مال و دولت اور دین: حدیث و ملفوظات کا تطبیقی جائزہ

سوال نمبر 278

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



سوال:

کچھ دن پہلے آپ نے ایک حدیث شریف بیان فرمائی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک زمانہ ایسا آٸے گا جب درہم اور دینار کے علاوہ کوٸی چیز نافع نہیں ہو گی۔ دوسری طرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ ہے کہ عالم دین کے لیے بہتر یہی کہ وہ غریب ہی رہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ بظاہر حدیث شریف کے خلاف لگ رہا ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حدیث شریف میں جس زمانے کا فرمایا اس زمانے میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس مال نہیں ہو گا تو وہ اپنے آپ کو فتنوں سے کیسے بچائیں گے۔

جواب:

اصل میں ہر چیز کو دیکھنے کے مختلف نقطہ ہائے نظر ہوتے ہیں مختلف point of view ہوتے ہیں، اور ہر چیز کو دیکھنے کی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں۔ حدیث شریف تو بالکل واضح ہے اس میں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ حدیث شریف سے تو یہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مال فتنہ ہے۔ کیوں کہ یہ بھی حدیث شریف ہے کہ میری امت کے لیے مال سب سے بڑا فتنہ ہو گا۔ در اصل ایک ہوتی ہے مال کی فراوانی۔ اور ایک ہوتی ہے ضرورت کے مطابق مال کا ہونا۔ یہاں مال کی فراوانی کا نہیں فرمایا گیا بلکہ ضرورت کے مطابق ہونے کا کہا گیا ہے کہ جتنا آپ کی ضرورت ہے اتنا آپ کے پاس ہو۔ مثلاً کھانے پینے کے لیے آپ کے پاس مال ہو، کپڑے کے لیے ہو، سر چھپانے کے لیے جگہ ہو، کیونکہ یہ چیزیں آپ کو دوسروں کی طرف متوجہ کر سکتی ہیں۔ لہذا وہ درہم اور دینار جب ان چیزوں کے کام آئے گا تو اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ دوسروں پہ نظر نہیں پڑے گی اور لوگ کسی کے ایمان پر ڈاکہ نہیں ڈال سکیں گے۔ باقی جہاں تک مال کی فراوانی ہے تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کے پاس اگر ایک لاکھ روپیہ ہے تو آپ دوسرے لاکھ کی تلاش میں ہوں گے۔ آپ کے پاس ایک کروڑ ہے تو آپ دوسرے کروڑ کی فکر کریں گے۔ آپ کے پاس ایک فیکٹری ہے تو آپ دوسری کی طمع کریں گے۔ حديث شريف میں یہ بھی ہے کہ ایک وادی سونے کی ہو تو آپ سونے کی دوسری وادی کی طمع کریں گے۔ اور فرمایا کہ بنی آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔ ان سب احادیث شریفہ کا لب لباب اکھٹا جب ہم دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ضرورت کے مطابق مال کا ہونا اللہ کی نعمت ہے۔ کیونکہ اس سے انسان فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس ضرورت کے مطابق مال نہیں ہے اور وہ عالم ہے، عین ممکن ہے کہ دوسروں کی جیبوں پر اس کی نظر جانے لگے، پھر وہ اس کے لیے اپنے علم کو استعمال کرنے لگے، نتیجتاً اسی میں گمراہ ہو جائے۔ لہذا حدیث شریف پر یوں عمل ہو گیا کہ اتنا مال ہونا چاہیے کہ کم از کم یہ صورت حال پیدا نہ ہو۔ اور اس کے لیے طریقہ یہ ہے کہ کوئی کام کرنا چاہیے، دوسروں پہ dependent نہیں رہنا چاہیے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے پہ عمل کرے، جیسے وہ تجارت کرتے تھے، اور بہت بڑے عالم بھی تھے۔ لہذا حدیث شریف پر عمل تو اس معنی میں ہے۔

جہاں تک حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے درجے میں تو پورا ہو، لیکن فراوانی نہ ہو کیونکہ دولت ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ اس لیے جتنا مال زیادہ ہوتا ہے مال کی طرف نظر اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے علم سے استفادہ نہیں کر سکے گا، بلکہ وہ مال ہی میں گم رہے گا، اگر اس کی تربیت نہ ہوئی تو دنیا کی چیزوں کو سنبھالنے میں لگا رہے گا۔ اگر تربیت ہوئی ہو تو پھر چاہے بادشاہ ہو، جیسے داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اگر تربیت نہ ہو تو وہی مال اس کو اپنے اندر مشغول کر لے گا۔ لہذا کن لوگوں نے علم میں زیادہ کام کیا ہے؟ آپ لوگ تو مدرسوں کے ہیں بتائیں کن علماء نے علم کے میدان میں زیادہ کام کیا؟ جن کے پاس بہت سارا مال تھا؟ چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اس معنی میں کہا ہے۔ انسان اپنے علم سے تب فائدہ اٹھا سکتا ہے جب دوسری چیزوں کی طرف اس کی توجہ نہ ہو۔ اور اگر علم کی طرف توجہ ہو۔ یعنی علم حاصل کرنا، علم پھیلانا، علم کو آسان بنانا، اس چیز کی طرف توجہ ہو گی تو وہ یہ کام کرے گا۔ اور یہ تب ہو سکتا ہے جب مال کی طرف توجہ نہیں ہو گی۔ ہمارے حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ معذور تھے، لیکن انہوں نے بہت علمی کام کیا ہے، معذور فالج زدہ تھے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ بھی معذور تھے لیکن الحمد للہ بہت کام کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں الحمد للہ! لیکن فراوانی نہیں تھی۔ مجھے خود حضرت نے واقعہ سنایا ہے میٹرک کی اسلامیات کی کتاب اسکولوں میں حضرت کی لکھی ہوئی پڑھائی جاتی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ کتاب جب میں نے لکھی تو اس کا مقابلہ ہوا تھا، کیونکہ بہت سارے لوگوں نے لکھی تھیں تو پھر مقابلے میں پیش کی جاتی تھی اور جو منظور ہو جاتی اس کے مؤلف کو پیسے بھی ملتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں: خدا جانے کوئی قبولیت کا وقت ہو گا کہ میں نے اللہ پاک سے مانگا تھا کہ یا اللہ اس کتاب کو منظور کرا دے اس پر جو پیسے ملیں گے میں اس سے حج کروں گا۔ اب حج کے لیے پیسے نہیں تھے، یعنی حج ان پہ فرض نہیں تھا، چنانچہ جب وہ کتاب منظور ہو گئی اور پیسے مل گیے تو اس پہ second class میں حج ہو سکتا تھا۔ shipکی second class, third class کا کرایہ کم ہوتا ہے۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ تھرڈ کلاس میں چلے جائیں کچھ پیسے آپ کے کام آ جائیں گے۔ لیکن چونکہ وہ عالم بھی تھے، اس لیے ان سے فرمایا کہ اللہ پاک نے مجھے second class کا ٹکٹ بھیجا ہے میں third class میں نہیں جاؤں گا، اور second class میں چلے گیے۔

جب میں حج پہ جا رہا تھا تو مجھے نصیحت کی کہ دیکھو حج میں پیسوں پہ ہاتھ نہ رکھنا، حرم شریف جانے کے لیے 2 کلو میٹر پیدل چلنے کی بجائے اگر گاڑی ملتی ہو تو 2 ریال دے کر جایا کریں، وہ time بچا کے حرم میں گزارا کریں، پیسوں کو نہ دیکھیں۔ وہاں کی تمام برکات کو دیکھیں۔ یہی وہ علم ہے: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ(فاطر: 28) اللہ جل شانہ سے اصل حقیقت میں ڈرنے والے کون ہیں؟ وہ ایسے عالم ہیں جیسے حضرت مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ۔ ایسے عالموں کی بات نہیں ہے جو video میں منہمک ہیں، جہاں جاتے ہیں فوراً اپنی video بنا لیتے ہیں۔ Facebook پر اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں مشغول ہیں بیچارے، ان کی بات نہیں ہو رہی۔ جن کا دل اللہ کے ساتھ لگا ہوا ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں، خشیت والے علماء۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اصل علماء وہی ہیں جن میں خشیت ہے یعنی اس آیت کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اصل علماء وہی ہیں جو خشیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کی نشانی ہے اور ہر چیز اپنی علامت سے پہچانی جاتی ہے۔ لہذا جس عالم میں خشیت نہیں ہو گی تو وہ عالم نہیں ہے کیونکہ اس کو علم کی حقیقت نہیں پہنچی۔ اس کو الفاظِ علم ملے اور دوسروں کو بھی الفاظ منتقل کر رہے ہیں۔ جن کو علم ملا ہے ان کو خشیت بھی ملی ہے۔ ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28) لہذا اس کا یہ مطلب ہے۔

چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی صحیح ہے اور حدیث شریف تو یقیناً حق ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حدیث شریف میں جس زمانے کا فرمایا گیا ہے تو اس زمانے میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس مال نہیں ہو گا تو اپنے آپ کو فتنوں سے کیسے بچائیں گے؟

میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ذکر کیا ہے کہ مال خود بخود آسمان سے نہیں ٹپکتا، اس کے لیے محنت کرنی ہوتی ہے، لہذا اتنی انسان محنت ضرور کرے کہ اس سے اتنا مال کمائے کہ اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہو۔ اور کسی سے مانگنے کی اس کو ضرورت نہ ہو۔ باقی اگر ایسا اضطراری طور پر ہے جیسے: ﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ (النمل: 62) ’’کون ہے جو مضطر کی پکار کو سنتا ہے‘‘ تو اس کے لیے اللہ پاک راستہ پیدا کر دیں گے۔ یعنی جو مضطر ہو گا جیسے کوئی بیمار ہے، اس کا کوئی پوچھنے والا نہ ہو یا اس طرح کی کوئی اور مجبوری ہو تو ایسی اضطراری حالت میں جب وہ اللہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور سنے گا لیکن نظر اللہ پر ہو تو اللہ جل شانہ اس کے لیے ضرور راستہ کھولے گا۔ اور سب سے بڑا راستہ تقوی ہے ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجاً (الطلاق: 2) جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ راستہ نکال دیتا ہے۔ لہذا یہ راستے ہمارے پاس موجود ہیں ﴿وَ الَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69) تو کتنے زیادہ راستوں کی باتيں ہو گئیں، تقوی بھی ایک راستہ ہے۔ اور کوشش اور محنت یہ بھی ایک راستہ ہے تو یہ مختلف چیزیں ہیں ان کو استعمال کر کے انسان اپنے آپ کو فتنوں سے بچا سکتا ہے اور دعا تو ہر صورت میں لازمی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ