اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود 70 گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ جیسے آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔ سنن ابن ماجہ کی روایت ہے، ہمارے معاشرے میں سود اس طرح عام ہوا ہے کہ اس کو بہت کم لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔ نیز بہت سے مالی لین دین کے اندر سود داخل ہو جاتا ہے لیکن معاملہ کرنے والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں سود سے بچنے کے لیے کیا عملی طریقے اختیار کیے جائیں؟
جواب:
سود کے متعلق قرآن و حدیث میں باقاعدہ واضح احکامات موجود ہیں کہ کون سی چیز سود ہے اور کون سی سود نہیں ہے۔ اور علماء کرام نے اس پہ اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، لیکن مال کی محبت کی وجہ سے لوگ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ تین محبتیں بہت غالب ہیں۔ جاہ یعنی مشہور ہونے کی محبت، باہ یعنی لذتوں کی محبت اور مال کی محبت۔ مال کو اس امت کا فتنہ قرار دیا گیا ہے کہ میری امت کا فتنہ مال ہے، چونکہ مال کے ساتھ محبت ہوتی ہے جس وجہ سے انسان تحقیق نہیں کرتا۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں اور بہت زبردست مثال ذہن میں اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے، کسی کو شوگر کی بیماری ہو تو ڈاکٹر یا حکیم ان کو کہتا ہے کہ میٹھا نہ کھاؤ اور مریض خود بھی عقل مند ہوتا ہے کیونکہ اکثر شوگر بڑی عمر والوں کو ہوتی ہے جب ان کی عقل باقاعدہ کامل ہوتی ہے، اس کے با وجود اگر کوئی میٹھی چیز سامنے آ جائے اور کوئی نہ روکے تو باتوں باتوں میں کھا جاتے ہیں، بلکہ اگر کوئی ذرا بھر بھی اشارہ کر دے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا، بس اسی کو وہ دلیل بنا کر میٹھا کھا لیں گے، یہ نہیں دیکھیں گے کہ نقصان میرا ہے دوسرے کا نہیں ہے۔
ایک دفعہ meeting میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں ہمارے head بھی موجود تھے جو کافی ذمہ دار افسر ہوتے ہیں انہوں نے دو بسکٹ میرے سامنے کر دیے کہ شاہ صاحب ان کو دم کر دیں، مجھے شوگر ہے میں یہ کھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کل مجھ سے اپنے لیے زہر دم کروا لیں، کہتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا کیا یہ میٹھا بسکٹ آپ کے لیے زہر نہیں ہے؟ کہتے ہیں جی ہے۔ میں نے کہا صرف بسکٹ ہی مجھ سے کیوں دم کرواتے ہو؟ پانی دم کروا لو، نمک دم کروا لو اگر بلڈ پریشر نہیں ہے، خواہ مخواہ یہ بسکٹ ہی آپ نے مجھ سے دم کروانے ہیں؟ اس لیے میں کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے اپنے لیے زہر دم کروا لو، لیکن چونکہ ان کو بسکٹ کھانے کا شوق تھا لہذا اپنے لیے کوئی مقدس بہانہ بنانا چاہتے تھے کہ چلو شاہ صاحب نے دم کر دیا اب یہ بسکٹ کچھ نہیں کہیں گے۔ یوں وہ اپنے آپ کو طفل تسلیاں دینا چاہتے تھے۔ بہر حال مال کی محبت چونکہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اس کو حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ قرآن پاک کی جو آیت ہم پڑھ رہے تھے: ﴿وَ تَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا وَّ تُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ (الفجر: 19-20) لہذا انسان اپنی مال کی محبت سے مجبور ہو کر چشم پوشی پہ آ جاتا ہے، اس وقت اگر کوئی بتائے بھی تو light لیتا ہے، اس پہ زیادہ غور نہیں کرتا، بس اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے کہ مجھے پتا نہیں ہے، حالانکہ اگر ذرا گہرائی میں جا کے غور کرے تو پتا چل سکتا ہے۔ اب ذرا اس حدیث شریف کو اگر ساتھ ملا لیا جائے کہ میری امت کا فتنہ مال ہے اور پھر اس بات کو سامنے رکھا جائے کہ اخیر میں لوگوں تک سود کسی نہ کسی طریقے سے پہنچ جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ بہت کثرت کے ساتھ اس میں مبتلا ہو جائیں گے مال کی محبت کی وجہ سے۔ اور ایسے نظام بنا لیں گے کہ اس نظام سے نکلنا پھر مشکل ہو جائے گا۔
اب جو علماء کرام بچنا چاہتے ہیں ان کی کیا تحقیق ہے، حاصلِ تحقیق کیا ہے؟ کیونکہ کوئی طریقہ تو ہو گا جیسا کہ آپ نے طریقہ پوچھا ہے، لہذا طریقہ یہ ہے کہ جہاں انفرادی اصلاح کی ضرورت ہے وہاں انفرادی اصلاح کرنا لازم ہے اور اپنی اپنی انفرادی اصلاح ہر ایک شخص پر لازم ہے۔ انفرادی اصلاح دو قسم کی ہے، ایک تو مال کی محبت کا علاج ضروری ہے یہ بھی انفرادی اصلاح ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ جس چیز سے میں رک سکتا ہوں اس سے مجھے رکنا چاہیے۔ مثلاً مجھے bank سے پیسے مل رہے ہیں سودی account سے۔ اب اگر میں غیر سودی account bank بنا سکتا ہوں تو مجھے غیر سودی account بنانا چاہیے یہ میرے اختیار میں ہے۔ چونکہ میرے لیے option موجود ہے لہذا مجھے وہی کرنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں بھی کوئی مسئلہ ہو اور اس کے با وجود سودی پیسے اس طرح آ رہے ہوں تو یہ سودی رقم جس کو ہم سود کہہ سکتے ہیں یا جس پر سود کا گمان ہو سکتا ہے یہ مجھے کسی غریب کو بغیر ثواب کی نیت کے دے دینی چاہیے، اس سے میرا مال پاک ہو جائے گا۔ چونکہ میں نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ وہ تو دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، البتہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جو لوگ کوششیں کر رہے ہوں ان کے ساتھ تعاون کرنا ہم پر لازم ہو گا تاکہ ہم لوگ بھی اس میں اپنا حصہ ڈال لیں، اور پھر ہم اپنے آپ کو justify کر سکیں کہ ہم اس چیز کو نہیں چاہتے۔ لہذا یہ دو طریقے ہیں۔ ایک انفرادی اصلاح کا اور پھر انفرادی اصلاح میں بھی دو باتیں ہیں ایک یہ کہ علم حاصل کریں، فرض عین درجے کے علم میں سب معاملات کا علم حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ لہذا اس قدر حاصل کرنا ضروری ہے کہ انسان سود، جوئے، بیع فاسد وغیرہ تمام چیزوں کو جان سکے تاکہ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اور فرضِ عین درجے کا علم زیادہ مشکل نہیں ہے دو ڈھائی مہینے میں حاصل ہو سکتا ہے، تو دو ڈھائى مہینے سے آپ کی پوری زندگی اگر بچ سکتی ہے تو اتنے دن کی محنت ضرور کرنی چاہیے، لہذا معاملات کا فرضِ عین درجے کا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ اسے پتا چلے کہ کون سی چیز سود ہے اور کون سی چیز سود نہیں ہے۔ پھر اس میں 2 قسم کا سود ہو گا ایک وہ سود ہو گا جس سے آپ بچ سکتے ہیں اس سے تو بچیے، اور ایک سود ایسا ہو گا جس سے انتظامی طور پر آپ نہیں بچ سکتے لیکن اس سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کو کوئی ایسی رقم مل گئی تو آپ وہ کسی غریب کو دے دیں، خود اس کو استعمال نہ کریں۔ چنانچہ اس وقت بھی بچنے کے راستے موجود ہیں البتہ مشکل ضرور ہیں، لیکن مشکل وقت میں عمل کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی جو عمل انسان عام حالت میں کرتا ہے اس کی نسبت مشکل حالت میں کرنے پہ اجر زیادہ ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ بیرونی ممالک یورپ وغیرہ چلے جاتے ہیں جہاں فسق و فجور اور کفر کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہاں جو لوگ ان چیزوں سے بچتے ہیں تو ان کو اللہ تعالیٰ ولی اللہ بنا دیتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک آدمی یہاں سے بالکل clean shave جاتا ہے اور وہاں سے ما شاء اللہ متشرع ہو کر آ جاتا ہے، حالانکہ یہاں اگر ہوتا تو شاید اس کو یہ خیال نہ آتا لیکن وہاں مقابلے کی صورت بن جاتی ہے اس لیے انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ پاک اس کو قبول فرماتے ہیں۔ جیسے فرمایا: ﴿فَفِرُّوْا إِلَى اللهِ﴾ (الذاريات: 50) یعنی اللہ کی طرف بھاگو۔ یعنی جب انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ ہر طرف سے پھنس جاتا ہے اس وقت وہ جو بے تحاشا اللہ کی طرف بھاگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دروازے کے قفل کھولتے رہتے ہیں، جیسے یوسف علیہ سلام کے ساتھ معاملہ ہوا تھا کہ قفل کھلتے رہے۔ لہذا قفل کھولنا اللہ کا کام ہے لیکن بھاگنا یعنی کوشش کرنا ہمارا کام ہے۔ یہی اگر ہم لوگ سیکھ لیں تو میرے خیال میں ہدایت ہر وقت روز روشن کی طرح بالکل موجود ہے۔ صرف ہم اس کو لینے والے بن جائیں، حاصل کرنے والے بن جائیں، قبول کرنے والے بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ