ذکرِ الٰہی اور کاروبار: قرآن کی روشنی میں صحیح مفہوم

سوال نمبر 280

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اللہ جل شانہ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں﴿رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ﴾ ( النور: 37) ’’ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی‘‘۔ اس آیت کریمہ میں ان ایمان والوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔ کیا یہاں ذکر سے مراد ذکر لسانی ہے يا اس سے مراد اپنی دنیا کے کاموں میں مشغولیت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

اس بات کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ انسان کو جو چیز یاد رہتی ہے اس کا اثر ہوتا ہے، آپ کسی کو کوئی کام کہہ دیں اور بعد میں اس سے پوچھیں کہ وہ کام ہو گیا؟ وہ کہے کہ اوہ! مجھے تو یاد ہی نہیں تھا۔ یہ بہت بڑا excuse ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کام کرنے کے لیے یاد ہونا ضروری ہے۔ اب تجارت میں عاجلہ یعنی فوری ہونا موجود ہے یعنی یہ یہاں کی چیز ہے، اس لیے اس میں فوری طور پر انسان گم ہو جاتا ہے۔ مثلاً آپ دکان پہ بیٹھے ہیں کافی دیر تک کوئی گاہک نہیں آیا اور جس وقت گاہک آیا اسی وقت اذان ہو گئی، اب آپ کے دل میں کشمکش شروع ہو گئی کہ پتا نہیں گاہک پھر آتا ہے نہیں آتا؟ نماز تو بعد میں پڑھ لوں گا۔ اس کشمکش میں انسان کس طرف جاتا ہے یہ اس کے ایمان کے تقاضے پر موقوف ہے اور اللہ کی یاد کی وجہ سے ہے۔ اب اگر اس کو اللہ یاد ہے اور اتنا یاد ہے کہ دنیا کی یہ چیز اسے اتنی زیادہ یاد نہیں ہے۔ دنیا کی چیز سامنے ہے لیکن اللہ اس کو زیادہ یاد ہے، اور اس کو ادراک ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بھی اللہ کی ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے لینا چاہے تو ابھی لے لے۔ لہذا وہ اللہ پاک کا حکم پورا کرے گا۔ جب اس کو پتا ہو گا کہ یہ اللہ کی ہے۔ اب یہ جو اللہ کا حکم پورا ہوا ہے یہ اللہ پاک کی یاد سے ہوا ہے، لیکن یہ یاد indirect بھی ہوتی ہے اور direct بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب انسان لسانی یا قلبی ذکر کرتا ہے تو یہ direct یاد ہے۔ اور indirect یاد یہ ہے کہ اللہ پاک نے مجھے جو حکم دیا ہے، مجھے جس کام کے لیے بھیجا ہے اگر مجھے وہ حکم یاد ہے تو گویا اس کے ذریعے سے مجھے اللہ یاد ہے۔ کیونکہ اللہ کا حکم یاد نہیں ہو گا تو وہ چیز یاد بھی ہو گی تو پرواہ نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس میں اللہ پاک کا یاد ہونا ضروری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے روکے۔ اب گناہ عاجلہ ہے کیونکہ انسان فوراً اس گناہ کی لذت حاصل کرتا ہے۔ تو اس عاجلہ کے وقت اللہ کی یاد اتنی مؤثر ہو جائے کہ آپ اس گناہ کی طرف نہ جائیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھیں۔ اور جو ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے وہ انعام اسی بنیاد پر ہے کہ جس وقت انسان کو کوئی غير محرم نظر آئے جو کہ بہت بڑی عاجلہ ہے، تو اس عاجلہ نے اگر آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور آپ اسی میں لگ گیے تو کام خراب ہو گیا، لیکن اگر اس عاجلہ کے اچانک سامنے آنے سے آپ کو فوراً اللہ یاد آ گیا کہ اللہ نے مجھے اس سے روکا ہے تو اس پر یہ انعام ہے، کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ڈر سے جو اپنی نظر ہٹائے اس کو اللہ پاک ایسی عبادت کی توفیق دیں گے جس میں وہ ایمان کی حلاوت کو خود محسوس کرے گا، کیونکہ اس نے عاجلہ کو دور پھینکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو لیا ہے۔ تو یہ indirect ذکر ہے، لیکن بہت powerful اور مقصودی ہے، کیونکہ یہ فرض ہے اور لسانی یا قلبی ذکر مستحب ہے یا ذریعہ ہے، ویسے عام طور پر مستحب ہے، لیکن اگر اس کو آپ اللہ پاک کے مقصودی ذکر کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو ہو سکتا ہے۔ لہذا تب یہ ذریعہ ہو گا۔ اگر مشائخ نے دیا ہے تو ذریعہ ہے، اگر آپ ویسے کر رہے ہیں تو وہ ثواب ہے، اس پر اجر بھی ہے، لہذا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر دنیا کی چیزوں کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ٹال دے تو اس نے وہاں جہنم کو opt کر دیا۔ اور جو اللہ کے حکموں کو نہ ٹالے بلکہ اس چیز کو چھوڑ دے تو اس نے جنت کو opt کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اس پر بہت زیادہ دینے والے ہیں۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرما دے

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ