑوں پر تھوڑی سی نجاست لگ گئی تو اس کو دریا میں دھو دیا، شاگردوں نے پوچھا آپ نے تو کہا کہ یہ معاف ہے۔ فرمایا: وہ فتوی ہے اور یہ تقوی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان حضرات کی خشیت کا مقام یہ تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی بالکل نہیں کرتے تھے۔ نیز ان کو اللہ پاک کے احکامات بھی معلوم ہو جاتے تھے کیونکہ ان میں فقاہت تھی۔ لہذا یہ دونوں صلاحیتیں ان میں موجود تھیں۔ چنانچہ وہ آسمان پر علم کے چمکتے ستارے بن گیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان کے فیوضات سے زیادہ سے حصہ نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ