اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ایسے متقی گمناموں کو کہ جب وہ غائب ہوں تو تلاش نہ کیے جائیں اور جب حاضر ہوں تو بلائے نہ جائیں اور نہ قریب کیے جائیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، نکلتے ہیں اندھیری زمین سے۔
کیا اس حدیث سے مراد گمنام اولیاء ہیں جن کو بہت کم لوگ ولی اللہ اور متقی سمجھتے ہوں، وہی اصل میں اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں؟ یا اس حديث شریف میں مراد صرف وہ اولیاء ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے لیے منتخب کیا ہے، مخلوق کی خدمت پر معمور نہیں کیا؟
جواب:
یہ صحيح حدیث شریف ہے، لہذا یقیناً ہم اس کو مانتے ہیں، البتہ قرآن پاک میں جو اولیاء کرام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ نص قطعی ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَO اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس: 92-93) یہاں صرف اور صرف ایک ہی شرط بتائی گئی ایمان والوں کے لیے کہ ایمان کے ساتھ انہوں نے تقوی اختیار کیا ہو، پس جنہوں نے بھی تقوی اختیار کیا وہ اللہ کے دوست ہیں، یعنی جس میں ایمان بھی ہو اور اس نے تقوی بھی اختیار کیا ہو۔ ایسا شخص کتنا بڑا ولی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے: ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ (الحجرات: 13) ”بے شک اللہ کے نزدیک وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ تقوی والا ہے“ یعنی جس حد تک جس میں تقوی ہے اس حد تک اللہ کے ہاں اس کا اکرام ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قریب فرماتے ہیں۔ پس پتا چل گیا کہ general بات تو یہی تقوی ہے۔ لیکن یہاں گمنام متقی کی بات کی گئی ہے، گویا ان میں گمنامی کی تخصیص ہو گئی۔ باقی general اولیا اللہ میں سے ہے، لہذا اس کا گمنام ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ مجدد گمنام نہیں ہوتا، بلکہ وہ ظاہر ہوتا، سارے صحابہ کرام گمنام نہیں تھے وہ بھی اولیاء تھے، مگر گمنام نہیں تھے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ گمنام نہیں ہیں، خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ گمنام نہیں ہیں، یہ سب اولیاء گمنام نہیں ہیں لیکن بڑے مرتبے کے اولیا ہیں۔ البتہ گمنام اولیاء، اولیاء اللہ کی ایک خاص قسم ہے۔ دراصل کچھ تکوینی اولیاء ہوتے ہیں وہ بھی چھپے ہوتے ہیں کیونکہ تکوینی اولیا اکثر چھپے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گمنام متقی بھی چھپے ہوتے ہیں، اس میں عام لوگوں کے لیے ایک اشارہ بھی ہے کہ کسی خستہ حال آدمی کو دیکھ کر کوئی اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ایسے شخص کی بے عزتی کرے کہ اپنے لیے مصیبت بنالے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہی ولی ہو۔ کیونکہ بعض لوگ صرف ظاہری شان و شوکت کے مالک لوگوں کا خیال رکھتے ہیں، یہاں اس بات پر رد کیا گیا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ ان کی ظاہری شان ان جیسی ہو جن کو لوگ مقام والے سمجھتے ہوں۔
جیسا کہ قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ کفار نے آپ ﷺ سے کہا تھا کہ آپ کے ساتھ جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں ہم آپ کے پاس نہیں آ سکتے، کیونکہ یہ بہت کم مرتبے کے لوگ ہیں جس سے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ تو ان کے لیے کیا فرمایا: ﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَن ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوَاهُ وَ كَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا﴾ (الکہف: 28) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کو زیادہ محبوب ہیں، اور یہ لوگ جو بظاہر اونچی شان والے ہیں، اُن کے مقابلے میں اِن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے کچھ ایسا انتظام فرمایا ہے کہ اپنے کچھ اولیا اللہ کو چھپا دیا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ میرے دوست ہے۔ دیکھو! موسی علیہ السلام نے گڈریے کو تھپڑ مارا لیکن انہیں پتا چلا کہ یہ تو اللہ کا ولی ہے تو اس کے پیچھے دوڑے کہ وہ میرے اللہ کا ولی ہے، میں اس سے معافی مانگوں۔ انسان اللہ کے ولی ہونے کے لحاظ سے صاحبِ اکرام ہو جاتا ہے کیوں اللہ کے نزدیک وہ مکرم ہے، لہذا لوگ اگر کسی خستہ حال آدمی کو دیکھیں تو چاہیے کہ وہ ان کے اوپر ظلم نہ کریں، ان کی بے اکرامی نہ کریں۔ اکرامِ مسلم ایک عام چیز ہے جس میں سب شامل ہیں، ہم آج کل تبلیغ والے حضرات کو بھی کہتے ہیں کہ اپنے اکرامِ مسلم والے نمبر کو خاص نہ کرو، یہ عام ہے، آپ لوگوں نے اکرامِ تبلیغی کو ہی اکرامِ مسلم سمجھ لیا ہے کہ جو تبلیغ کے لیے آپ کے ساتھ جاتا ہے اس کا اکرام آپ کے اوپر واجب ہے، باقی مسلمانوں کا اکرام آپ کے اوپر واجب نہیں ہے؟ یہ بات ہم ان کو از راہِ مزاح کہتے ہیں کہ اکرامِ مسلم کا جو نمبر ہمارے بزرگوں نے رکھا ہے یہ سارے مسلمانوں کے لیے ہے، لہذا سب مسلمانوں کا اکرام کرو، صرف تبلیغ والوں کا اکرام کرنا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح صرف اونچی شان والے بزرگوں کا ہی نہیں بلکہ عام خستہ حال لوگوں کا بھی اکرام کرنا چاہیے جن کو لوگ کچھ نہ سمجھتے ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو اس قسم کے حضرات مل جائیں تو یہ اللہ والے ہوتے ہیں چاہے وہ جس حالت میں بھی ہوں، ان کا اکرام کیا کریں۔ بلکہ بعض اللہ والے بڑے جلالی ہوتے ہیں اور بعض جمال والے ہوتے ہیں، جلال والوں کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں یہ کیسا بزرگ ہے؟ حالانکہ اللہ پاک نے ان کا مزاج ہی ایسا بنایا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ تھے مولانا فقیر محمد رحمۃ اللہ علیہ، یہ ہر وقت روتے رہتے تھے ان کا لقب ہی ابو البکاء تھا کہ ہر وقت رونے والے۔ ایک دوسرے خلیفہ تھے جو ہر وقت ہنستے رہتے تھے ان کا لقب ہی ضحاک تھا یعنی ہنسنے والے۔ اب دیکھو! حضرت کے ایک خلیفہ ہنس رہے ہیں اور اللہ کے ولی بھی ہیں، اور جو رو رہے ہیں وہ بھی اللہ کے ولی ہیں۔ اس طرح ایک بزرگ حضرت مولانا عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت غصہ کرنے والے تھے وہ بھی اللہ کے ولی تھے حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، وہ بہت جلالی تھے، جب غصے میں بولتے تھے تو حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ خاموشی کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑے ہو جاتے تھے، لوگوں نے پوچھا حضرت! آپ ان کے پیچھے کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ ان کا غصہ اللہ کے لیے ہوتا ہے، حق کے لیے ہوتا ہے، نفس کے لیے نہیں ہوتا، لہذا اس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اتر رہی ہوتی ہے اس لیے میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہوں تاکہ مجھے بھی اس رحمت کا کچھ حصہ مل جائے۔ چنانچہ ان کا غصہ بھی اللہ کو پیارا تھا۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کوڑا ہوتا تھا، اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت نرم مزاج تھے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بہت نرم مزاج تھے، در اصل یہ مختلف مزاج اللہ پاک نے بنائے ہیں، ہر مزاج میں ولی اللہ موجود ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مزاج فطری چیز ہے، جس طرح ہر نسب میں، ہر جگہ پر اللہ پاک کے اولیاء موجود ہو سکتے ہیں چاہے وہ کالا ہو چاہے گورا، چاہے پٹھان ہو چاہے پنجابی، چاہے بلوچی ہو، چاہے عرب ہو، چاہے عجم۔ سب میں اولیاء اللہ موجود ہیں، پہاڑوں میں موجود ہیں، غاروں میں موجود ہیں، ملاح کے صورت میں موجود ہیں، اسی طرح ہر حالت میں اولیاء اللہ موجود ہیں، صحابہ بھی اس طرح ہر حال میں موجود تھے۔ اسی طرح اولیاء اللہ ہر حال میں موجود ہیں، اور ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی ولی کی بے اکرامی کر کے، ان کو تکلیف پہنچا کر اللہ پاک کے غصے کا اپنے آپ کو مستحق نہ بنا دیں۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ