معرفت نبوی اور استغفار کا راز

سوال نمبر 279

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

قرآن پاک میں آپ ﷺ کو فرمایا گیا ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى (الضحى: 7) اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں روز ستر دفعہ سے زیادہ استغفار کرتا ہوں، اور آپ ﷺ کے لیے دوسری جگہ فرمایا گیا ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (الشرح: 4) ان دو قرآنی آیات اور آپ ﷺ کی حدیث شریف کو سامنے رکھ قرآنی لطائف کے طور پر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ مسلسل معرفت عطا فرما رہے تھے اور جب معرفت میں ترقی ہوتی تھی تو آپ ﷺ پچھلی معرفت پر مسلسل استغفار کرتے جاتے تھے اور اسی معرفت کی مسلسل ترقی کی وجہ سے ہر وقت آپ ﷺ کے لیے ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ (الشرح: 4) ثابت تھا، اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کے جس امتی کی بھی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے اس پر آپ ﷺ کا مقام مسلسل آشکارہ ہوتا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا حضرت ان باتوں میں کوئی غلطی ہو تو وضاحت فرمائیں۔

جواب:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى (الضحى: 7) کا معنی جاننے کی ضرورت ہے، ایک صاحب جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف تھے، انہوں نے حضرت سے پوچھا کہ اس کا کیا معنیٰ ہے؟ وہ سوچ رہا تھا کہ "ضَآلًّا" گمراہ کے معنیٰ میں آتا ہے۔ چنانچہ حضرت تھانوی نعوذ من ذلک ایسی بات کریں گے تو ہم پکڑ لیں گے۔ حضرت نے فرمایا: ’’پایا آپ کو ناواقف سو واقف بنا دیا‘‘ تو وہ حیران رہ گیا کہ اب اس پر کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جس چیز کا پتا نہ ہو اس سے انسان ناواقف ہی ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ﷺ کو جب تک نبوت نہیں ملی تھی تب تک آپ ﷺ اس سے نا واقف تھے، حتی کہ جب جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو ان سے بھی نا واقف تھے، بلکہ آپ ﷺ پر خوف طاری ہوا اور جب اپنے گھر تشریف لائے تو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: "زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی" ’’مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو‘‘ انہوں نے پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ آپ ﷺ سے واقعہ بتایا تو وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ آپ کے اوپر وہ ناموس آیا ہے جو موسی علیہ السلام پر بھی آتا تھا۔ پھر فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں آپ کی مدد کروں گا جب آپ کی قوم آپ کو آپ کے شہر سے نکالے گی۔ آپ نے فرمایا: کیا قوم مجھے اپنے شہر سے بھی نکال دے گی؟ چنانچہ آپ ﷺ اس سے بھی نا واقف تھے اسی لیے اتنا حیران ہوئے۔ کیونکہ لوگ آپ ﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے، اس لیے آپ ﷺ حیران ہوئے کہ مجھے قوم کیسے نکالے گی؟ کیونکہ وہ بہت قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں نبوت کے ساتھ یہ باتیں ہوتی ہیں، بہرحال آپ ﷺ کی ان چیزوں سے نا واقفیت کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ انسان کی عقل نہ مانے۔ کیونکہ جیسے جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں مسلسل انسان کی واقفیت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت کے اترنے سے پہلے آپ ﷺ اس سے ناواقف تھے۔ لہذا ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى (الضحى: 7) کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کو نا واقف پایا سو واقف بنا دیا۔

جہاں تک ستر مرتبہ استغفار کا معاملہ ہے۔ تو واقعی اللہ جل شانہ آپ ﷺ کے مقام کو ہر وقت مسلسل بڑھا رہے تھے، مثلاً میں سیڑھیوں پہ چڑھتا ہوں تو جب میں پانچویں سیڑھی سے چھٹی پر چڑھ جاؤں گا تو پانچویں سیڑھی اس سے نیچے رہ جائے گی اور جب ساتویں سیڑھی پر چڑھوں گا تو چھٹی اس سے نیچے ہو گی، اسی طرح مسلسل واقفیت بڑھنے سے پہلے جو نا واقفیت تھی اس پر آپ ﷺ استغفار فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ ﷺ سے نعوذ باللہ من ذالک گناہ سر زد ہونے کا تو سوال نہیں پیدا ہو سکتا تھا، آپ ﷺ معصوم عن الخطاء تھے۔ اور پھر استغفار کی بہت زیادہ برکات ہیں، صرف یہ نہیں کہ اس سے صرف گناہ معاف ہوتے ہیں، بلکہ اگر گناہ ہوں تو وہ معاف ہو جاتے ہیں، اگر گناہ نہ ہوں تو درجات میں ترقی ہو جاتی ہے۔

باقی جہاں تک ﴿وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (الشرح:4) کی بات ہے، تو اس بارے میں باقاعدہ حدیث شریف موجود ہے کہ آپ ﷺ پر جب یہ آیت اتری تو جبرائیل علیہ السلام آئے اور پوچھا: یا رسول اللہ آپ کو پتا ہے کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ بتائیں، کیوں کہ ممکن ہے آپ کو اوپر سے پتا چل گیا ہو گا۔ تو جبرئیل نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جہاں میرا ذکر وہاں تیرا ذکر ہو گا۔

مثلاً میں قرآن پاک کا درس دیتا ہوں، پڑھتا ہوں اگر مجھے اس کا ثواب ملتا ہے، اللہ تعالیٰ توفیق دے اور ہمیں ثواب عطا فرمائے۔ تو آپ ﷺ کو بھی اس کا ثواب ملے گا، اسی طرح جنہوں نے مجھے پڑھایا ہے ان کو بھی ملے گا، جنہوں نے لکھا ہے ان کو بھی ملے گا، سارے لوگ اس ثواب میں شریک ہیں لہذا ان کے درجات بھی بلند ہو رہے ہیں۔ چنانچہ جتنے لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں سب کے ذریعے سے آپ ﷺ کے درجات مسلسل بلند ہو رہے ہیں۔ اور جتنے لوگ اعمال کر رہے ہیں سب کے ذریعے سے آپ ﷺ کے درجات بلند ہو رہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لیے آپ ﷺ کا مقام بھی معرفت کے مطابق ہی آشکارہ ہوتا ہے، جتنی کسی کی معرفت ہوتی ہے اتنا ہی اس پر من جانب اللہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہو رہا ہوتا ہے اور آپ ﷺ کے اس قرب کا بھی ادراک ہو رہا ہوتا ہے جو آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہے۔ اور وہ مزید اس میں ترقی کرتا جاتا ہے اور جس کی جتنی قسمت ہے وہاں تک پا لیتا ہے۔ سَیْر فِی اللہِ کا یہی مطلب ہے کہ سَیْر اِلٰی اللہِ مکمل ہو چکی ہو تو پھر ان چیزوں کے ذریعے سے ترقی ہو رہی ہوتی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ