سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 501

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

حضرت جی السلام علیکم۔ اللہ جل شانہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کے تزکیہ اور وصول کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)۔ اللہ جل شانہ کا شکر ہے کہ اب رذائل کی طرف رغبت تقریباً ختم ہو گئی ہے البتہ کچھ معاملات میں ہدایت مطلوب ہے۔

نمبر 1:

عُجب اور بزرگی میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں صورتوں میں خود کو ملامت کرنا اور اپنے رذائل کو یاد کرنا درست عمل ہے؟

جواب:

تکبر اور عجب میں فرق یہ ہے کہ انسان تکبر میں دوسرے کو اپنے آپ سے حقیر سمجھتا ہے جبکہ عجب میں دوسرے کا خیال نہیں ہوتا صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو اچھا سمجھنا انسان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کا ادراک بڑا مشکل ہوتا ہے۔ انسان کی پیدائش سے ہی نفس امارہ اور شیطان اس کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔ جب تک نفس امارہ نفسِ مطمئنہ نہ بن جائے تب تک انسان میں شر کا مادہ موجود رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی بھی وقت مہلک قسم کے شر میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں خود آپ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

”یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحمَتِکَ أَستَغِیثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِىْ کُلَّهٗ وَ لَا تَکِلْنِىْ اِلٰى نَفْسِىْ طَرْفَةَ عَیْنِ“ (سنن نسائی کبریٰ، حدیث نمبر: 10405)

ترجمہ: ”اے ہمیشہ زندہ رہنے والے، سب کو تھامنے والے میں تیری رحمت کی امید کے ساتھ تجھ سے فریاد کرتا ہوں، میری ہر حالت کو درست فرما دے اور مجھے ایک لمحے کے لئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔“

ایک لمحے کے لئے بھی اگر کوئی نفس کے حوالے ہو گیا تو وہ تباہ و برباد ہو گیا۔ جب تک نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک انسان خطرے میں ہے۔ جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے پھر عجب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر عجب کی طرف خیال ہی نہیں جائے گا۔ نفس مطمئنہ حاصل ہونے کے بعد آدمی کو ہر کام کرتے ہوئے یہی خیال ہو گا کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کر رہا ہوں، یہ اللہ جل شانہ ہی کی مہربانی ہے اور اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے، محض اللہ جل شانہ کی توفیق سے یہ کام ہو رہا ہے۔ جب ہر کام میں اس سوچ کا استحضار رہے تو عجب کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

انسان کو بزرگی کی خام خیالی اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے شاید میں دوسروں سے بڑا ہوں یا میں نے کوئی بڑا کام کیا ہے۔ جب تک انسان کے ذہن سے یہ خیال نہیں نکلتا تب تک بزرگی کی بیماری اس کو لگی رہے گی اور اس کے ساتھ اس قسم کے مسائل پیش آتے رہیں گے۔ ہمیں بزرگی اور عجب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ جب کبھی بزرگی کا مرض محسوس ہو تو اسی وقت اللہ پاک کے سامنے الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنا چاہیے کہ یا اللہ اس مرض کو مجھ سے دور فرما دے۔

نمبر 2:

میری بیوی عمومی طور پر نیک سیرت ہے لیکن عبادات اور حجاب سے آگے بڑھ کر تصوف یا کسی دوسرے خالص دینی کام سے دور رہتی ہے۔ بچوں کی نماز اور قرآن کی تلاوت وغیرہ کا بھی خیال رکھتی ہے۔ سوائے کچھ ڈرامے وغیرہ دیکھنے کے باقی رذائل سے دور ہے۔ کچھ عرصہ سے میں زیادہ تر خاموش رہتا ہوں۔ وہ سمجھتی ہے کہ شاید میں اس کو نظر انداز کر رہا ہوں۔ اس کا خیال ہے کہ تصوف سے تعلق رکھنے والے لوگ گھر والوں سے دور رہتے ہیں اس لئے میں بھی اسی طرح ہو جاؤں گا۔ میری نظر میں اس معاملے میں بہتری کی صورت یہ ہے کہ میری بیوی اور بچوں کا تعلق اللہ جل شانہ سے مضبوط ہو جائے۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے ساتھ ساتھ اور کیا عمل اختیار کروں کہ یہ چیز حاصل ہو جائے؟ میرے دو لڑکے ہیں ایک کی عمر 14 سال، جبکہ دوسرے کی عمر 11 سال ہے۔

جواب:

ہمارے ایک ساتھی تھے۔ وہ مجھ سے بیعت ہوئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میری بیوی پردہ نہیں کرتی، کیا میں اس کو پردہ کرنے کا کہوں؟ میں نے کہا: نہیں ہرگز نہیں کہنا، اگر آپ نے کرنا ہی ہے تو بس ایک کام کریں کہ اپنی اہلیہ کو ان مجالس میں لاتے رہیں جو ہمارے یہاں خواتین کے لئے منعقد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسے پردہ کے بارے میں خود سے کچھ مت کہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں ایک دفعہ تو تو میں میں شروع ہو جائے تو پھر یہ معاملہ آسانی سے رکتا نہیں اور شیطان کو بد گمانیاں ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں بعض اوقات گمبھیر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر گھر کا الگ معاملہ ہوتا ہے، سارے گھروں کا معاملہ ایک جیسا نہیں ہوتا اس لئے حکمت سے چلنا چاہیے۔

اس ساتھی نے میرے اس مشورہ پر عمل کیا۔ اور اپنی اہلیہ کو اس بیان میں لانا شروع کیا جو ہمارے یہاں ہر اتوار کو 11 سے 12 تک ہوتا ہے۔ وہ آتے تھے اور بیان میں شرکت کرتے تھے۔ تین ماہ بعد اس خاتون نے خود کہا کہ میں بیعت ہونا چاہتی ہوں اور بیعت ہو گئی۔ بیعت کے ساتھ ہی اس نے کہا کہ میں ابھی سے شرعی پردہ شروع کر رہی ہوں۔ ماشاء اللہ اب تک اس کا شرعی پردہ چل رہا ہے۔ ان کے خاندان کے باقی لوگوں میں ایسا شرعی پردہ نہیں کیا جاتا تھا۔ جب اس خاتون نے پردہ شروع کیا تو اپنے خاندان کے تمام غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے لگی جن سے پہلے نہیں کرتی تھی۔ اس پر انہوں نے اعتراض کیا اور کہا: کمال ہے اپنے پیر سے پردہ نہیں کرتی لیکن ہم سے پردہ کرتی ہے۔ اس خاتون نے جواب دیا: خدا کے بندو میں نے تو پردہ سیکھا ہی اپنے پیر سے ہے، وہ تو خود ہم سے پردہ کرتے ہیں، ہم ان سے مل بھی نہیں سکتیں۔ یہ سن کر ان لوگوں کو حیرت ہوئی اور وہ بھی ہم سے آ کر ملے، تب انہیں حقیقت معلوم ہو گئی تو وہ سب بھی بیعت ہو گئے، اس طرح پورا خاندان بیعت ہو گیا۔

آپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ایسی ہی حکمت عملی اپنائیں کبھی کبھی برسبیل تذکرہ بتا دیا کریں کہ سارے تصوف والے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، ہمیں تو اپنے پیر ہی کے ذریعے میاں بیوی کے تعلق کا صحیح اندازہ ہوا اور شریعت کے حقوق معلوم ہوئے ہیں تو ہم کیوں کوئی ایسا کام کریں گے جسے کرنے میں میاں بیوی کے حقوق ادا نہ ہو سکیں۔

اور اس کو اتوار کے دن 11 سے 12 بجے والا بیان سنوا دیا کریں اگر ممکن ہو۔ ان شاء اللہ وہ جب بیان سنے گی تو آہستہ آہستہ اسے خود ہی پتا چل جائے گا۔

آپ کی اہلیہ جتنی نیکیاں پہلے سے کر رہی ہیں اللہ تعالیٰ ان میں برکت دے اور مزید کی توفیقات سے نوازے، اگر آپ بیان سنوا دیں تو ان شاء اللہ آپ کے لئے بھی آسانی ہو گی اور ان کے لئے بھی بہت فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم۔ حضرت الحمد للہ آج 14 جنوری کو ایک ماہ کا ذکر 200، 400، 600 اور 500 دفعہ ”اللہ“ اور لطیفۂ قلب پر 15 منٹ کا تصور پورا کر لیا ہے۔ پہلے سے بہتر محسوس کیا اور توجہ برقرار رہی۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب پر 10 منٹ کا تصور کریں اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ کر لیں باقی چیزیں وہی ہوں گی۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم اللہ آپ کو صحت و عافیت میں رکھیں۔ حضرت جی کبھی کبھی دل بہت عجیب ہو جاتا ہے۔ عورتوں کے لئے گھر کے کام کاج کے فضائل، ان کے فرائض، بچوں کی ذمہ داریاں اور باہر کام کرنے کے نقصانات سن کر یا پڑھ کر بچپن سے ہی دنیاوی تعلیم اور ڈاکٹری کا شوق ذہن میں بیٹھ گیا تھا۔ الحمد للہ اللہ پاک نے ڈاکٹر بنا دیا۔ ویسے آج کل کے زمانے میں خواتین ڈاکٹروں کا ہونا وقت کی ضرورت بھی ہے۔ مجھ میں اور عام دنیا دار ڈاکٹر میں سوچ کا بھی فرق ہے، آپ کی تربیت کا بھی اثر ہے، کچھ تو ہو گا ہی شاید زیادہ نہ ہو، کیونکہ کمزوریاں بہت ہیں لیکن کم از کم اختیاری طور پر جتنا اچھا سوچ سکوں یا کر سکوں وہ اللہ کی رضا کی نیت سے ضرور کرتی ہوں۔

ایک مجلس میں آپ نے عورت کے گھر سے باہر نوکری کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورت کا کام گھر کے اندر کا ہے اور مرد کا کام باہر کا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داری کا فرق ہے۔ خواتین کے جوڑ میں پردے پر گفتگو کے دوران اس موضوع پر بھی بات ہوئی کہ جو خواتین گھر سے باہر رہتی ہیں اور جو گھر کو خود دیکھتی ہیں دونوں کے گھر کے نظام میں واضح فرق نظر آتا ہے بچوں کی تربیت میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ گھر میں ٹکی رہنے والی عورت بہت زیادہ عفت والی ہوتی ہے۔ یہ باتیں بیشک حق ہیں لیکن ان کو سن سن کر بہت احساس کمتری ہوتا ہے۔ میں اس طرح کی خاتون کیسے بنوں جو اصلاحی اور تربیتی لحاظ سے نمونہ ہوتی ہیں، کوشش تو کرتی ہوں، دعا بھی کرتی ہوں لیکن ڈاکٹری کے ساتھ زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جس کام میں اللہ کا فضل و کرم شامل حال ہو، جس کام کو وہ قبول فرما لے بس وہی ٹھیک ہے، اسی کام کا فائدہ ہے جو آخرت کو سنوار دے۔ اللہ پاک کا فضل اور مدد جس کام میں آ جائے اسے کرنا خود بخود آسان ہو جاتا ہے۔ ہر کام کا بدلہ نیت کے مطابق ملے گا۔ اس کام کو کرنے سے میری نیت گھر کی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی تو نہیں ہے۔ اب بھی میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کام میں بھی میری ضرورت ہو تو اپنی ہمت سے زیادہ مدد کی کوشش کروں۔ اکثر لوگ دعا بھی دیتے ہیں لیکن پتا نہیں مجھے احساس کمتری کیوں رہتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں متواضع ہوں عاجز ہوں لیکن کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں اپنی صلاحیتوں میں دوسروں سے کم ہوں چاہے گھر کا معاملہ ہو یا اپنے کام کی بات ہو۔

آپ نے فرمایا تھا کہ احساس کمتری دنیا کی محبت سے آتا ہے۔ مجھے یہ نہیں سمجھ آتی کہ مجھ میں کون سی محبت احساس کمتری کو پیدا کرتی ہے۔ ڈاکٹری کے کام کا شوق تو ہے لیکن اس کو بھی اللہ کی رضا کی نیت سے کرتی ہوں کبھی لالچ نہیں کرتی، اس بات کو نہیں دیکھتی کہ کون سا مریض مجھے زیادہ فائدہ دے گا اور کون سا کم۔ حالانکہ عموماً ڈاکٹر لوگ اپنا فائدہ دیکھ کر مریض کو مشورہ دیتے ہیں۔ یہ سب آپ کی دعاؤں اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ اکثر باتیں ناسمجھی کی کرتی ہوں لیکن یہ چیزیں ذہن پر بہت اثر ڈالتی ہیں۔ بعض اوقات میں ہر ایک کے سامنے خود کو گرا دیتی ہوں حالانکہ عاجزی نہیں ہوتی عاجزی میں تو انسان صرف اللہ کے لئے خود کو گراتا ہے۔ عزت نفس اپنی جگہ قائم رہنی ہی چاہیے۔ اس لئے لوگ مجھے بہت دبا دیتے ہیں اور استعمال کر کے مجھے پیچھے کر دیتے ہیں کیونکہ مزاج میں نرمی ہے شاید اس لئے قدر بھی نہیں کرتے۔ اگر میں اپنی صلاحیتوں کو دیکھوں تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی نسبت اپنی طرف نہ کر دوں۔ اگر میں اپنے آپ کو بالکل کسی بھی قابل نہ سمجھوں تو دل مایوس ہوتا ہے اور شکر کی توفیق نہیں ہوتی، پھر استغفار بھی کرتی ہوں۔ میانہ روی نہیں رہتی۔ کبھی فوراً اپنے اوپر نظر آ جاتی ہے اور اگر خود کو کچھ بھی نہ سمجھوں تو لگتا ہے کہ کسی کام کے قابل نہیں رہی، اس سے نا شکری آتی ہے۔ حضرت جی دعاؤں کی بہت درخواست ہے۔

اس کے علاوہ علاجی ذکر کا بتانا تھا۔ الحمد للہ سب لطائف پر 5، 5 منٹ ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ 15 منٹ کے لئے ملا تھا وہ کرتے ہوئے 3 مہینے ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ لطائف کا ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن اتنا کم کہ اکثر پتا بھی نہیں چلتا البتہ توجہ کرنے پر محسوس ہوتا ہے۔ جب ذکر کے لئے بیٹھ جاتی ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ میں جو بوجھ کی کیفیت تھی پہلے سے بہتر ہے، بس کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ پہلے زیادہ تر خیالات پر توجہ جاتی تھی اب اس حالت میں کافی بہتری ہے۔ الحمد للہ۔

جواب:

ماشاء اللہ آپ نے اپنے حالات کا بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے۔ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ احساس کمتری کا تو خیال بھی دل میں نہیں آنا چاہیے۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ فرضی واقعہ ہے لیکن اس سے کچھ باتیں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کہتے ہیں ایک پیر صاحب سے ایک سانپ بیعت ہو گیا۔ پیر صاحب سے نصیحت چاہی تو پیر صاحب نے کہا کسی کو ڈسنا نہیں ہے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ کچھ عرصہ بعد پیر صاحب نے دیکھا کہ سانپ کے اوپر بہت سارے کیڑے مکوڑے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بیچارہ اپنا سانس روکے نیچے دبا ہوا ہے۔ پیر صاحب نے پوچھا: کیا حال ہے؟ کہتا ہے حضرت آپ دیکھ تو رہے ہیں کہ میرا کیا حال ہے! انہوں نے کہا: ایسا کیوں ہے؟ سانپ نے کہا: آپ نے ڈسنے سے روکا ہے، ان کو پتا چل گیا ہے کہ میں اب نہیں ڈسوں گا تو اب میری یہ حالت ہے۔ حضرت نے فرمایا: میں نے ڈسنے سے روکا تھا پھنکارنے سے تو نہیں روکا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں لوگ واقعی ایسا کرتے ہیں کہ اگر کسی کو متواضع دیکھیں تو اس کے سر پہ سوار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنا رویہ ظاہراً تو ایک ڈاکٹر کا رکھیں جیسے ڈاکٹر کو ہونا چاہیے لیکن دل میں متواضع رہیں اور لوگوں کی خدمت گزاری کریں، لوگوں کے کام آئیں۔ لوگوں کے سامنے اپنا رویہ زیادہ عاجزانہ نہ رکھیں، کیونکہ آپ لوگوں کے لئے تو عاجزی نہیں کر رہیں آپ تو اللہ تعالیٰ کے لئے کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی عاجزی ہونی چاہیے اور وہ عاجزی اس صورت میں ہو کہ آپ کسی کا حق نہ ماریں مثلاً مریض کا جتنا حق ہے وہ حق اس کو ضرور دیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں ڈاکٹر عجب خان صاحب۔ میں اپنے بچوں کا علاج ان سے کرواتا ہوں۔ وہ اکثر مجھے دیکھ کے اپنے آپ کو کوسنا شروع کر لیتے، کہتے آپ بھی ملازم ہیں میں بھی ملازم ہوں، آپ یہ کرتے ہیں میں یہ کرتا ہوں، مجھ میں اور ہندو ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ہے، وہ بھی فیس لیتا ہے میں بھی فیس لیتا ہوں۔ اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں آپ تو بالکل جنت کے دروازے پہ ہیں بس اندر کی طرف تھوڑا سا دھکا چاہیے اور آپ جنت میں ہوں گے۔ کہنے لگے کیا مطلب؟ آپ کی بات سمجھ نہیں آئی! میں نے کہا: حدیثِ قدسی ہے:

”أَنَاْ عِنْدَ الْمُنكَسِرَةِ قُلُوْبُھُم“ (الحلیة لابی نعیم: 177:6)

ترجمہ: ”میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہوں“۔

مریض سے زیادہ ٹوٹا ہوا دل کس کا ہو گا! آپ مریضوں سے فیس ضرور لیں، فیس لینے سے کوئی ممانعت نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اس کے لئے انوسٹمنٹ کی ہے، فیس ضرور لیں لیکن جتنا وقت اس کا حق ہے اتنا وقت اس کو ضرور دیں، اس کو انسان سمجھیں اپنا غلام نہ سمجھیں۔ اس طرح ان مریضوں کا حق ادا کرتے رہیں تو آپ کا بیڑا پار ہے۔

اس پر ڈاکٹر عجب خان نے کہا: کیا آپ مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں؟

میں نے کہا: کیوں نہیں، یہ کوئی میری بات تو نہیں، حدیث قدسی ہے۔

خیر میں نے لکھ کے دے دیا۔ اگلی بار جب میرا ان کی طرف جانا ہوا تو انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ حدیث لکھ کے اپنے سامنے لگائی ہوئی تھی۔

بس آپ بھی یہی سوچیں کہ مریض بھی خدا کا بندہ ہے اور اس وقت مدد کا محتاج ہے، اس کی دعا آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔ اس وجہ سے آپ اس کے ساتھ نرمی اور اچھائی والا معاملہ کریں۔ اپنا باقی معاملہ ڈاکٹروں کی طرح ہی رکھیں اور خواتین کے لئے تو یہ بہت ضروری ہے۔ خواتین کے لئے تو حکم ہے کہ غیر محارم سے ذرا سخت لہجے میں بات کریں۔ نرم زبان میں بات کرنا خواتین کے لئے عفت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لئے خواتین کو غیر محارم سے ذرا سخت لہجے میں بات کرنا چاہیے، بے شک وہ بد دماغ کہیں یا جو بھی کہیں آپ نے تو اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اس لئے آپ بالکل اس طرح رہیں۔ ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک آپ کی مدد فرمائیں گے۔

جہاں تک آپ کے ذکر اور لطائف کے معمولات کا تعلق ہے تو الحمد اللہ حالات بہتری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ لطائف‘ لطیفہ کی جمع ہے، لطیفہ کہتے ہیں بہت باریک چیز کو۔ اس کو آپ اس مثال سے سمجھیں کہ سائیکل پر چلنے والے کو پتا چلتا ہے کہ میں سائیکل پر بیٹھ کر راستہ طے کر رہا ہوں، موٹر سائیکل پر چلنے والے کو بھی پتا چلتا ہے کہ میں آگے جا رہا ہوں، گاڑی اور بس میں بھی پتا چلتا ہے کہ میں آگے جا رہا ہوں، لیکن بلٹ ٹرین اور جہاز میں تو بالکل پتا نہیں چلتا کہ سفر کر رہے ہیں یا یوں ہی بیٹھے ہیں، حالانکہ بہت تیزی رفتاری سے سفر ہو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرف لطائف بھی جب بہت تیز ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا احساس کم کم ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ آمین!

سوال نمبر4:

السلام علیکم۔ حضرت جی میری جمعۃ المبارک کے دن فجر کی نماز چھوٹ گئی تھی، بعد میں میں نے قضا پڑھ لی تھی اور سارا دن اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا اور سزا کے طور پر ہفتہ، اتوار اور پیر کے دنوں میں 3 روزے رکھنے کی نیت بھی کی۔ رات کو سحری کرنے کے لئے کھانا تیار کیا اور موبائل پر تہجد کے وقت کے تین الارم لگا کر سو گیا اور نیت بھی کر لی کہ صبح ان شاء اللہ روزہ بھی رکھوں گا اور تہجد سمیت تمام نمازیں وقت پر ادا کروں گا، لیکن صبح پھر آنکھ نہ کھل سکی۔ نماز تو کیا روزے کے لئے سحری کرنا بھی رہ گیا، جس پر مجھے بہت دکھ ہوا، قضا نماز کے ساتھ صلوۃ التوبہ پڑھی اور بغیر سحری کے روزے کی نیت بھی کر لی۔ حضرت جی نمازوں سمیت تمام معمولات کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، پچھلے 2، 3 دن سے بڑی مشکل سے معمولات پورے کرتا ہوں۔ سستی کا غلبہ رہتا ہے برائے مہربانی میری مدد فرما دیجیے۔

جواب:

دعا کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ دعا میں سب کے لئے کرتا ہوں۔ باقی رہ جاتی ہے ہمت اور وہ خود کرنی پڑتی ہے۔ ہمت اس طرح لیں کہ اپنے تجربے سے معلوم کریں کہ کس وجہ آپ سے نماز رہ جاتی ہے۔ وہ وجہ معلوم کریں اور آئندہ کے لئے عہد کریں کہ اس وجہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گا۔ اپنے سابقہ حالات سے تجربہ حاصل کریں اور اپنے حالات کو کنٹرول کریں۔ جب بھی کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس سے 2 باتیں سامنے آتی ہیں ایک اچھی اور ایک بری ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس کو تجربہ سمجھا جائے اور آئندہ بچا جائے، جبکہ بری بات یہ ہے کہ انسان اپنا دل ہار بیٹھے اور کہے یہ تو مجھ سے نہیں ہوتا۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ انسان مایوسی کی طرف جائے۔ لہذا آپ مایوسی کی طرف نہ جائیں اور اس بات کی اچھی طرح تحقیق کر لیں کہ وہ کون سی وجہ تھی جس کی بنا پہ یہ نقصان ہوا، اس وجہ پہ کنٹرول کریں اور کوشش کریں کہ آئندہ کے لئے ایسا نہ ہو۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ پورے گھر میں کوئی بھی نماز کے لئے نہیں اُٹھا۔ اس کے لئے تو محنت اور بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ اگر گھر میں کوئی اور نماز کے لئے اٹھتا ہو تو وہ دوسرے کو اٹھا سکتا ہے۔ اب دیکھیں میں الارم لگا کے سوتا ہوں لیکن پھر بھی گھر والوں سے کہتا ہوں کہ مجھے جگا دینا۔ آپ کو بھی آئندہ اس کے لئے کچھ طریقۂ کار بنانا پڑے گا تاکہ دوبارہ ایسا نقصان نہ ہو۔ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم۔ حضرت جی کوئی ایسی کتاب ہے جس میں حضور ﷺ کی 24 گھنٹے کی زندگی کی ہر سنت کے بارے میں لکھا ہو؟ رہنمائی کر دیجیے۔

جواب:

ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اسوۂ رسول اکرم ﷺ“ اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کے علاوہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب ”نمازیں سنت کے مطابق پڑھیے“ بھی بہترین کتاب ہے۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مطالعہ میں شامل کر لیں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید ہے مزاج عالی بخیر ہوں گے، اللہ تعالیٰ سلامت با کرامت رکھے۔ کچھ عرصہ قبل شہر سکھر کی نمازوں کی جنتریوں کے سلسلے میں آںجناب سے گفتگو ہوئی تھی، حسبِ حکم قدیم اور جدید جنتریاں جناب والا کی خدمت میں واٹس ایپ کر دی تھیں۔ اگر اس پر آنجناب کی نظر ثانی ہو چکی ہو تو رہنمائی کر دیجئے۔

جواب:

جی ہاں! وہ میں نے دیکھ لی تھیں۔ اس میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر جنتری میں ایک محدود وقت تک کا حساب ہوتا ہے، جیسے ہم جو نقشہ بناتے ہیں تو اس میں یہ دیکھتے ہیں کہ 30 سال میں کتنی تبدیلی ہو سکتی ہے، اس کو بنیاد بنا کر زیادہ سے زیادہ احتیاط پر مبنی اوقات مقرر کر لیتے ہیں۔ ہمارا طریقہ تو یہی ہے، دوسرے حضرات شاید اس احتیاط کے بارے میں کم جانتے ہوں۔ میں جب امریکہ میں گیا تھا تو ڈاکٹر کمال ابدالی صاحب جو اس شعبے کے ماہر ہیں، ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو میں نے اپنا کام بتایا تو اتنے خوش ہوئے تھے کہ بے ساختہ وہ کہنے لگے کہ This is the original work you have done۔ کہنے لگے کہ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نے کیا ہے، حالانکہ وہ کام پہلے بھی ہو چکا ہوتا ہے، لیکن جو کام آپ نے کیا ہے یہ کام پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، یعنی احتیاط پر مبنی نقشہ والا کام۔

اصل میں احتیاط ایک عجیب چیز ہے، یہ بڑا عجیب میدان ہے۔ کیونکہ احتیاط کسی ایک پہلو سے نہیں بلکہ کئی وجوہات سے کرنی پڑتی ہے۔ کئی variations ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے طول بلد اور عرض بلد کے لحاظ سے مختلف جگہوں کا فرق ہوتا ہے۔ آپ نے جس طول بلد اور عرض بلد کا نقشہ بنایا ہے جہاں جہاں اس کا استعمال ممکن ہو وہاں کے طول بلد اور عرض بلد کے ساتھ اس کا کتنا فرق ہے، اس کی وجہ سے وقت کا کتنا فرق پڑ سکتا ہے، یہ سب چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ 23 سیکنڈ کا حساب رکھنا ہوتا ہے۔ یہ کم از کم Round off error ہے۔ عام نماز پڑھنے والے کو تو بس گھنٹوں اور منٹ کا پتا ہوتا ہے مثلاً اسے یہ معلوم ہوگا کہ چار بج کر 12 منٹ پر عصر کا وقت شروع ہونا ہے، اس کے لئے چار بج کر 12 منٹ 29 سیکنڈ بھی چار بج کر 12 منٹ ہیں اور چار بج کر 11 منٹ 31 سیکنڈ چار بج کر 12 منٹ ہی ہیں۔ لیکن نقشہ بنانے والوں کو اس حد تک وقت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمپیوٹر سے زیادہ کیا چیز accurate ہو سکتی ہے۔ حالانکہ کمپیوٹر بیشک کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں Truncation of polynomial error ہوتا ہے۔ آپ نے کوئی polynomial assume کی ہوتی ہے اس میں truncation کرنا پڑتا ہے، اس کا اپنا ایک error ہوتا ہے اس کے علاوہ سورس ایرر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ سب سے چھوٹا ایرر یہی ہے کہ مثلاً 2012 کے لئے نقشہ بنا دیا ہے تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ 2042 تک اس میں زیادہ سے زیادہ کتنا error آ سکتا ہے۔ اس کے بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم نے چیک کیا تو اس میں بہت تھوڑا فرق تھا۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا وہ فرق کون سے سال میں تھا۔ جتنے سالوں کا نقشہ ہوتا ہے ان میں سے ہر سال کے بارے میں جاننا ہوتا ہے کہ کتنا فرق ہوگا اور کتنا ایرر ہوگا۔ اس میں سارا کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ بہرحال ان تمام errors کو جمع کر کے ہم لوگ Conservative side پر رہتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اذان دینے کے لئے وقت کا داخل ہونا شرط ہے اور ایسی شرط ہے جس میں شک نہ ہو، یقین ہونا چاہیے۔ اس یقین کو پیدا کرنے کے لئے تمام شکوک دور کرنے پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ ضلع اور تحصیل کے لحاظ سے با قاعدہ حساب لگاتے ہیں۔ آپ کا نقشہ کافی حد تک صحیح ہے۔ اس کو میں نے check کر لیا تھا۔ لیکن اگر آپ نے یہ کہا ہے کہ 40 سال سے اس پر عمل ہو رہا ہے تو 40 سال میں جتنا فرق آ سکتا ہے وہ اب تک آ چکا ہو گا۔ لہذا اگر آپ کو نیا نقشہ چاہیے تو ہم آپ کو سکھر کا نیا نقشہ بھیج دیں گے، آپ اس کو شائع کر لیں۔ ورنہ دارالعلوم اور آپ کے نقشہ میں مجھے کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آ رہا۔ وہ بھی احتیاط کے معیار کو اتنا زیادہ نہیں جانتے اور آپ حضرات بھی اتنا زیادہ نہیں جانتے۔ دونوں مسئلہ میں بالکل ایک سے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ احتیاط والا کام صرف اور صرف ہمارے ہاں ہوا ہے۔ دوسرے حضرات حتیٰ کہ پروفیسر عبد اللطیف صاحب جو ماشاء اللہ ہمارے بڑے محسن تھے اور بڑے بزرگ تھے ان کو بھی یہ احتیاط والی بات سمجھ نہیں آئی تھی، لیکن ڈاکٹر کمال ابدالی صاحب نے فوراً یہ پوائنٹ pick کر لیا تھا اور وہ اس پر بڑے خوش ہوئے تھے۔ میں نے ”فہم الفلکیات“ میں اس کے بارے میں تفصیل دی ہے، اگر کوئی تفصیلی طور پر ان چیزوں کو سمجھنا چاہے تو وہ کتاب پڑھ لے ان شاء اللہ العزیز اس کتاب کو پڑھ کر یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ آخر ہم کیوں اس میں ایسے احتیاط کرتے ہیں۔ اگر آپ کو چاہیے تو ہم آپ کو اپنا نقشہ بھیج دیں گے۔ آپ کے والد (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) جس وقت حیات تھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اب آپ کے اس کام کو دیکھ کر مجھے اطمینان ہو گیا ہے اب میں اس پر مزید کام نہیں کروں گا، بلکہ آپ ہی کے کام کو پھیلاؤں گا۔ آپ کو شاید یاد ہو گا کہ حضرت جب بھی جاتے تھے مجھے ٹیلی فون کرتے کہ شاہ صاحب میں فلاں جگہ جا رہا ہوں وہاں کا نقشہ چاہیے اور میں وہاں کا نقشہ حضرت کو بھیج دیتا تھا۔ اس سلسلے میں جو بھی خدمت ہو آپ مجھے بتا سکتے ہیں۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ تیسرا کلمہ درود شریف، استغفار 100، 100 دفعہ۔ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 دفعہ، ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 دفعہ ”حَقْ“ 600 دفعہ اور ”اَللّٰہ“ 2500 مرتبہ۔ ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔

جواب:

اب آپ ”اَللّٰہ، اَللّٰہ“ 3000 دفعہ کیا کریں، باقی معمولات ویسے ہی رکھیں۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔

Sir, الحمد للہ my مراقبہ is going on with توفیق of اللہ سبحانہ تعالیٰ. Despite my sleeping issue, I am having the feeling that I have to control my نفس, and utilize the blessings of اللہ سبحانہ تعالیٰ and be grateful to him and not to be worried about things. I keep your advice sent in an audio clip in whatsapp to concentrate on what I am doing and not to bring worries during نماز or ذکر. Gradually proceeding and again apologies. Apologised on my anger. May اللہ سبحانہ تعالیٰ blessed us with His رحمت here and in the hereafter آمین!

جواب:

آمین۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے اور استقامت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی دل میں خیال آتا ہے کہ نفس کی اصلاح کے بغیر اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم نہیں ہو سکتا جس سے اللہ پاک مکمل راضی ہو جائیں، لیکن یہ بات احساس کی حد تک محسوس کرتا ہوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے اس بات پر مکمل یقین نہیں ہے، اگر مکمل یقین ہوتا تو پھر اس قدر کوتاہی نہ کرتا جتنی کر رہا ہوں۔ حضرت جی ایسا کیا کروں کہ نفس کی ایسی اصلاح ہو جائے کہ اللہ پاک راضی ہو جائیں، نفس مجاہدہ کے لئے تیار ہو جائے اور اس کی اصلاح کی کوشش کا خیال وقتی نہ ہو، بلکہ دائمی بن جائے؟

جواب:

آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں۔ نفس کو اصلاح کے لئے تیار کرنا ایک اہم کام ہے۔ نفس کو اصلاح کے لئے تیار کرنے کو جذب کہتے ہیں۔ اس کے لئے ذکر اذکار دیئے جاتے ہیں، جو ہم آپ کو دے رہے ہیں۔ آپ اس کو جاری رکھیں اور با قاعدگی سے اطلاع کرتے رہیں۔ جب ہم دیکھیں گے کہ آپ کا نفس اب کم از کم اپنی اصلاح کے لئے تیار ہو گیا ہے تو پھر ان شاء اللہ اسی طرف چلیں گے۔ ایک بات سمجھ لیں کہ شریعت پر عمل ہر حال میں ضروری ہے۔ اس میں یہ نہیں سوچنا کہ جب آپ کی اصلاح ہو جائے گی تب شریعت پر عمل کریں گے، بلکہ جتنا ممکن ہو حتی الوسع شریعت پر عمل ابھی سے شروع کریں، شریعت پر عمل آپ نے ہر حال میں کرنا ہے، البتہ تصوف کے ذریعے شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جب تک مکمل اصلاح نہیں ہو پاتی اور نفس تیار نہیں ہو پاتا تب تک آپ نے زبردستی اپنے نفس کو شریعت پر چلانا ہے۔ اس کے لئے آپ کو اخیار والا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ اپنی قوت ارادی سے کسی چیز کا علم حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے چاہے کتنی ہی تکلیف ہو، اس تکلیف پر آپ کو اجر ملے گا، لیکن جب آپ کے نفس کی اصلاح ہو جائے گی اور نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے گا تو پھر آپ اس پر آسانی کے ساتھ عمل کر سکیں گے۔ آپ کوشش جاری رکھیں جو ذکر اذکار آپ کو دیئے جائیں وہ آپ کرتے رہیں۔ جب عمل کا تقاضا ہو تو آپ یہ سوچیں کہ مجھے عمل کرنا ہے، مجھے اس کا انتظار نہیں کرنا کہ میری اصلاح ہو چکی ہے یا نہیں، بس عمل کریں۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ایک student ہے جس کو یہ ذکر کرتے ہوئے دو ماہ ہو گئے ہیں: 100، 100، 100، 100۔ مزید رہنمائی کیجئے۔

جواب:

اس سٹوڈنٹ کو بتا دیں کہ ایک ماہ بعد اطلاع کر دیا کرے۔ اب اس کو کہیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار تو 100، 100 دفعہ رکھیں اور 200 دفعہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“، 200 دفعہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھوْ“، 200 دفعہ ”حَقْ“ اور 100 دفعہ ”اَللہ“، ایک مہینے تک یہ ذکر کریں۔ ایک مہینہ بعد ضرور اطلاع کریں۔

سوال نمبر11:

حضرت جی السلام علیکم۔ میرا سبق ایک ماہ کے لئے تھا جو مکمل ہو گیا ہے۔ لطیفۂ قلب پر 1500 مرتبہ اسم ذات۔ 15 منٹ مراقبہ۔ ذکر کے اثرات محسوس نہیں ہو رہے ہیں۔ حضرت میں 2001 سے مراقبہ کر رہا ہوں، مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا۔

جواب:

یہاں پر میں ایک بہت ہی اہم بات عرض کرنا چاہوں گا۔ کہتے ہیں جتنے لوگ ہیں اتنے ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے طریقے ہیں۔ اگر کسی کو ایک سلسلے کے معمولات اور طریقے سے فائدہ نہ پہنچے تو اس کے لئے دوسرے طریقے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی By chance چشتیہ سلسلے میں چلا گیا، لیکن اس کو چشتی اذکار کے ساتھ مناسبت نہیں ہے اور اس کا شیخ نقشبندی طریقہ بھی جانتا ہو تو اس کو نقشبندی طریقہ پہ چلائے گا، اگر اس پر بھی نہیں چل سکتا ہو تو سہروردی پہ چلائے گا، اس پر بھی نہ چل سکے تو قادری طریقے پہ چلا دے گا۔ کسی نہ کسی طریقے پہ اس کو لازماً فائدہ ہوگا، ایسا نہیں ہے کہ اس کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا، راستہ ضرور ہوتا ہے اور جلد یا بدیر وہ سالک اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔ Where there is a will there's a way۔

هر کجا پستی است آب آنجا رود

هر کجا مشکل جواب آنجا رود

لہٰذا منزل ضرور ملے گی۔ ہاں راستہ الگ ضرور ہو سکتا ہے، رستہ صرف ایک نہیں سمجھنا چاہیے، رستے کئی ہوتے ہیں۔ بہت سارے حضرات صرف اسی میں پھنسے رہ جاتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک راستہ ہے۔ ایک راستہ نہیں ہوتا، رستے کئی ہوتے ہیں۔

میرا اپنا واقعہ یہ ہے کہ میرے شیخ چشتی بزرگ تھے، بلکہ ماہر چشتی تھے، لیکن جب ان کو پتا چل گیا کہ میری نسبت نقشبندی ہے تو مجھے بہت زیادہ دعائیں دیں۔ اور یوں ہوتا تھا کہ وہ مجھے چشتی اذکار دیتے تھے، لیکن ان سے نقشبندی آثار پیدا ہو رہے ہوتے تھے۔ ظاہر ہے اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے نظام ہیں۔ ہاں! حضرت نے اتنا کیا کہ مجھے چشتی اذکار میں 100، 100 سے زیادہ نہیں لے گئے، حالانکہ بعض حضرات کو 48000 اسم ذات تک لے جاتے تھے، لیکن مجھے 4 تسبیح سے زیادہ کچھ نہیں دیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت نے مجھے فرمایا کہ اب آپ جو ذکر کرنا چاہیں کر لیا کریں۔

اگر آپ 2001 سے کوشش کر رہے ہیں اور نہیں ہو رہا تو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِک رستہ block ہے، رستہ block نہیں ہے بلکہ آپ کو دوسرا رستہ ٹرائی کرنا چاہیے۔

اب آپ ایسا کریں کہ درج ذیل ذکر شروع کریں اور ایک ماہ بعد مجھے اطلاع دیں۔ 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“، 200 مرتبہ ”حَقْ“ اور 200 مرتبہ ”اَللہ“، اس کو شروع کر لیں۔ ان شاء اللہ ہمیں خود احساس ہو جائے گا کہ آپ کی مناسبت کون سے ذکر کے ساتھ زیادہ ہے، پھر اسی لائن پہ چلیں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں چاروں سلسلے ہیں، چشتیہ بھی ہے، نقشبندی بھی ہے، سہروردی بھی ہے اور قادری بھی ہے۔ جس کے ساتھ آپ کی زیادہ مناسبت ہو گی اسی طریقے پہ چل پڑیں گے۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ میں ہر آدمی کو ایک طرح کا ذکر نہیں دیتا، الگ الگ ذکر دیتا ہوں، اس کی وجہ یہی ہے ان کی مناسبت اس ذکر کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔

جب ہم نے پہلی دفعہ ”حَقْ“ کا ذکر شروع کروایا تو ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ اس ذکر کے ساتھ میرے پانچوں کے پانچوں لطائف چل پڑے۔ اب اس شخص کے لئے چابی یہیں سے مل گئی اور اس کا کام ہو گیا۔ تو یہ ہر شخص کے لئے علیحدہ علیحدہ حساب ہوتا ہے۔ بلکہ ان سب طریقوں کے علاوہ ایک طریقہ اور بھی ہوتا ہے، جو مشکل تو بہت ہے لیکن کسی کسی کو حاصل ہو جاتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے بارہ میں لکھا ہے۔ وہ ہے اسم مربی کا طریقہ۔ اگر کسی کو اسم مربی مل جائے تو اسے اسی کے ذریعہ فنا حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ آج کل کے زمانہ کے لحاظ سے مشکل ہوتا ہے، اس وجہ سے ہم یہ طریقہ عموماً نہیں دیتے۔ زیادہ نہیں دیتے۔

بہرحال ابھی آپ یہ ذکر شروع کر لیں اور فی الحال مراقبہ نہ کریں۔ اس کو اپنے لئے کم نہ سمجھیں۔ احساس کمتری میں نہیں جانا چاہیے، یہاں احساس کمتری والی بات نہیں ہے، کیونکہ اصل مقصود یہ چیزیں نہیں ہیں۔ نہ مراقبہ مقصود ہے، نہ ذکر جہری مقصود ہے اور نہ ہی مجاہدات مقصود ہیں۔ یہ سب ذرائع ہیں، جس کا جس ذریعے سے کام بن گیا اس کے لئے وہی ذریعہ ٹھیک ہے۔ اصل مقصود کو دیکھنا چاہیے۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مندرجہ بالا احوال پیش خدمت ہیں۔ آپ نے فجر کے اہتمام کی تاکید فرمائی تھی، الحمد للہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ فجر کا اہتمام ہو رہا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ بڑی اچھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فجر کی نماز نصیب فرمائی اور تکبیر اولیٰ بھی نصیب ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین)

سوال نمبر13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ کل مثنوی شریف کے بیان میں درج ذیل دو باتوں کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ ان کو نوٹ کر لیں۔

1: پہلی بات یہ کہ اکثر شعراء حضرات اور اہل اللہ یہ فرماتے ہیں کہ عشق کو عقل پہ غالب کر دو۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور کر لو اور پھر عقل کو اس کا تابع بنا دو، عقل کی 2 حالتیں ہیں، ایک عقل معاش اور دوسری عقلِ معاد ہے۔

یہاں عقل معاش کو دل کے تابع کرنے کی بات ہے، جیسے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

اس سے ایک اور بات کی طرف میرا ذہن چلا گیا کہ جس طرح عقل کی 2 حالتیں ہیں عقل معاش اور عقل معاد۔ اسی طرح دل کی بھی 2 حالتیں ہیں۔ دنیا کی محبت میں گرفتار دل اور اللہ کی محبت میں گرفتار دل۔ اسی طرح نفس کی بھی 2 حالتیں ہیں نفس امارہ اور نفس مطمئنہ۔ یہاں آسانی کی خاطر نفس لوامہ کو ہم نہیں لیتے۔ ان تینوں سے Two by three matrix بن جاتی ہے۔ ان تینوں سے ہم 2 نظام بنا سکتے ہیں۔ ایک قلب و جگر والا نظام اور دوسرا دل و دماغ والا نظام۔ ایک بیان میں آپ نے ان دونوں نظاموں کے کام پر یہ بات فرمائی تھی کہ سمجھنے کا کام دل و دماغ والے نظام کے ساتھ ہے، جس کی ابتدا ایمان سے ہوتی ہے جو کہ دل میں ہوتا ہے پھر اس ایمان کے ذریعے سے دماغ ایمانی اخبارات کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، یہاں بھی ایمانی اخبارات دماغ پر اس وقت اثر کرتے ہیں جب عقلِ معاش سے عقلِ معاد کی طرف انتقال ہو چکا ہوتا ہے، ورنہ آجلہ کی وجہ سے عقلِ معاش غالب ہو جاتی ہے۔ عقلِ معاش کو مغلوب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت بہت بڑا ذریعہ ہے، جو دل کی طرف سے ہوتا ہے اور دل میں اللہ کی محبت ذکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ یہاں آیت معرفت والی بات بھی ساتھ جڑ گئی۔

دوسرا نظام قلب و جگر کا ہے، یہ فاعلیت کا نظام ہے۔ اس میں اگر قلب کو جگر پر غالب رکھا جائے تو نظام صحیح طور پر چل سکتا ہے۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی تھی کہ جیسے صحابہ کرام کو فرمایا گیا:

﴿لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾ (الحجرات: 2)

ترجمہ: ”اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو“۔

اس وقت آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ہیں اور صحابہ کرام بھی نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو موجود ہیں، وہ ہر وقت ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لئے ایک دعوت ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہم سے کسی بات پر ناراض نہ ہو جائیں۔ اس لئے ہمہ وقت یہ دوربین لگی رہے۔

اندر ایں رہ می تراش و می خراش

تا دم آخر دمی فارغ مباش

اور یہی تقوی ہے۔ اس میں ایک یہ بات میرے دل میں آئی ہے کہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کے سامنے اپنی آوازیں بلند نہ کریں تو اس وقت جو آپ ﷺ کے نائب ہیں ان کے سامنے اپنی آوازوں کو بلند کرنا نقصان کا سبب ہو سکتا ہے۔ یہ مضمون کافی وسیع ہے اور اس میں تمام شعائر اللہ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی تھی اور آپ ﷺ کا قلبِ اطہر انتہائی نفیس تھا جس کی وجہ سے کسی کی کوئی معمولی سی غلطی آپ ﷺ پر کافی بھاری ہوتی تھی۔ بشر ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے جذبات بھی ہوتے تھے جو کہ انتہائی حساس تھے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے تو کوئی مثال نہیں اس لئے ابتداءً یہ احتیاط اولیاء اللہ کے ساتھ رکھنا ہو گی۔ ان کے ساتھ یہ احتیاط عملاً آسان بھی ہے اور ان سے ترقی ہو کر اللہ کے ساتھ بھی یہ احتیاط انسان اپنے اندر لا سکتا ہے۔ اس سے فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کی ترتیب کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ نیز اگر کوئی سلوک ولایت والا ہے تو وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی یہی گمان رکھتا ہے۔

جواب:

جی بالکل! یہ سب باتیں درست ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب پر آج کل کے دور کے لحاظ سے صحیح باتیں الہام فرما دیں اور ہر قسم کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرما دیں۔ (آمین)

سوال نمبر14:

السلام علیکم حضرت صاحب۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کو، آپ کی خانقاہ کو اور آپ کے گھر والوں کو سلامت رکھے۔ آپ سے لیا ہوا ذکر کرتے ہوئے 3 ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں، جس میں 12 تسبیح اور 500 بار اللہ کے نام کا ذکر قلب پر، 10 منٹ لطیفۂ قلب، 10 منٹ لطیفۂ روح اور 15 منٹ لطیفۂ سر پر ہے۔ ہر دفعہ ارادہ کرتا ہوں کہ آپ کو اطلاع دوں، مگر غفلت کی وجہ سے اطلاع نہیں کر پاتا۔ آپ سے دور ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ دنیا میرے دل میں آ گئی ہے، میں زندگی اپنے نفس کے لئے گزار رہا ہوں۔ ذکر میں مستقل مزاجی نہ ہونے اور آپ سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے میرے دل میں بے سکونی سی ہے۔ یہ سب میری غفلت ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجدیں بھی بند ہیں، اس لئے نماز گھر میں پڑھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کسی کو نہ ملوں۔ جب بھی ملتا ہوں تو غیبت بہت کرتا ہوں، بعد میں یاد آ جاتا ہے تو توبہ کرتا ہوں۔ حضرت صاحب آپ کی صحبت سے دوری محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے صبح کے بیانات مستقل سنتا ہوں۔ دن کی routine بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے۔ ہر نماز کے بعد 100 دفعہ استغفار اور 100 دفعہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ مراقبہ میں بھی بہت کم مستقل مزاجی ہے۔ ذکر توجہ سے کرتا ہوں، لطائف یا ذکر محسوس ہوتے ہیں۔ اگر میرے میسج میں کوئی غیر مناسب بات ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ آپ سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ میرے لئے اور میرے گھر والوں کے لئے ہدایت کی دعا کریں۔ سالک فلاں، کوالا لمپور ملائشیا۔

جواب:

آپ جہاں پر بھی ہیں اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازیں۔ ہمارے شیخ ایک بڑی اچھی بات فرماتے تھے کہ ”جہاں رہو اللہ کے ساتھ رہو۔ ہر جا کہ باشی با خدا باشی“۔ یہ حضرت کی ایک نصیحت ہوتی تھی۔ مجھے حضرت نے آٹو گراف لکھ کے دیا تھا ”ہر جا کہ باشی با خدا باشی“۔ اب مجھ سے جو بھی آٹو گراف مانگتا ہے میں اس میں یہی لکھ دیتا ہوں ”ہر جا کہ باشی با خدا باشی“۔ جب ہمارے شیخ فوت ہوئے تو ایک صاحبِ کشف حضرت کے مزار پہ گئے مراقبہ کیا تو اپنے ساتھی سے کہا: کمال ہے حضرت فرما رہے ہیں ”ہر جا کہ باشی با خدا باشی“۔ اس لئے ہم بھی یہی کہتے ہیں ”ہر جا کہ باشی با خدا باشی“ آپ جہاں پر بھی ہیں اللہ کے ساتھ رہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ذکر میں رطب اللسان رہیں، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان زبان سے ذکر کرتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔

﴿فَاذْكُرُونِيْ أَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرة: 152)

ترجمہ: ”مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔“

آپ ان 2 باتوں کو یاد رکھیں بس پھر آپ اللہ کے ساتھ ہوں گے۔ تیسری بات یہ کریں کہ جب بھی کوئی پریشانی ہو اللہ سے مانگ لیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دعا کے ذریعے آپ کا اللہ کے ساتھ تعلق جڑا رہے گا۔ جتنی ضرورت زیادہ ہو گی اتنی دعا میں آپ کی توجہ زیادہ ہو گی اور اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا تعلق زیادہ حاصل ہو گا۔ یعنی ہر طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ ان باتوں پہ عمل کریں اور اپنے معمولات جاری رکھیں۔ باقاعدگی کے ساتھ اطلاع بھی کریں۔ ان شاء اللہ، اللہ پاک آپ کے ساتھ اچھا معاملہ فرمائیں گے۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم۔

My dear and respected ,مرشد I hope you are well ان شاء اللہ. In the نقشبندی طریقہ, there is وقوف قلبی and پاس انفاس to help with keeping focused and not to go into غفلت. Is there anything similar in any other طریق to help with focus and concentration? جزاک اللہ.

جواب:

Yes, if you think that اللہ سبحانہ تعالیٰ is looking upon me with رحمت so ان شاء اللہ it will be having the same effect and probably it's more easy.

سوال نمبر16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت اقدس مزاج بخیر۔ اس ہفتے میں 2 دن ذکر کے دوران ایک قسم کا توحش محسوس ہوا ہے، بلکہ زبردستی ذکر کرتا ہوں اور دوسری عرض یہ ہے کہ بندہ کو پچھلے ہفتے جواب موصول نہیں ہوا۔ وہ خط مندرجہ ذیل ہے:

”السلام علیکم رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ، مزاج بخیر۔ مفتی شفیع صاحب نے تسہیل قصد السبیل میں توبہ کی تفصیل میں یہ بات لکھی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنی چاہیے۔ مزید حضرت والا رہنمائی فرما دیں تاکہ میری توبہ کی تکمیل ہو جائے“۔

جواب:

حقوق اللہ سے متعلقہ گناہوں سے توبہ میں تین چیزیں ضروری ہیں۔ 1۔ اس گناہ پر نادم ہو۔ 2۔ دوبارہ نہ کرنے کا عزم ہو۔ 3۔ اگر کوئی قضا وغیرہ ذمے ہو تو اسے ادا کیا جائے۔ اگر وہ گناہ حقوق العباد سے متعلق تھا تو اس میں ایک چوتھی چیز بھی شامل ہے کہ جس بندہ کا حق مارا ہو اس سے معافی مانگی جائے اور اس کا حق واپس کیا جائے۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم۔ حضرت آپ نے جو اذکار دیئے تھے ان کو 30 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اذکار یہ تھے: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”حق“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 100 مرتبہ۔

جواب:

اب باقی ذکر وہی کریں اور ”اللہ“ 300 مرتبہ کیا کریں۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم حضرت جی۔ موت کا خوف ایسے سوار رہتا ہے کہ زندگی کی روٹین بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس حالت سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟

جواب:

اگر آپ کو ہر وقت لگے کہ میرا آخری وقت ہے تو سوچیں کہ ایسے وقت میں کیا کرنا چاہیے، اور کچھ نہیں تو کم از کم ذکر تو کرنا چاہیے۔ جب آپ ذکر شروع کریں گے تو اگر شیطان کی طرف سے ایسا خوف ڈالا گیا ہو گا تو وہ خود ہی چھوڑ دے گا اور اگر منجانب اللہ ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ذکر کی توفیق دے گا۔ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر اس نیت کریں کہ اگر موت آنے والی ہے تو چلو ذکر کرلوں تو موت کا ڈر ختم ہو جائے گا اور اگر شیطان کی طرف سے ہے تو شیطان خود ہی روک دے گا۔ لہٰذا آپ یہ کوشش کریں کہ کوئی کام شریعت کے خلاف نہ ہو اور کثرت سے ذکر کریں تو یقیناً یہ موت کی تیاری ہو گی۔ موت تو بہرحال آنی ہی ہے چاہے پتا ہو یا نہ ہو۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ”چې کومې بلا نه نهُ خلاصیږې هغې له غاړه غوټۍ ورځه“ جس بلا سے مفر نہ ہو تو اس کو گلے لگا لو۔ آپ بھی اس پریشانی کو گلے لگا لیں اور کہیں کہ بس ٹھیک ہے! اگر موت آنے ہی والی تو میں نے اس میں سرخرو ہونا ہے اور دو کام پابندی سے کرتے رہیں، کثرت سے ذکر اور شریعت پر عمل۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم۔

نمبر 1:

لطیفۂ قلب 10 منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ اب 15 منٹ کے لئے دوسرا لطیفہ بھی ساتھ دے دیں یعنی لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15منٹ۔

نمبر 2:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان کو 10، 10 منٹ کا کر کے مراقبۂ احدیت بتا دیں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت 15 منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان کو مراقبۂ تجلیات افعالیہ بتا دیں اور تمام لطائف پر 10، 10 منٹ کا ذکر بتا دیں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 15 منٹ، سِرّ پر ذکر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

انہی معمولات کو مزید ایک مہینہ کروائیں۔ ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔

نمبر 5:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

تو تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر کرے اور مراقبۂ احدیت بھی کروا دیں۔

نمبر 6:

لطیفۂ قلب 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح پہ 15 منٹ کر لیں۔

نمبر 7:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر 10 منٹ اور لطیفۂ سر پر 15 منٹ کا ذکر دے دیں۔

نمبر 8:

لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب پہ 10 منٹ اور لطیفۂ روح پہ 15 منٹ۔

سوال نمبر20:

لنڈی کوتل کی طالبات۔ لطیفۂ قلب 15 منٹ۔ ذکر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ان کو بتا دیں کہ لطیفۂ قلب پر 15 منٹ ذکر کریں اور ساتھ ساتھ یہ تصور کریں کہ اللہ جل شانہ رحمت سے ہمارے دلوں کو دیکھ رہے ہیں۔

سوال نمبر21:

A question coming from some English knowing people:

What’s meant when it is said that ذکر of اسم ذات is felt in a لطیفۂ? Is it a sound or feeling?

جواب:

Of course it is a feeling, but it may look like a sound. Once a doctor was checking my heart so I asked him, is there any problem? He said no it sounds ok. It means the sound may be there and the sound should look as if the heart is saying اللہ اللہ.

سوال نمبر22:

السلام علیکم شاہ صاحب۔ سورہ آل عمران کی آخری آیتوں کی تفسیر میں ہے کہ آپ ﷺ تہجد کے وقت ﴿إِنَّ فِیْ‏ خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ﴾ (آل عمران: 190) سے لے کر آخر تک، آخری 11 آیات آسمان کی طرف دیکھ کر تلاوت فرماتے تھے۔ کیا انہیں تلاوت کرتے وقت آسمان کو دیکھنا ضروری ہے؟ میں جب تلاوت کرتی ہوں تو آسمان کو نہیں دیکھ پاتی، کیونکہ زبانی یاد نہیں ہے البتہ جب صحن میں بیٹھ کر پڑھتی ہوں تو پہلے آسمان کو دیکھتی ہوں اور پھر تلاوت کرتی ہوں۔ کیا اس طرح سنت ادا ہو جاتی ہے؟

جواب:

اگر آپ یہ آیات پڑھ کر آسمان کو اس نیت سے دیکھیں تو یہ کافی ہو گا۔

سوال نمبر23:

سب لطائف پر 5، 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ تجلیات افعالیہ 15 منٹ ملا ہوا تھا اس کو تین ماہ ہو گئے ہیں۔

جواب:

اب تجلیات افعالیہ کی بجائے 15 منٹ کے لئے مراقبۂ صفات ثبوتیہ شروع کر لیں۔ باقی معمولات وہی رکھیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ